مو لا نامفتی سید محمد ریاض ندوی کھجناوری مہتمم جا معہ
اسلا میہ عزیز القرآن کھجناور
سینکڑوں اور ہزاروں افراد کے مربی و مصلح ،مخلص و با خدا ہستی جا مع صفات و
منبع فیوض و بر کا ت ایک مثالی عر فا نی وروحانی شخصیت عارف باﷲ حضرت مو لا
نا مفتی عبد القیوم صاحب رائے پوری ؒ فرشتوں کے ذریعہ مژدۂ جانفزا یا ایتھا
النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مر ضیۃ فا دخلی فی عبا دی وادخلی جنتی
سننے کے لئے سوئے دربا ر خا لق کو ن و مکاں کو چ کر چلے ، ہم سب کو چھوڑ کر
چلے گئے،اب انہیں کو ئی چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈے ،لیکن اپنی عقیدت و محبت
کے ساتھ ساتھ لا کھوں ان گنت مسلما نوں میں دین و ایمان کی شمعیں روشن کر
گئے ،آہ !ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ،اور ایک عہد ساز شخصیت دینی ،ایمانی
،اصلاحی تعلیمی و تدریسی اور انسانی خد ما ت کے انمٹ نقوش چھوڑکر اپنے خالق
حقیقی سے جا ملی،موت ایک فرد کی نہیں ،فرد فرید کی ہے ،ایک نعمت تھی جو
اٹھا لی گئی ،ایک تحفہ تھا جسے ہم نے کھودیا ،لیکن ہم کو بھی یقین ہے کہ
ربانی دسترخوان پر ان کے لئے نعمتیں چن لی گئی ہو ں گی ،رب کریم نے اپنی
مخصوص رحمتوں میں ان کو سایہ دے کر ڈھانپ لیا ہو گا ،جس شخصیت کو یہ
ـــــــ’’بلند مرتبہ‘‘ حاصل ہو تا ہے اس کا خمیر بھی جن عناصر سے تیار ہو
تا ہے وہ طا ہر و مطہر ہوتے ہیں ۔
دو آبہ کی مشہور و معروف بستی رائے پور کی خانقاہ عالیہ رحیمیہ اصلاح و
تربیت ،رشد و ہدایت ،ایما ن و یقین ،معرفت و خشیت اور تقوی و طہارت میں ایک
الگ شان ،آن بان ،اور اہم تاریخی حیثیت رکھتی ہے جس نے ہر آنے والے انسان
کو ایما نی و اسلا می ، دینی و فکری ،اصلا حی وروحانی اور اخلا قی و عر فا
نی زندگی عطا کی ،اور انسانیت کی مسیحائی وچا رہ گری اور راہ نمائی میں ایک
عظیم انقلا ب بر پا کیا ،جس نے اپنی گود سے ایسے رجا ل اﷲ و اولیا ء اﷲ جنم
دئیے جن ہوں نے بزم تصوف کے میخانوں میں رندوں کو عشق و معرفت کے جام
تھمائے ،جن کے ذریعہ سے زندگیوں میں تازگی آئی ،مردہ ارواح میں ایما نی
آسودگیا ں ظاہر ہو ئیں ،فکر و شعور کے نئے نئے دریچے وا ہوئے ،اور پژ مردہ
قلوب بہار ایمانی سے جگمگا ئے،عا دتیں عبا دات بنیں ،عبا دتوں نے ریا ضتوں
کا درجہ لیا ،اور پھر ان پاک طینت و پا کبا ز وستودہ صفات اشخاص و نفوس نے
خدا عز و جل کی با رگا ہ میں اپنی عبدیت و انا بت کا وہ نذرانہ پیش کیا کہ
جس سے راضی ہو کر بارگاہ خداوندی سے ان نفوس اور اس خا نقاہ کو محبوبیت و
مرجعیت کا وہ پروانہ ملا کہ یہ خانقاہ اصلاح و تربیت کا عظیم مر کز بن گئی
،اور مردم گری و مردم سازی میں یہ عوام و خواص کا مرجع بن گئی ،یہاں سے
اپنے عہد کے بڑے بڑے علما ء اور قائدین نے روحانی فیض حاصل کر کے اپنی مخفی
