یہ خط ٹنگمرگ مقبوضہ کشمیر سے ایک شہری اشفاق پرواز نے
ارسال کیا ہے۔وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کو سلام و دعا کے بعدوہ رقم
طراز ہیں کہـ’’ پچھلے قومی انتخابات سے پہلے جماعت مسلم لیگ (ن) کے اُس وقت
کے صدر میاں نواز شریف صاحب نے امریکہ میں 86 برس قید کاٹ رہیں ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کے بچوں اور ان کی والدہ عصمت صدیقی سے ملاقات کر کے وعدہ کیاتھا کہ
’’ عافیہ کو واپس لے کر رہوں گا۔‘‘انہوں نے متعدد بار عوام کے سامنے بھی
اعلان کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہیں، وزیر اعظم بننے کے بعد
قوم کی بیٹی کو وطن واپس لے آؤں گا مگر افسوس کہ وزیر اعظم بنتے ہی میاں
صاحب اپنے یہ وعدے مواعید بھول گئے۔آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ امریکا کے سابق
صدر باراک حسین اوبامہ نے وائٹ ہاوس سے رخصت ہوتے ہوئے بہت سارے قیدیوں کو
رہا کیا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا پروانہ بھی جاری ہوسکتا تھا لیکن
اس کے لیے صدر مملکت یا وزیر اعظم پاکستان کا ایک سفارشی خط درکار تھا جسے
نہ لکھ کر رہائی کا ایک سنہری موقع ضائع کیا گیا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا
معاملہ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کی غیرت اور عزت کا معاملہ
ہے۔اُن کا قید وبند قوم کے ماتھے پر ایک دھبہ ہے ۔ امریکی جیل میں ڈاکٹر
عافیہ کے ساتھ ہر کوئی ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ محبوسہ کا پورا کنبہ پڑھا
لکھا ایک شریف خانوادہ ہے،اُن کے والد نے برطانیہ میں میڈیکل تعلیم حاصل کی
ہے، خود ڈاکٹر صاحبہ حافظ قرآن ہیں، اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف
ٹیکساس سے مکمل کیا، امریکہ میں ہی علم الاعصاب (نیرولوجی) پر تحقیق کر کے
پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور موصوفہ ایک عظیم سائنس دان ہیں۔وزیراعظم
صاحب! آپ آئے روز مختلف ایشوز پر اجلاس بلاتے رہتے ہیں۔ کیا قوم وملت کا
ایک اہم ایشو یہ نہیں کہ قوم کی اس مظلوم بیٹی کو رہائی دلواکروطن واپس
لایا جائے۔ اُمید ہے آپ جناب اس اہم ایشو کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر اکے
دنیا وآخرت کی کامیابی سمیٹ لیں گے۔‘‘
انسان مر گیا
یہ سطور ایک قاری رشید پروین نے شام کے حالات کے تناظر میں ارسال کی
ہیں۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں خود ہی اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھا کر کسی
اور دیس کا سفر کر رہا ہوں۔ابھی سات روز پہلے میرے اس گاؤں سے صرف پچاس کلو
میٹر دور شہر پر بمباری ہوئی اور سیکڑوں جانیں دھواں بن کر ہواؤں میں تحلیل
ہوگئیں ۔ میں اب یہ سمجھا کہ درد جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو انسان بے نیاز
کیسے ہوتا ہے۔ میں آگے بڑھتا گیا کہ میری نظر پتھر سے ٹیک لگائے ایک آدمی
پر رک گئی۔ اپنی تمام وحشتوں کے باوجود مجھے اس چہرے میں شناسی کی جھلک نظر
آئی ۔ میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور میرے شعور کی سطح پر ایک چہرہ
صاف اور واضح ابھر آیا۔ الجھے ہوئے بال،، بکھری ہوئی بے ترتیب داڑھی، پھٹے
پرانے کپڑے، وحشت زدہ آنکھیں، مرجھایا ہوا زرد زرد سا چہرہ۔میں اس چہرے کو
کیسے بھول پاتا جس نے چار سال مجھے یونیورسٹی میں پڑھایا تھا وہ بھی اسی
