ازقلم: ارم فاطمہ۔۔۔ لاہور
اردو کا پیریڈ شروع ہوچکا تھا۔ مس ثمرہ کلاس روم میں آئیں۔ حاضری کے بعد
انہوں نے ایک نظر پوری کلاس کی جانب دیکھا اور کہنے لگیں! دو ہفتے بعد آل
صوبائی تقریری مقابلے ہورہے ہیں۔ ہمارا اسکول میزبانی کے فرائض انجام دے گا۔
اس میں صوبے بھر کے بہترین اسکولوں کے بہترین مقرر حصہ لیں گے۔ آپ میں سے
جو بچے حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ اپنا نام لکھوادیں۔ اور بھرپور تیاری کریں
اور بہترین طریقے سے حصہ لیں احمد اور فاطمہ نے اپنے نام مس ثمرہ کو لکھوا
دیے۔
ان کی نظریں پوری کلاس سے ہوتی ہوئیں ثانیہ پر آکر رک گئیں جو سر جھکائے
اپنی نوٹ بک پہ لکھنے میں مصروف تھی۔ وہ کلاس کی ذہین ترین اسٹوڈنٹ تھی مگر
اس نے کبھی کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا تھا۔ مس ثمرہ کئی مرتبہ اسے کہہ
چکیں تھیں مگر وہ انہیں ایک ہی جواب دیتی تھی ۔ مس میں ہال میں موجود لوگوں
کے سامنے نہیں کھڑی ہوسکتی ان کی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتی۔
مس ثمرہ جانتیں تھیں کہ اس میں صلاحیت ہے تقریر کرنے کی مگر بس اس میں
اعتماد کی کمی ہے۔ایک خوف ہے کہیں وہ ناکام نہ ہوجائے۔ انہوں نے ثانیہ سے
کہا اسکول کے بعد مجھے اسٹاف روم میں ملنا، مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
اسکول ختم ہونے کے بعد جب وہ سٹاف روم میں گئی تو مس ثمرہ وہاں پہلے سے
موجود تھیں۔ ثانیہ کو دیکھ کران کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ثانیہ خاموشی
سے ان کی جانب دیکھ رہی تھی۔
وہ ایک لمحے کو مسکرائیں اور کہنے لگیں، میں چاہتی ہوں تم ان مقابلوں میں
حصہ ضرور لو۔ تمہیں اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا ہوگا کہ تم جیت سکتی ہو۔
مجھے تم پر یقین ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے تم یہ ذہن سے نکال دو کہ تمہیں
کوئی دیکھ رہا ہے اور یہ تصور کرو کہ سارا ہال خالی ہے۔ اپنے اوپر بھروسہ
کرو تو مجھے اعتماد ہے تم پر، تم یہ مقابلہ جیت سکتی ہو۔ثانیہ نے ان کے
لہجے اور الفاظ میں اپنے لیے خلوص اور یقین دیکھا اور پھر اسی ایک لمحے میں
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مقابلے میں حصہ لے گی۔ مس ثمرہ اس کے فیصلے سے بہت
خوش تھیں۔
تقریری مقابلے کا دن آچکا تھا۔ سب بچے بہت پرجوش تھے۔ پورا ہل مختلف
اسکولوں سے آئے بچوں ، ان کے اساتذہ اور والدین سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ایک
کر کے مقابلے میں حصہ لینے والے بچے آتے گئے اور تقریر کر کے جاتے
رہے۔بالاخر تقریر کے لیے ثکنکہ کا نام پکارا گیا۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ ڈائس
کی جانب گئی ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر کے مس ثمرہ کے الفاظ
دہرائے۔
بسم اﷲ پڑھ کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ اﷲ کی مدد تھی، مس ثمرہ کے کہے گئے
الفاظ کا اثر تھا اور یقین اور اعتماد تھا کہ وہ روانی سے بنا ہچکچاہٹ کے،
الفاظ کی بہترین ادائیگی کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ پورے ہال پر
سکوت طاری تھا۔ اور پھر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ واقعی اس کی تقریر
بہترین اور پر اثر تھی۔
سبھی ججوں نے اسے ونر قرار دیتے ہوئے پہلے انعام کا حقدار قرار دیا۔ثانیہ
کو ایک لمحے کو یقین نہ آیا۔ اسے اپنے آنسوؤں پرقابو پانا مشکل ہوگیا اور
وہ روتے ہوئے مس ثمرہ کے گلے لگ گئی۔ مس ثمرہ نے اسے بہت شاباش دی۔ انہیں
خوشی تھی کہ ثمرہ نے اپنے خوف پر قابو پالیا تھا اورمقابلے میں پہلی پوزیشن
لی۔ یہ مس ثمرہ کے اعتماد کی جیت تھی۔
|