صلاحیتوں کو اجا گر کرکے لوگوں میں حرارت ایمانی پیدا کی اور دلوں کو اﷲ سے
جوڑنے، طبیعتوں کو اسلا می طرز پر ڈھالنے ،فکروں کو راہ راست پر لا نے اور
پژ مردہ قلوب کو تازگی بخشنے کا وہ عظیم کا رنا مہ انجا م دیا ،کہ پھر یہ
خانقاہ ارشاد وتربیت اور دعوت و اصلاح کی آما جگاہ بن گئی ،پھر تاریخ نے وہ
دور بھی دیکھا کہ یہاں نفوس قدسیہ کو دیکھنے ان سے استفادہ کرنے کے لئے
خلقت امنڈ پڑی،خواص و عوام یہاں آکر ٹھنڈی سانس لینے لگے ،اور یہ عقیدتوں
کا محور و مرکز بن گئی یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حضرات جن مقا ما ت سے گذر گئے
علم و عمل کے گلشن آبا د کر گئے ،اجڑے ہو ئے دلوں کو شاداب کر گئے ،عظمت و
رفعت ان کا مقدر بن گئی ،قدر و منزلت کی نگا ہ سے ان کودیکھا جا نے لگا ،دل
کی تاریک دنیا اسلامی نور و تابش سے جگمگا اٹھی ،اور تعلیم و تربیت ،عبا دت
و معرفت ،رشد و ہدایت کے چشمے جا ری وساری ہوئے،اصلاح و راست بازی کے جوت
جگائے گئے ،جس کے ذریعہ سے لا کھوں بندگا ن خدا دین و مذہب اور سنت و شریعت
سے وابستہ ہوئے اور اس دکان معرفت سے وہ دوائے درد دل تقسیم ہو ئی جس نے
قلوب کو صیقل کیا،نفس کا تزکیہ کیا ،اخلا قی انارکی کو تہذیب سے مزین کیا
،روح کو پاکیزہ کرکے ایمانی حرارت کو تازگی بخشی ،اس وقت خانقاہ کے مسند
نشیں بہت سی صفات ،امتیازات اور خصوصیات کے مالک ۔ولئی کا مل حضرت الحاج
حافظ عبد الر شید صاحب ؒ کے خلیفہ اور ان کے پوتے اور حضرت مفتی صاحب ؒ کے
داماد ۔الحاج منشی عتیق احمد صاحب رقم طراز ہیں ۔خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے
پور میں یہ سلسلۂ ہدایت و تربیت ،اور طریقہ بیعت و ارشاد حضرت مو لا نا شاہ
عبد الرحیم صاحب رائے پوریؒ سے شروع ہوا ،آپ کے بعد آپ کے دو جا نشیں قطب
الا قطاب حضرت مو لا نا شا ہ عبد القادرصاحب رائے پوریؒ اور حضرت مو لا نا
شاہ عبد العزیز صاحب رائے پوری ؒ نے اس موج نور و نکہت کو پوری آب و تاب کے
ساتھ جا ری رکھا ۔ذکر و فکر کی محفلیں سجتی اور آراستہ ہو تی رہیں مخلوق
خدا ان سے استفادہ کر تی رہی اور ایک بڑی تعداد نے ان کے ہا تھوں پر بیعت
کی اور اسلا م قبول کیا ،حضرت مو لا نا شاہ عبد العزیز صاحب رائے پور یؒ کے
پا کستان کوچ کر جا نے کے بعد یہ خانقاہ ویران ہو گئی ،اور عوام و خواص ذکر
و فکر کی مجلسوں سے محروم ہو گئے جس خلق کثیر کا رجوع یہاں لا الا اﷲ کی
ضربوں میں تھا اب وہ ما ہئی بے آب کی طرح تڑپنے لگی اور نظام ایسا معطل ہو
گیا کہ اس کے وجود و بقاء کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا تو چند د وررس و دور بیں
اکا برین خصوصا مفکر اسلا م حضرت مو لا نا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒ
جن ہوں خانقاہ رحیمیہ کے فیض اور اس کے اثرات کو عالم اسلا م میں نما یا ں
کیا کے مشورہ اور ان بزرگا ن دین کی بے چینی و بے قراری کو دیکھ کر اس
