بچوں کی کہانی: عالیہ ذوالقرنین، لاہور
موبائل کی گھنٹی بجی تو حماد نے تیار ہوتے ہوئے مصروف انداز میں موبائل آن
کیا۔
انسپکٹر حماد! کیا حال ہے؟ میں نے سنا ہے کہ تمہارا بیٹا برین ٹیومر کے مرض
میں مبتلا ہے اور اس کے علاج کے لیے کم از کم 5لاکھ روپے کی ضرورت ہے جو
تمہارے پاس نہیں اس کے بولنے پہلے ہی ایک کرخت آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
تم کون ہو؟ انسپکٹر حماد نے سختی سے پوچھا۔
یہ چھوڑو کہ میں کون ہوں؟ بس تم ہمارا ایک کام کر دو ہم تمہارا انعام
تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیں گے اور تمہارا بیٹا بچ جائے گا اور دیکھو
میری کال کی کھوج میں مت پڑنا یہ نمبر تم ٹریس نہیں کر سکتے وہی آواز پھر
سنائی دی ۔
کیا چاہتے ہو تم؟ انسپکٹر حماد نے ڈھیلے سے لہجے میں پوچھا ۔
آج تمہاری ڈیوٹی جلسے میں جس جگہ لگی ہے بس وہاں سے تم نے ایک آدمی کو بغیر
چیکنگ کے اندر جانے دینا ہے اور بس... تمہارا کام ختم ۔
کیوں بغیر چیکنگ کے کیوں؟ حماد نے حیرانگی سے پوچھا۔
تمہیں یہ نہ پوچھنے کے ہی پانچ لاکھ دیے جا رہے ہیں ،انسپکٹر حماد کرخت
آواز مزید کرخت ہوئی ۔
ٹھیک ہے میں سوچ کر بتاؤں گا ۔۔ حماد کی نگاہوں کے سامنے عمر کا تڑپتا وجود
گھوم گیا۔ اس نے بے بسی سے کہا ۔
ویل ڈن! یہ ہوئی نا بات مگر ایک بات بتا دوں کہ سوچنے کا وقت نہیں اگر
تمہیں میری آفر منظور ہو تو آج سرخ رنگ کا رومال گردن میں لگا کر جلسے میں
پہنچ جانا.. ہمارا آدمی جیسے سے اندر داخل ہو گا رقم تمہارے اکاؤنٹ میں
داخل ہو جائے گی۔ کرخت آواز قہقہے میں بدلی اور کال منقطع ہوگئی۔
انسپکٹر حماد کے ذہن میں طالبعلمی کے دور میں پڑھی گئی حدیث مبارکہ گونجنے
لگی ’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان پے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال
کیا جائے گا‘‘ مگر اگلے ہی لمحے وہ سب سوچیں جھٹکتے ہوئے باہر نکل گیا۔
آپ کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارا عمر بخار اور سر درد سے تڑپ رہا ہے اور آپ کو آج
بھی ڈیوٹی پیاری ہے؟ 3دن ہو گئے ہیں آج محلے کے ڈاکٹر سے دوا لیتے ہوئے مگر
بجائے ٹھیک ہونے کے اور نڈھال ہو گیا ہے اور ہاں... جو رپورٹ کل آئی ہیں وہ
ڈاکٹر کو دکھائی وہ کیا کہتا ہے؟ نصرت نے روتے ہوئے اپنے شوہر حماد سے
پوچھا جو پولیس یونیفارم پہن کر جانے کے لیے بالکل تیار تھا۔
جانا تو ہے۔ آج وزیر اعلیٰ صاحب کا جلسہ ہے اور میری ڈیوٹی وہاں لگی ہے۔
میرا وہاں پہنچنا لازمی ہے اور تم جانتی تو ہو کہ پاکستانی پولیس دنیا کی
وہ واحد پولیس ہے جو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتی ہے مگر حاصل نہ وصول۔۔
کسی کو ہمارے مسائل کا خیال ہی نہیں۔ تمام اچھے الفاظ اور مراعات دوسروں کے
لیے مختص ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ باقی ادارے بھی عوام کی حفاظت کرتے ہیں مگر ہم
