جب میں چھوٹا تھا اور باہر دنیا کو ٹی وی اور اخبارات
میں دیکھتا تو دل چاہتا کہ باہر دنیا جاکر دیکھوں۔ اتنا موقع تو ملے کہ
تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے ملک جا سکوں۔ دل و دماغ میں یہ تصور وقت
کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا گیااور باہر جانے کا خواب مزید بڑھتا گیا۔ بدقسمتی
سے ہمارے وسائل اتنے نہ تھے کہ باہر جاکر تعلیم یا سیر و سیاحت کیلئے جایا
جا سکے اور روز بروز بڑھتی مہنگائی کے سامنے ہماری خواہشات نے گھٹنے ٹیک
دیئے۔ یہاں تک ایسے اوقات بھی آئے کہ ہمیں اپنی تعلیم کو جاری رکھنا مشکل
نظر آیا ۔بہرکیف جیسے تیسے ممکن ہوا ، ہم نے اپنی سولہ سالہ تعلیم مکمل
کرلی۔اور بچپن کے خواب جو جوانی تک پلتے بڑھتے رہے ، وقت کے ساتھ ان کی شدت
میں کمی آتی گئی۔ یہ خواب اس وقت بالکل ادھورے رہ گئے جب ہمیں ایک چھوٹی
موٹی نوکری بھی مل گئی ۔ یوں ہم اپنی دنیا میں گم ہو گئے۔
اب بھی جب باہر کی دنیا کا خیال ذہن کے گوشوں میں سر اٹھاتاہے تو اس
طلسماتی دنیا کو پہلے سے زیادہ حسین پاتاہوں کیوں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی
بدولت وہ ہم سے ترقی کے بہت زیادہ مدارج ومنازل طے کر چکے ہیں۔ صاف و کشادہ
سڑکیں ، بہترین تعلیمی ماحول، پینے کے صاف پانی کی سہولیات، قدرتی حسن سے
مالامال وادیاں، صحت و معالجے کی سہولیات ، جدید سفری ذرائع الغرض وہ تمام
خواہشات جن کی ہر شخص تمنا رکھتا ہے وہ تمام سماں وہاں موجود ہے۔ اور جب
کبھی بھی ذہن کے دریچوں میں اُن کاخیال خوش کُن گزرتا ہے تب تر وتازہ
خوشبوں کے جھونکوں کی مہک اَب بھی نتھنوں سے ٹکرانے کے بعد دل و دماغ پر
چھا جاتی ہے۔
اچانک ایک دن میری کایا پلٹ گئی اور میرے خوابوں کو تعبیر ملنا شروع ہوگئی۔
ہوا یوں کہ اس سے میری ملاقات شہر کی مہنگی ترین مارکیٹ میں شاپنگ کے دوران
ہوگئی جوپہلی نظر میں مجھے بھا گیا، یعنی جن خواہشات نے بچپن سے جھکڑا تھا
اُن سے چھٹکارے کا وقت آگیا تھا۔ملاقات اگرچہ ایک سیلز مین کے توسط سے ہوئی
لیکن اُس کی شخصیت نہایت جاذب تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پہلی نظر میں بھا گیا
تھا۔ جوں جوں مجھے اس کے اسرار ورموز کھلتے گئے مجھے میرے خواب پورے ہوتے
نظر آنے لگے۔اُس کے پاس دنیا بھر کی معلومات کا خزانہ تھا اور ملکوں ،
براعظموں کی سیر کروانا اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اب میرا سفر
رکنے والا نہیں تھا۔دنیا میرے آگے سمٹ گئی تھی۔ اور سات براعظم میرے لئے اب
اجنبی نہیں تھے۔ جہاں بھی دل کرتا وہاں کی سیر کو نکل پڑتا۔ حلقہ احباب بھی
دن بدن بڑھتا چلا جا رہا تھا جس کی بنیادی وجہ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت
تھی۔ اگرچہ دوسرے ممالک کی زبانوں کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا
لیکن متراجم کی بدولت ان کی باتوں کو سمجھ لیتایا انگلش کے چند الفاظ سے
گزارا چلا لیتا۔ کیونکہ زبان کی سمجھ بوجھ کا جو مسئلہ میرے ساتھ درپیش تھا
وہ دوسرے لوگوں بالخصوص جنوبی ایشیا ، افریقہ اوردیگر ممالک کے لوگوں کے
ساتھ بھی تھا۔ باتوں باتوں میں ان کی معاشرتی ، معاشی اور ثقافتی پہلوؤں سے
واقفیت حاصل ہوتی رہی۔ انکی خوبیوں اور خامیوں میں کئی کئی گھنٹے گم رہتا ۔
جو پسند آتا اس کی تعریف میں کلمات ادا کرتا اورجواب میں شکریہ کے الفاظ
ملتے۔اَ ب میں مکمل اُس کے سحر میں سر تا پا ڈوب چکا تھایہاں تک کہ اپنی
نجی زندگی سے بھی دور ہوتا گیا۔ کہتے ہیں کہ ہر شے کی زیادتی بُری ہوتی ہے
لیکن میں نے اس سچائی کو پس ِ پشت ڈال دیا تھا۔
میری چھوٹی دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی تھی۔ دوستوں کی تعداد میں
اضافہ ہونے اور اُن کے ساتھ گپ شپ کے ساتھ مختلف گروہوں میں بھی میری اُٹھک
بیٹھک شروع ہوئی۔پس ایسی طلسماتی دنیا میں مجھے کئی سال بیت گئے اور وقت
گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جب کسی دوست سے تعلق بن
جاتا تو ہر سال ایک یاداشتی پیغام مل جاتا اور یوں پُرانی یاداشتیں تازہ
ہوجاتیں۔پھر ایک دن سفر کے دوران وہ میرے ہاتھ سے گرگیا اور موبائل کی
سکرین چکنا چور ہوگئی۔ میرا رابطہ سوشل میڈیا سے کٹ گیا اور میں خوابوں کی
دنیا سے اپنی حقیقی دنیا میں لوٹ آیا۔
|