لوٹے کی جمع بھی لوٹے ہی ہوتی ہے۔ کوئی کہیں تک بھی جائے
اگر لوٹ جائے تو لوٹا ہے۔ لیکن یہ لوٹنا اور سیاست میں لوٹے میں پارٹ پارٹی
کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی اپنے گھر کو لوٹے تو اسے لوٹا نہیں کہتے کیونکہ گھر
کو بدھو ہی لوٹ کر آتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جو لوٹے ہیں وہ تو پیر کامل سے
بھی زیادہ کامل اور مغرب میں الو کی علامت سے بھی زیادہ ذہین اور
ہشیار ہوتے ہیں۔
یہ لفظ لوٹا اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ انسانی سیاسی تاریخ ہے۔
انگریزی میں اس کا مترادف ٹرن کوٹ ہے۔ انگریزی زبان میں یہ لفظ پہلی مرتبہ
۱۵۷۰ میں استعمال ہوا لیکن عملی طور پر یہ عرصہ دراز سے استعمال ہو رہا ہے۔
معنی اس کے وہی ہیں جو ہمارے ہاں ہیں۔ حالت جنگ میں اسے حکمت عملی کے طور
پر استعمال کرتے تھے مگر اب یہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں لوٹا چور کو تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوا کرتا تھا۔ آپ نے
بھی یہ کہیں نہ کہیں ضرور پڑھا ہو گا کہ جنوبی ھندوستان میں اگر کسی کی
کوئی چوری وغیرہ ہو جاتی تو ایک بہت دلچپ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ جرم
جو بھی ہوتا ہر ایک کے لئے یہی طریقہ رائج تھا۔ کیا یہ جاتا تھا کہ ایک
عامل کامل بابا جو اکثرایک ڈھنگی ہی ہوا کرتا تھا جسے شمن کہا جاتا تھا وہ
اس طریقے سے مجرم پکڑتا تھا۔ شمن تمام گھروں سے لوٹے منگوا کر ایک جگہ ڈھیر
لگا دیتا تھا اور مسکوک فرد کو سامنے کھڑا کر لیتا تھا۔ جب وہ کوئی منتر
پڑھتا تو تمام لوٹے کانپنے لگ جاتے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے لوٹے کسی کی
حکومت آجانے کے چکر میں کانپنے لگ جاتے ہیں اور بے چین ہو جاتے ہیں کہ کب
اپنا رخ اس پارٹی کی طرف پھیر لیں جو بر سر اقتدار آ سکتی ہے۔ منتر پڑھنے
کے بعد اگر تمام لوٹوں کا رخ اس ژخص کی طرف ہو جاتا جس پر شک ہوتا تو اسے
مجرم گردانتے اور اسے دھر لیا جاتا۔ آج کی سیاست میں بھی جب تمام لوٹوں کا
رخ کسی ایسے شخص کی طرف ہو جائے تو اسے بھی دھر لیا جاتا ہے مگر یہ دھرنے
والے بادشاہ گر ہوتے ہیں جو ان تمام لوٹوں کے سربراہ کو کرسی یا مسند شاہی
پر بٹھا دیتے ہیں۔
لوٹے کی تھوتھنی کے رخ کے بدلنے سے بر صغیر میں ایک نیا سیاسی نقطہ مل گیا
اور ہر اس شخص کو لوٹا کہا جانے لگا جو اپنی پارٹی سے نکل کر کسی اچھی
نظریاتی (حکومت حاصل کرنے کا نظریہ ( والی پارٹی کا انتخاب کرتا ہے۔.
لوٹے کا کام نچلے درجے کی صفائی کا کام ہوتا ہے اور اسے کوئی بھی عہدہ دے
دیں یہ باتھ روم میں رہے گا کھانے کی میز پر کبھی سج نہیں سکتا۔
اس اصطلاح لوٹاکریسی کی ابتدا نوے کی دہائی میں ہوئی۔ مگر لوٹوں کا وجود
صدیوں سے ہے اور شائد جب تک سیاست ہے تب تک رہے گا۔
لوٹا بننا پاکستانی سیاست دانوں کا عام مشغلہ ہے۔ اور خاص طور پر پنجاب
شروع ہی سے اس اصطلاح کی زد میں آرہا ہے۔ یہ سیاسی لوٹے اقتدار کے کارخانے
میں بنتے ہیں اور یہں پر ہی ان کا کریا کرم ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسے لوٹے کو
بھی جانتے ہیں جس نے آج تک دوسرا الیکشن پہلی پارٹی کی طرف سے نہیں لڑا۔
اور اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں لوٹا بنانے والے بڑی حکومت
ساز فیکٹری والے ہوتے ہیں جو ہر طرح کے لوٹوں کی ماہر ہے۔ ابھی ابھی دیکھ
لیں الیکشن سے پہلے لوٹوں کی تبدیلی کا عمل تیز ہو چکا ہے۔ اور اب اس کو
ایک نیا نام دیا جا رہا ہے۔ کہ وکٹ گر گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے الیکشن
میں کوئی اور ٹرم آ جائے مگر اس وقت تو وکٹ والی ٹرم بہت پاپولر ہے اور وکٹ
گرانے والے کو بھی شرم نہیں آتی کہ اس نے ایک اور لوٹا اپنی پارٹی میں ڈال
لیا۔ شائد اچھی طرح پاکیزگی کے لئے زیادہ لوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ |