اگر پاکستان اور بھارت نے چند ماہ بعد مشترکہ جنگی مشقیں
کیں تو یہ ایک منفرد پیش رفت سمجھی جائے گی۔ آج دونوں ممالک کے تعلقات
کشیدہ ہیں۔ کشمیر میں بھارتی قتل عام اور آزاد کشمیر پر جارحانہ گولہ باری
نے تعلقات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ملکوں کے درمیان
حقیقی دوستی کبھی قائم نہ ہو سکی، تو غلط نہ ہو گا۔ جب دنیا ایٹمی جنگ کے
خدشات ظاہر کر رہی ہے۔ اسی لئے اگست اور ستمبر 2018کو پاکستان اور بھارت کی
افواج کی مشترکہ جنگی مشقیں سب کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ شنگھائی تعاون
تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت ایک ساتھ موجود ہیں۔ ویسے دونوں
اقوام متحدہ اور اس کے دیگر فورمز پر بھی موجود ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ
اہمیت نہیں دی گئی۔ کیوں کہ سارک میں بھی دونوں ایک ساتھ بھی ہیں اور آمنے
سامنے بھی ہیں۔ بلکہ سارک یرغمال بن چکی ہے۔ جب سارک سربراہ اجلاس پاکستان
میں منعقد ہونا تھا تو بھارت نے اس سے دوری اختیار کر لی۔ تا ہم شنگھائی کا
معاملہ مختلف ہو گا۔ عالمی میڈیا نے بھی اسے مختلف نگاہ سے دیکھا ہے۔ بعض
سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کا ایس سی او میں رہتے ہوئے مشترکہ فوجی
مشقوں میں حصہ لینا روایتی بات ہے مگر بعض اسے عالمی جنگ سوم روکنے کی جانب
اشارے سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت 2017میں ایس سی او کے رکن بنے ہیں۔
پہلے چین، روس، قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان اس کے ممبر تھے۔
افغانستان، بیلاروس، ایران، منگولیا کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کا
درجہ حاصل ہے۔ آرمینیا، آزربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا، ترکی کو
ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا گیا ہے۔ آسیان، سی آئی ایس، ترکمنستان اور
اقوام متحدہ مہمان کے طور پر شریک رہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں اب
بنگلہ دیش، مصر، شام بھی مبصر کے طور پر شامل ہونے کی درخواست دے چکے ہیں۔
اسرائیل، مالدیپ، یوکرائن، عراق، بحرین، قطر ، ویتنام بھی اس میں پہلے
ڈائیلاگ پارٹنر اور مبصر اور پھر باضابطہ طور شامل ہونے کی خواہش ظاہر کر
رہے ہیں۔ یعنی نصف دنیا سے زیادہ ایس سی او میں شامل ہو رہی ہے۔ ایس سی او
ممالک کے درمیان اس سے پہلے کئی جنگی مشقیں ہو چکی ہیں۔ اب یہ پہلی مشقیں
ہوں گی جن میں پاکستان، بھارت اور چین کی افواج ایک ساتھ شامل ہوں گی۔
بھارت کے پاکستان اور چین دونوں سے سرحدوں اور کشمیر کی جنگ بندی لکیر پر
تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ خونین معرکہ بھی ہو رہے ہیں۔ جس میں دونوں اطراف
سے جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ایس سی او ممالک کے درمیان فوجی تعاون،
خفیہ معلومات کا تبادلہ، انسداد دہشتگردی میں تعاون جیسے اقدام ہو رہے ہیں۔
اسرائیل جیسے کہ ایس سی او میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مستقبل میں اگر اسے بھی
شامل کیا گیا تو یہ پیش رفت انتہائی دلچسپ ہو گی۔ فوجی اور سلامتی کے
معاملات میں تعاون سمیت اقتصادی تعاون زیادہ اہمیت اور ضرورت بھی ہے۔ جون
2018کو ایس سی او کا چین میں سربراہ اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے ایک ماہ
بعد رکن ممالک کی افواج کے درمیان مشترکہ مشقیں ہوں گے۔ تا ہم مبصرین کو
خدشہ ہے کہ ایس سی او میں اگر بلاک بن گئے تو اس کا حشر بھی سارک جیسا ہو
سکتا ہے۔ سارک میں دو ہاتھیوں کی لڑائی میں چھوٹے ممالک کچلے گئے۔ جیسے
ہاتھی گھاس کو مسل دیتے ہیں۔ اس تصادم اور تناؤ نے خطے کی معاشی ترقی میں
باہمی تعاون اور دوستی پر روک لگا دی ہے۔ سارک اور ایس سی او رکن ممالک
ثالثی بھی نہیں کر سکتے۔ تنظیموں کا چارٹر ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت
یا دوطرفہ معاملات ان فورمز پر اٹھا نے کی اجازت نہیں دیتا۔ صرف اجتماعی
نوعیت کے بارے میں بات چیت یا تعاون ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم دو طرفہ
ایشوز کو حل کرنے کے لئے ثالث یا مصالحت کار کے طور پر خدمات پیش کریں تو
پیش رفت ہو سکتی ہے۔
24اپریل کو پاکستان اور بھارت کے وزرائے دفاع نے پہلی بار ایس سی او اجلاس
میں ایک ساتھ شرکت کی۔ ان کے درمیان کوئی بات چیت ہوئی یاکسی بات چیت کا
کوئی عندیہ دیا گیا، اس بارے میں ابھی خاموشی ہے۔ یہ بیجنگ میں ایس سی او
وزرائے دفاع کا 15واں اور پاک بھارت وزراء کا پہلا مشترکہ اجلاس تھا۔ جنوری
2016سے دونوں ممالک میں بات چیت نہیں ہو رہی ۔ بیجنگ میں بھارتی خاتون وزیر
دفاع نرملا سیتا رمن اور پاکستان کی طرف سے خرم دستگیر خان اس میں شریک تھے۔
اگر چہ چین کے وزیر دفاع وائی فن چی نے انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر
کے لئے ایس سی او کے کردار کا ذکر کیا مگر پاک بھارت کے تناظر میں کشمیر،
پانی اور سیکورٹی جیسے تنازعات کی موجودگی میں فی الحال ایسا نظر نہیں آ
رہا ہے۔ یہ بھی خدشہ موجود ہے کہ پاک بھارت کے درمیان تنازعات حل نہ کئے
گئے تو ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ کسی فورم کے پلیت
فارم سے مشترکہ جنگی مشقیں ایٹمی جنگ یا تیسری عالمی جنگ کو ٹال سکتے ہیں،
قبل از وقت ہو گا۔ جب بیجنگ میں پاک بھارت وزرائے دفاع ایک ساتھ بیٹھے
ڈائیلاگ اور دفاعی اور فوجی تعاون پر غور کر رہے تھے اس وقت بھارتی
وزیراعظم نریندر مودی لندن میں پاکستان مخالف بیان بازی کر رہے تھے۔ جس پر
چین کی جانب سے ردعمل آ گیا۔ ایس سی او اجلاس سے بھارتی وزیر خارجہ سشما
سوراج اور پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف بھی شامل ہوئے۔ یہاں سشما سوراج نے
بھی پاکستان پر شدید حملے کئے۔ اگست میں روس کے اورال پہاڑوں پر جب پاکستان
اور بھارت کی افواج ایک ساتھ دہشتگردانہ حملوں کے مقابلہ کرنے کی مشقیں
کریں گے تو دونوں ممالک کی کشیدگی میں اسے بہرحال بظاہر ایک پیش رفت سمجھا
جائے گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت تنازعات کے حل کے لئے
بھی سنجیدہ بات چیت کی مشقیں بھی بحال کریں گے تا کہ تنازعات کے حل کے بعد
یہ درست طور پر کہا جائے کہ دونوں تیسری عالمی جنگ روکنے میں کردار ادا
کرسکتے ہیں۔
|