سیاستدان ہمارے معاشرے کی عجیب مخلوق ہیں۔ جب ان کے پاس
کسی کام کے لئےجا ئئں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ فرعون سے بھی زیادہ با اختیار
اور طاقتور ہیں۔ لوگ ان کے آگے پیچھے یوں دم ہلا رہے ہوتے ہیں جیسے دنیا
میں صرف یہی عزت دار لوگ ہیں۔ کسی اور کا اس معاشرے میں کوئی مقام اور کوئی
حیثیت ہی نہیں ہے۔ اپنے اپنے ڈیرے دفتر یا اڈے پر یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے
انہوں نے ہی اس ملک کو کندھا دے کر اٹھا رکھا ہے۔ اگر یہ تھوڑے سے اپنی جگہ
سے ہلے تو یہ معاشرہ،یہ ملک چکنا چور ہو جائے گی۔ ۔ کسی بڑے سرکاری افسر سے
کام ہو تو عوام اپنے منتخب نمائیندے کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ان کی داد رسی
کا ذریعہ بنیں۔ یہ سیاستدان اپنے اس ووٹر کے سامنے نہائیت مغلظ قسم کی
گالیاں اس بیوروکریٹ کو دے کر کہتے ہیں کہ اس کی ایسی کی تیسی تمہارا کام
نہ کرے۔ اور جب اس کمشنر ،سیکریٹری یا ڈی سی کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ان
کی حالت نہائیت پتلی ہو جاتی ہے۔ سرکاری افسر سے اتنا جھک کر سلام لیتے ہیں
کہ اسے ترس آجاتا ہے کہ اس بیچارے سے کچھ ہمدردی کر ہی دینی چاہیئے۔
کچھ عرصہ پہلے جب مارکونی والے ٹیلیفون کا زمانہ تھا اور عوام الناس ریسیور
کو ہاتھ لگاتے ڈرتے تھے تو اس وقت ان کا بہت ہی ٹہکا ہوا کرتا تھا۔ یہ بند
فون پر کسی کو بھی بے شمار گالیاں دے لیتے تھے اور ان کے ووٹر ان کی جے جے
کار کرنے لگتے تھے۔ مگر اب زمانہ بدل گیا۔ اب انٹرنیٹ کا دور آگیا۔ فیس بک
،ٹویٹر اور یو ٹیوب کا استعمال ہاتھ زد عام ہے۔ اب ان سیاستدانوں کے پاس
جائیں تو یہ اسی ٹوہر ٹپے سے بات کرنے کی کوش کرتے ہیں ۔ اسی رعب اور شان
کا مظاہرہ کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں۔ مگر جب ان کے بارے اس سوشل میڈیا
پر تبصرے پڑھتے ہیں تو خدا کی پناہ میں جانے کو دعا کرتے ہیں۔
ان کی عزت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہوتی ہیں ۔اک طرف کے لوگ دوسری پارٹی کے
سیااستدان بلکہ سب سے بڑے رہنما کے بارے ایسے ایسے انکشافات کر رہے ہوتے
ہیں کہ خدا کی پناہ۔
ایک پارٹی کے چاہنے والے دوسری پارٹی کے سربراہ کے ساتھ وہ سلوک کر رہے
ہوتے ہیں جو گلی کے کتے سے کیا جائے تو وہ گلی چھوڑ جائے مگر ہمارے
سیاستدان عالی حوصلہ لوگ ہیں۔ ان پر گالی کا، گندی باتوں کا ،الٹے ناموں کا
اور جانے کس کس جانوار سے تشبیہ دینے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کوئی کسی کو
نشئی کہ رہا ہے تو کوئی دوسرے کو پٹواری۔ کوئی شیر کے گن گا رہا ہے تو کوئی
شیر کو ایسے نام دے رہا ہے ایسے ایسے ایسے لطیفے شیر سے منسلک کر رہا ہے کہ
شیر اگر اصلی ہو تو وہ جنگل بھی چھوڑ جائے۔ سیاستدان اپنا حلقہ نہیں چھورٹے
بلکہ اس گالی گلوچ کو اپنے لئے با برکت تصور کرتے ہیں۔ کوئی کسی کو زن مرید
ہ رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ اس سے ایک عورت سنبھالی نہیں جاتی ملک کیا
سنبھالے گا مگر وہ عورت نہ سنبھال سکنے والا ملک کا وزیر اعظم بننے پر مصر
ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم سیاستدان ہوتے تو کیا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ
ہوتا۔؟ اور یہی سوچ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم سادہ لوح انسان ہی
بھلے ہیں اللہ تعالی سیاستدان نہ بنائے آدمی ہی بنا دے۔
|