خانقاہ میں ایک ایسے آفاقی وہمہ گیر مرد قلندر کا انتخاب ہوا،جس نے اس کی
نشأۃ ثانیہ کی ،اور جن کی نگرانی و سرپرستی ،بے پنا ہ جد و جہد اور توجہات
و عنا یا ت کی برکت سے وہ با غ وبہار پھرلوٹی،کہ پھر سے خلقت کا رجوع اس جا
نب بڑھا اور مخلوق خدا نے یہاں سے کسب فیض کیا ،ورنہ ان اکابرین کے اس دنیا
سے پردہ فر ما نے کے بعد سے عوام وخواص پر ایک ما یوسی کی کیفیت طا ری تھی
اس وقت ایسے حالا ت میں اس مرد با صفا ،ولئی کا مل، مستغرق فی اﷲ حضرت مو
لا نا مفتی عبد القیوم صاحب رائے پوری ؒ کا انتخاب ہوا جو بزرگوں کے صحبت
یا فتہ خصوصا حضرت مو لا نا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوریؒ کے منظور نظر
تھے ،اور دبستان حضرت مو لا نا شاہ عبد العزیزؒ کی آخری یا دگا رتھے،اور
مردم ساز مفکر اسلام حضرت مو لا نا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒکے روشن
کردہ چراغوں کے نور تھے ،علم و تحقیق کے لحاظ سے بھی معتبر اور مستند ،صلاح
و تقوی خشیت و انا بت کے بھی پیکر تھے ،علم و عمل کی اس ضوفشا ں شخصیت کی
پیدائش یکم جنوری ۱۹۲۲ء میں ایک اسلا می وروحانی ماحول میں ہوئی اور وہیں
پروان چڑھے، تعلیم و تربیت کے قیمتی جوہر اور رشد و معرفت کے نا یا ب گو ہر
کے تیئں متفکر باپ نے بیٹے کے دامن مراد کو خوب خوب بھرا، آپ کی تعلیم کی
ابتداء مدرسہ فیض ہدایت در گلزار رحیمی رائے پور میں نورانی قاعدہ سے ہو ئی
اس کے بعد حفظ القرآن نو گا نوہ میں حٖفظ القرآن کی مکمل کرنیکے بعد جا معہ
اسلا میہ ریڑھی تا جپورہ میں عا لمیت کے تین سال با صلا حیت و مخلص اساتذہ
کی نگرانی میں پورے کئے پھر علوم و فنون کے ما ہرین ،شریعت و سنت کے حاملین
اساتذہ سے تفسیر و حدیث فقہ و دیگر علوم کی کتا بیں پڑھ کر ملک کی مشہور
ترین علمی وروحانی درسگا ہ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور سے ۱۹۵۶ ء میں دورہ
حدیث شریف سے فراغت حاصل کی ،پھر شعبہ افتاء میں داخلہ لے کر تعلیم کا
مرحلہ پورا کیا ، اور یہاں کی علمی نورانی فضا سے بھر پور فائدہ اٹھایا ،اس
مرحلہ سے فراغت کے بعد علوم نبوت کی اشاعت میں حضرت شیخ ؒ کے ایما ء پر
مدرسہ خادم العلوم با غووالی میں اپنے تدریسی دور کا آغاز کا مل
احتیاط،پاکدامنی اور مکمل خلوص و ﷲیت کے ساتھ کیا طلباء واساتذہ اور ذمہ
داران کو اپنی حسن کا رکردگی پر اپنا گرویدہ بنا یا ،یکم رمضان المبارک
۱۹۶۲ء میں آپ کا ناقل فتاوی کی حیثیت سے مظاہر علوم میں تقرر ہوا ،اس نحیف
و نزار جسم نورانی میں اقبال مندی کے جو ہر تھے جن ہو ں نے آپ کو ممتاز
حیثیت عطا کی جو دوسروں کے لئے با عث رشک بنی ،اور آپ ترقی کرکے مظاہر علوم
کے ما یہ ناز صدر مفتی کے طور پر آپ کی پہچا ن ہو ئی ،اور زندگی کے یہ ایام
نورانی حلقوں ایما نی جھرمٹ اور عرفا نی ماحول میں بسر ہو ئے اس صحبت اور
