اقبالؒ ملوکیت ،ملائیت اور جاگیرداری کے درمیان رابطے کو
توڑنا چاہتے تھے:پروفیسروحیدالزمان طارق
رپورٹ:حسیب اعجازعاشرؔ
اسلام کیمطابق حقیقی طرزحیات سے دوری کی باعث وطن عزیز میں تعصب، گروہ
بندی،فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں۔ موقع پرست دشمنان اسلام و
پاکستان نے ہماری اِس خامی کو ہمارے ہی خلاف استعمال کیا ۔اگر آج ہم نے
اپنے آپ کو مفکر پاکستان علامہ اقبال کے خیالات ، نظریات اور تعلیمات کے
عین مطابق ڈھال لیا ہوتا تو یوں جگ رسائی نہ ہو رہی ہوتی ۔اقبال نے کہا تھا
کہ
147Is the organic unity of Islam intact in this land? Religious
adventurers have set up different sects and fraternities, ever
quarrelling with one another. Islam is one and indivisible; it brooks no
distinctions in it. There are no Wahabies, Shaias or Sunnies in Islam.
Fight not for the interpretations of the truth, when the truth itself is
in danger.148
دانشوروں کے نزدیک باہمی رنجش و انتشار کی بڑی وجہ ملائیت کی اجارہ داری
اور مذہب کی اپنی اپنی وضاحیتیں بھی قرار دیاجاتا ہے علامہ اقبال اپنی کتاب
’’جاوید نامہ‘‘ میں ملائیت کے بارے کچھ یوں لکھتے ہیں۔
کم نگاہ کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت ازقال و اقولس فرد فرد
مکتب و ملا و اسرار کتاب
کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
مگر یہاں یہ بات بھی غورطلب ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے تمام ملاؤں پر تنقید
نہیں کی ۔یہی کہنا تھا ادبستان اقبال ؒ کے زیراہتمام لیکچربعنوان ’’اقبال
اور ملائیت‘‘میں معروف ماہر اقبالیات ڈاکٹر وحیدالزمان طارق کا ۔اپنے
پُراثر و مدلل خطبے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ علامہ اقبال نے صرف اُن ملاؤں
پر تنقید کی جن کے نظریات اور خیالات کے ساتھ علامہ متفق نہیں تھے۔علامہ کے
کچھ اپنے عہد کے نامور ملاؤں کیساتھ اچھے مراسم بھی تھے،مزید کہاکہ علامہ
اقبال کے نزدیک مسلمان وسیع النظری اور بالغ النظری کے ساتھ قرآن کا مطالعہ
کرے تاکہ وہ اپنے مذہب کو اپنی تہذیب کو اپنی تاریخ کو سمجھ سکے ،لیکن جب
ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مدرسوں کے علوم اِس لئے فرسودہ ہوچکے کہ
وہاں پُرانے خیالات اور پُرانے نظریات کو مدنظر رکھا جاتاہے ،تو ایسے میں
اُنکا کہناتھا کہ یہ علوم کو مزید پڑھایا جانا مناسب نہیں۔اور یہ نقطہ بھی
علامہ کے سامنے تھا کہ قرآن پاک اور حدیث اور حضورﷺ کا پیغام ہمارے ذہنوں
کو کشادہ کرنے کیلئے مائل کرتا ہے ۔تقلیدِ محض کے علامہ خلاف تھے کہ اُن کا
خیال تھا کہ آنکھیں بند کر کے کسی کی پیروی ٹھیک نہیں ۔وہ سمجھتے تھے کہ ہر
کوئی خود قرآن کو پڑھے اور سمجھے ۔اِس لئے علامہ اقبال نے اُن ملائیت پر
تنقید کی جو اپنی اجاردہ داری چاہتے اور اپنی مرضی کی وضاحتیں کرتے تھے
کیونکہ کچھ ملاؤں نے بادشاہت کا بھی ساتھ دیا تھا ۔۔اِس لئے ملوکیت ،ملائیت
اور جاگیرداری کے درمیان جو ایک رابطہ بنا ہوا ہے اُس کو کسی طریقے سے توڑا
جائے ۔
اِس موقع پر پروفیسر وحیدالزمان طارق نے ’’علامہ نے شیخ حرم کس کو
کہا؟‘‘،’’دوسری جنگ عظیم اور عبیداللہ سندھی ‘‘جیسے موضوعات پر بھی سیرحاصل
وضاحت کی ۔اُنہوں نے ’’فیضان اقبال‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی
انکشاف کیا ہے کہ ’’1969سید عبداللہ نے اِسکے دباچے میں لکھا ہے کہ میں
تمام اکیڈمیز سے تنگ ہوں اگر اقبال کی خدمت کرنی ہے تو بہتر ہے کہ دابستان
اقبال کی بنیاد رکھی جائے ‘‘۔اپنے خطبے میں تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے ،اور
کڑیوں سے کڑیاں ملاتے ہوئے وحیدالزمان طارق نے کئی حقیقتوں کو بھی بے نقاب
کیا اُنہوں نے خلیفہ عبدلحکیم کی مقبول زمانہ کتاب ’’اقبالؒ ملا‘‘ کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا کہ اِس کتاب کے باعث اقبالؒ کا نام کو دومختلف ادوار میں غلط
استعمال کیا گیا ،پہلی بار تحریک ختم نبوتﷺ کاآغازہوا تومولویوں کی طاقت کم
کرنے کیلئے ۔ اور دوسری بار دورِآمریت میں مولویوں کو مضبوط کرنے کیلئے
بھی۔
فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست
مرومانند ماہی غافل از شست
دوسرے اور آخری سیشن میں وحیدالزمان طارق نے شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے
سوالات کے تسلی بخش جوابات بھی دیئے ایک سوال کے جواب میں اُنکا کہنا تھا
کہ اسلام کے اصول کے مطابق کوئی بھی ملائیت نہیں ہے ،کوئی بھی اجارہ داری
نہیں ،اسلام ہر بندے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ مطالعہ کرے اور قرآن کو
سمجھے ،جس دن قرآن صیح انداز میں پڑھا جانے لگاتو پھرمعاشرے سے جہالت کے
اثرات ختم ہو جائیں گے ،مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی سستی سے یہ ذمہ
داری مولویوں کو سونپ رکھی ہے۔ پروفیسر وحیدالزمان نے وحی اورالہام میں
بنیادی فرق پر بھی بات کی۔
تقریب میں میاں اقبال صلاح الدین ،علی حسن، کاشف مغل، مستحسن رضوی،رانا
امیر احمد خان اورڈاکٹر ایاز سمیت اقبالؒ سے خاص لگاؤ رکھنے والی معروف
ادبی شخصیات کی کثیرتعداد نے شرکت کی ،تقریب میں شرکاء کی بھرپوردلچسپی
قابل دید تھی۔ ڈاکٹر عبدالخالد، طارق حمید، مقصود اظہر نے مہمان خصوصی کو
اِس موقع پر تحائف بھی پیش کئے ۔اور یوں طارق حمید کے اختتامیہ کلمات کے
ساتھ ایک شاندار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی ۔
|