بھی تو کرتے ہیں تو ہمارے ساتھ پتا نہیں یہ غیروں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا
ہے؟ بہرحال تم عمر کو اسپتال لے جانا رپورٹ ڈاکٹر دیکھ لے گا میں کوشش کروں
گا اگر بڑے صاحب نے آنے کی اجازت دے دی تو میں بھی آجاؤں گا۔ حماد نے ایک
ٹھنڈی آہ بھر کر بے چارگی سے کہا ۔
مگر... میں اسے کیسے اسپتال لے جاؤں؟ میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟ کل پڑوسن سے
مانگ کر 2ہزار روپے لیے تھے وہ اس کی دوا اور ٹیسٹ پر خرچ ہو گئے ۔ نصرت نے
بے آواز روتے ہوئے کہا ۔
تم ایسا کرو اسے سرکاری اسپتال میں لے جاؤ میں نے سنا ہے وہاں ایک روپے کی
پرچی پر علاج ہو جاتا ہے کچھ تو علاج کر ہی دیں گے۔ حماد نے بے بسی سے کہا
اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔
حماد محکمہ پولیس میں انسپکٹر تھا۔ ساری زندگی تنگی کو حرام کھانے پر ترجیح
دی۔ مگر جوں جوں تینوں بچے بڑے ہو رہے تھے تنخواہ ناکافی ہونے لگی تھی۔اپنی
ڈیوٹی ایمانداری اور خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کے باوجود کبھی حوصلہ
افزائی کے دو بول بھی نہیں ملے تھے۔وہ عمرکی بیماری کے بارے میں سوچتا جلسہ
گاہ پہنچا جسے اس نے اپنی بیوی سے بھی چھپایا تھا ۔مگر اسے امید تھی کہ آج
اس کے بیٹے اس کے عمر کا باقاعدہ علاج شروع ہو جائے گا کیونکہ سرخ رومال اس
کی گردن میں لگا تھا ۔ اچانک موبائل کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ تم نے
سرخ رومال لگا کر عقلمندی کا ثبوت دیا ہے انسپکٹر! ہمارے آدمی کی نشانی بھی
گردن میں لگا یہی سرخ رومال ہے۔
کرخت آواز ایک بار پھر سنائی دی اور بغیر جواب سنے فون بند کر دیا گیا۔
جلسہ گاہ میں لوگ کافی تعداد جمع ہو چکے تھے۔ اچانک اس کی نظر سامنے سے آتے
ایک شخص پر پڑی گردن میں سرخ رومال لگائے محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھتے
وہ اسی راستے کی طرف آ رہا تھا جہاں سے انسپکٹر حماد نے اسے بغیر چیک کئے
گزارنا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص اس راستے سے گزر کر اندر جاتا اچانک
انسپکٹر حماد کے دونوں ہاتھوں حرکت میں آئے ایک ہاتھ سے اس نے سرخ رومال
اپنی گردن سے کھینچ کر اتارا اور دوسرے ہاتھ سے اس آدمی پر جھپٹا۔ پولیس اس
آدمی پر قابو پا کر گھسیٹتی ہوئی پیچھے لے جا چکی تھی یہ سب اتنا اچانک ہوا
کہ چند لوگوں کے سوا کسی کو پتا نہ چل سکا کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے اسی سرخ
رومال سے اپنی پلکوں پر ٹکے بے آواز آنسو صاف کیے اور اگلے شخص کی تلاشی
لینے لگا۔
انسپکٹر حماد کی فرض شناسی اور ایمانداری بیٹے کی زندگی پر سبقت لے جا چکی
تھی۔ حماد اپنا فرض نبھا چکا تھا مگر ابھی قدرت نے اپنا قرض چکانا تھا اور
اگلے دن اخبار فروش بازار میں چیخ چیخ کر اخبار بیچ رہا تھا۔
آج کی تازہ خبر! انسپکٹر حماد کو خود کش حملہ آور پکڑنے پر وزیر اعلیٰ کی
طرف سے 5لاکھ روپے انعام کا اعلان ۔
|