ما حول آفرینی نے آپ کے اندر ایک روحانی و عرفا نی انقلا ب پیدا کیا اور
تبحر علمی کے ساتھ ایمانی فراست اور نبوی حکمت کی دنیا میں ہمدوش ثریا ہوئے
اور اس کے ساتھ ساتھ امت کے انفرادی و اجتماعی اصلاح کے پیش نظر اجلاس میں
بھی شرکت فر ما تے ،آپ کی با ت سن کر جم غفیر میں ایک بڑی تعداد اعما ل
صالحہ کی طرف راغب ہو تی لوگ اپنے اپنے ظرف و قدح کو بھرتے ،آپ کی با ت میں
خلوص و ﷲیت کی ایسی آمیزش ہو تی کہ مخاطب متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا آپ حب
الہی اور نبوی سوز و تڑپ میں ڈوب کر گفتگو فرماتے تو قلوب میں ارتعاش پیدا
ہو جا تا ،حضرت شاہ صاحب ؒ نے آپ کو اپنے فیض صحبت سے ایسا مثالی ومعیاری
انسان بنا یا کہ آپ جہاں بھی رہے مقبولیت قدم بوس ہو تی گئی اور کھلی
آنکھوں مقبولیت و محبوبیت کی فضا دیکھی گئی ،لیکن جب مظاہر علوم کا قضیہ نا
مر ضیہ پیش آیا تو آپ نے اپنی تعمق نظری اور فنی مہارت پر فتوی دے کر اپنے
مادر علمی کو بھی با دل نخواستہ الوداع کہہ دیا اور رائے پور تشریف لے آئے
،آپ اخلاقی بلندی ،اعلی ظرفی حسن کا رکر دگی اور پا کبا زی میں اپنی مثال
آپ تھے ،تو اکا برین علماء نے اس سونی بزم کو پھر سے بر گ و بار لا نے کے
لئے خانقاہ رائے پور میں فروکش ہو جا نے کی التجا کی تاکہ رشد و ہدایت کی
یہ آما جگاہ اپنی جلوہ آرائیوں کے ساتھ پھر سے مخلوق کا دامن بھر سکے ،
چنانچہ سب سے زیا دہ کو شا ں مفکر اسلام حضرت مو لا نا سید ابو الحسن علی
حسنی ندوی ؒ جو حضرت مفتی صاحب ؒ کورات رات بھر سمجھا تے کہ دیکھو شاہ صاحب
نے آپ کو با رہا بشارت دی بلکہ واضح الفاظ میں فر ما یا تم خا نقاہ میں جمے
رہنا ،گڑے رہنا ، اس کے ارد گرد گھو متے رہنا ،اور اس کے چکر کا ٹتے رہنا
،لوگ تمہارے چکر کا ٹتے رہیں گے لیکن حضرت ہمت نہ کر پاتے ،ولئی مرتاض طبیب
حاذق حضرت مو لا نا سید مکرم حسین صاحب سنسارپوری دامت بر کا تہم خانقاہ کی
حالت زار کو دیکھ کر بڑی دلسوزی سے حضرت کو مناتے اور فرما تے آپ پر فرض ہے
،جیسا کہ میرے پیر حضرت مو لا نا شاہ عبد القادر صاحب ؒ نے بارہا اس کی
جانب تو جہ مبذول کرائی آپ سے ہمیں بڑی توقعات وابستہ ہیں ،کا ش آپ ہماری
اس خواہش کو عملی جا مہ پہنا دیں اسی طرح صوفئی کامل حافظ عبد الستار صاحب
نا نکویؒ بڑی سوزی کے ساتھ فر ماتے ذرا سوچو کہ اس کی کل کیا حالت تھی ؟
اور آج کیا ہو گئی ہے،حضرت حافظ عبد الرشید ؒ بھی اس کی نگرانی ،تعمیر و
ترقی آپ ہی پر فرض قرار دیتے ،بہر حال حضرت مفتی صاحب ؒ کو خانقاہ کا مسند
نشیں بنا نے کی عوام و خواص سب کی دیرینہ خواہش اور کوشش بسیار تھی لیکن آپ
اپنی انکسار نفسی عاجزی و فروتنی کے با عث خا مو ش رہتے کبھی اپنی نا اہلی
کے بارے میں بتلا تے لیکن فکر مند احباب نے ٹھان لی کہ اگر درخواست کو
ٹھکرایا بھی جائے تو زبردستی کریں گے چنانچہ مسجد میں جمعہ کے دن بہت سے
حضرات اسی ارادہ و نیت سے حاضر ہو ئے لیکن حضرت کو خفیہ طریقہ سے اطلا ع مل
گئی تھی ،آپ خانقاہ میں جلدی سے جمعہ ادا کر کے گھر آگئے لو گوں کو اتنا مو
قع نہ مل سکا ،بالآ خر تمام فکر مند حضرات اپنی درخواست لے کر گھر پہنچے
اور حضرت کو ساتھ لے کر ہی دم لیا ۔
سجھے گا زما نہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
نا پید تیرے بحر تخیل کے کنا رے پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
آخرش !اس ویران وسونی پڑی خانقا ہ کی گود میں آپ کو لا یاگیا ،اورقضا وقدر
کے فیصلوں کے مطا بق مختلف میدانوں سے گذار کر کندن بنا کر آپکو گلشن
رحیمیہ کیلئے زینت بنا یا ، جس سے افسردگی چھٹ گئی ،پژمردگی کا فور ہو گئی
،اور ذکر و فکر عبا دت و ریا ضت کی نغمہ سنجیوں سے پوری فضا منور ہو گئی
،اﷲ کی غیبی مدد سے فتح و نصرت کے دروازے آپ پر کھل گئے ،حیرت انگیز ترقی
کا یہ تاج محل آج ہما رے سامنے ہے ،اس خانقاہ کا مزاج و مذاق سیرت نبوی ﷺ
کا آئینہ دار ہے ،یہاں ہر آنے والے کا خیال اس کی ضرورت کے مطا بق کیا جا
تا ہے ،حضرت مفتی صاحب کی مجلس میں بیٹھ کر دینا کی بے ثبا تی اور حیات فا
نی کی حقیقت خود بخودد عیاں ہوجا تی تھی ،یہاں ذکر و فکر یاد الہی ،عشق
خداوندی کی ایسی شراب پلا ئی جاتی تھی جس سے انسا ن کا پورا وجود شریعت کے
سا نچے میں ڈھلتا تھا ،اور ذکر الہی عشق نبوی اور شریعت مطہرہ کا جو سوز
یہاں کی فضا میں بکھرا ہے ،ہر آنے والے کی طبیعت پر اس کا اثر محسوس ہو تا
تھا ،اور وہ بے بہا خزانہ یہاں سے لیکر لوٹتا تھا ابھی قریب کی بات ہے ایک
سرکاری آفسر وارد ہوئے چند منٹ مجلس میں بیٹھنے اور اس نورانی چہرہ کو
دیکھنے کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو جا ری تھے،اور انہوں نے بتلا یا کہ
زندگی میں پہلی مرتبہ اﷲ کے خوف سے آنسو نکلے ،حضرت مفتی صاحب کی مسند
نشینی کے بعد پھر وہی بے پنا ہ ہجوم اور ازدحام رہنے لگا جس نے دورما ضی کی
یا د تازہ کردی آپ کا طریقہ اصلا ح و تربیت بھی ایسا سہل اور آسان تھا کہ
طبیعت نا تواں بار گراں نہ گذرے اور اصلا ح بھی ہو جا ئے یہاں ہر مجلس میں
یہ سبق پڑھا یا جا تا تھا ۔جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے۔
اور کسی شاعر کی زبا نی فکر دنیا کر کے دیکھا فکر عقبی کر کے دیکھ چھوڑ کر
اب ذکر سارے ذکر مو لی کر کے دیکھ
کون کس کے کا م آیا کون ہے کس کا ہوا سب کو اپنا کر کے دیکھا رب کو اپنا کر
کے دیکھ
حضرت مفتی صاحب ؒ نے مجا ہدات و ریاضات کے میدان میں وہ جو ہر دکھائے ،کہ
آپ کو دیکھ کر متقدمین خرقہ پو شوں بوریہ نشینوں اور مخلص زاہدوں و شب زندہ
داروں کی یا د تازہ ہو جاتی ہے ،رات میں ایک بجے نرم و نا زک کو بستر
چھوڑنا آپ کا معمول تھا ،نوافل میں قرآن کریم کا خاصا حصہ پڑھنا آپ کا
معمول تھا پھر ذکر الہی اور آہ و زاری،اشک فشانی میں مشغول رہتے ،اور حقیقت
بھی یہی ہے کہ بغیر نا لۂ نیم شبی کمال پیدا نہیں ہو تا،ایسے ہی اشخاص کے
بارے میں اقبال نے شیطا ن کی زبا نی کہا تھا
خال خال اس قوم میں نظر آتے ہیں وہ اشک سحر گا ہی سے جو ظالم کرتے ہیں وضو
قرآن کریم کے عاشق و فریفتہ تھے ،طا لبین رشد وہدایت جس وقت بھی آتے آپ ان
کی دلجوئی کے لئے اپنے آرام کو بھی تج فر ما دیتے ،آسودہ شکم سیری کے ساتھ
آپ نے کھا نا نہیں کھایا ،قلت طعام قلت منام اور قلت کلا م کے آپ خوگر رہے
،اپنے مجاہدہ وریاضت سے اپنے نفس و شیطا ن دو نوں کو فنا کیا، مسلسل بہتر
گھنٹے ذکر خداوندی میں مشغول رہنا اور چھپن گھنٹے بیدار رہ کر اپنے کو خواب
گا ہ سے الگ رکھنا یہ خرقہ پوشوں ہی کی علا مت ہے اس نفس کے مجا ہدہ نے
ایسا بیش بہا اور قیمتی بنا یا کہ اس کی قیمت کا اندازہ صرف خلا ق عالم ہی
لگا سکتا ہے ،آپ کی نفس کشی اور عبادت و بندگی نے اصحاب رسول ﷺ کی یا د
تازہ کردی ،آپ عمل پیہم ،جہد مسلسل ،یقیں محکم کے خوگر تھے ،پھربے پناہ
مجاہدہ و فنا ئیت سے حقیقی معرفت کی جو بے نظیر دولت ملی جس کا تصور بھی
نہیں کیا جا سکتا ،اور آج ہم جیسے نا واقفوں کے لئے ایک عجو بہ ہے روحانی
قوت کا حال عقل و فہم کی رسائی سے با لا تر ہے ،روحانی قوت نے اس نورانی
نفس کو ایسا مست بنا یا ،نہ طعام و شراب نہ خورد و نوش کی طلب ،نہ آرام و
راحت کی تلاش ،بغیر کسی طلب کے کسی نے دو گھونٹ پانی یا دودھ پیش کردیا تو
نو ش فر ما لیا ، اس طرح زندگی کا ظاہری مدار چند قطروں پر رہا ، اور جب دل
مستنیر ہوا ،تو فیضان الہی اور احسان و عرفا ن سے اس مقام بلند پر پہنچا کہ
دیدار الہی کے مزے آنے لگے ،اور دیکھنے والے مجذوب کہنے لگے ،اور یہ اﷲ کا
محبوب بندہ فنا فی اﷲ ہو گیا ،دنیا وما فیہا سے بیگا نہ ہو گیا ،اور اس
مقام تک جا پہنچاجو حد ادراک اور عقل کی با زیا فت سے ما وراء ہے
،استغراقیت و محویت کے اس مقام پر پہنچے جہاں خالق و مخلوق کے درمیان تمام
حجا با ت منکشف ہو تے چلے گئے اور اپنے وجود کی بھی خبر نہ رہی ،اب گذشتہ
کئی سالوں سے یہ حال تھا ،کہ خاموش ایک نورانی مجسم،اور عوام و خواص کا ایک
ازدحام مجلس میں شریک ہو تا زیارت کرتا ،دعا میں شریک ہو تا اور چلا جا تا
اس خاموش انسان سے دنیا نے اتنا فیض اٹھایا کہ صرف دیکھ کر ہی اپنی زندگیوں
کو بدل ڈالا ،بے دین دین سے وابستہ ہوئے،فاسقین تقوی وطہارت سے آراستہ ہوئے
،اور اب آخری ایام میں تو رجوع اتنا بڑھا کہ حضرت جی ؒ اور حضرت شا ہ صاحب
ؒ کے دور کی یاد تازہ ہو گئی ،اور ان اکا برین اور عوام نے خانقاہ کو پھر
اسی شان سے دیکھا اور مخلوق خدا نے اپنی اپنی جھو لیاں بھریں ، اب فیصلہ
خداوندی سے دبستان معرفت کا یہ روشن چراغ اپنی گل افشانیاں کرکے اﷲ کے حضور
حاضر ہو گیا۔ |