مشہور شہر میں، جس پر اب زمینی خداؤں کا قہر جاری تھا،،،،میں ایک جست لگاکر
اس کے پاس پہنچا …’’آپ حسنین ہیں، میرے استادِ محترم‘‘۔ اِن کی آنکھوں میں
عجیب سی ویرانی تھی۔ میں اس ویرانی کو کوئی معنی نہیں دے سکا۔’’ میں بس
رونا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھ کوئی رونے والا نہیں۔ پروفیسر کی آواز مجھے
کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرا سارا وجود جھنجنا اٹھا۔ یہ اس شخص
کی آواز تھی جسے اپنے سٹوڈنٹ باغ و بہار کہا کرتے تھے۔ میں یہ جان گیا تھا
کہ پروفیسر کا گھرانہ بھی بمباری کا نشانہ بن چکا ہے کیونکہ وہ بھی شہر کے
مشرقی حصے میں ہی رہائش پذیر تھے۔ میں نے انہیں سہارا دے کر کھڑا
کیاتوانہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ مجھے اندازہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں
ہوئی کہ وہ شاید کئی دنوں سے بھوکے پیاسے بھی ہیں کیونکہ ان کے قدم بھی
لڑکھڑا رہے تھے۔بڑی مشکل سے اپنے گھر پہنچا پایا۔ بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے،
میرے ساتھ ایک اجنبی کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر باہر چلے گئے۔ میں نے ٹی وی
بند کرنا چاہا لیکنانہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔ سکرین پر حالیہ
بمباری کے مناظر دکھائے جا رہے تھے اور اینکر ان مناظر پر کیمنٹری دے رہا
تھا۔ روسی اور امریکی ڈرونز کا فرق سمجھا رہا تھا۔ ان کی ہولناکی، بم گرانے
کی رفتار اور تباہی کا حجم بتا رہا تھا۔ اسی اثناء میں سکرین پر امریکی
ڈرون نمودار ہوا، نیچے زمین پر مائیں شیر خوار بچوں کے لئیپانی، روٹی
اوردواؤں کی تلاش میں بھٹک رہی تھیں۔اب سکرین پہ ڈرونز صاف دکھائی دے رہے
تھے۔ ڈرون نے ہوا میں غوطہ کھایا اور بمباری شروع ہوئی، اب زمین پر حد نگاہ
تک شعلے تھے، آگ تھی اور دھواں تھا…۔ اچانک ٹی سکرین سے سب کچھ اتر گیا،،،
کوئی سگنل نہیں رہا، رابطہ کٹ چکا تھا شاید۔’کیا ٹی وی سنٹر پر بھی کوئی بم
آگراہے‘‘ پروفیسر کی نحیف آواز سنائی دی لیکن سکرین پر اچانک سری دیوی کی
کسی فلم کے مناظر آنے لگے، میں حیران کہ اچانک سب کچھ کیوں بدل گیا۔ اب
اینکر بھی دکھائی دیا جو بلک بلک کر رو رہا تھا۔ سری دیوی کا انتقال ہوچکا
تھا۔ میں نے چنل بدل دیا۔ ایک دو اور تین، پھر کئی اور چنل بدل دیئے، ہر
چنل پہ اب سری دیوی اور اس کی موت کا سوگ منا یا جارہا تھااور اینکر بلک
بلک کر، تڑپ تڑپ کر،خاک ملتے ہوئے، اور کچھ دھاڈیں مار مار کر سری دیوی کے
انتقال کی خبر دے رہے تھے ’’شاید یہ لوگ غوطہ شہر کے بچوں کا سوگ منا رہے
ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھ رہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں شاید مجھے رونے والے مل
گئے ہیں‘‘ حسنین کی آنکھوں میں چمک سی عود کر آئی’’سر۔ یہ بالی وڈ کی ایک
ایکٹرس کا سوگ منا رہے ہیں‘‘میں نے دبی دبی سی آواز میں کہا۔’’ا۔چھ۔ا۔یہ
میرے ساتھ نہیں رو رہے۔ مجھے کوئی رونے والا نہیں مل رہا‘‘ حسنین صوفے پر
دراز ہوا، آنکھیں پتھراگئیں، چہرہ زرد پڑ گیا، سانسیں اٹکنے لگیں، ۔میں نے
محسوس کیا پروفیسر ٹھنڈا پڑ چکا ہے، دھڑکن رک چکی ہے اور سانسیں بھی تھم
گئیں ہیں،،،، اسی وقت میری بیٹا کھانا لے آیا۔ ’’اب انہیں کھانے کی حاجت
نہیں رہی، میں کفن دفن کا انتظام کرنے جا رہا ہوں‘‘ میری آواز خود مجھ سے
بھی اجنبی سی تھی، ’’کیوں،انہیں کیا ہوا‘‘ میری بیٹا پوچھ رہا تھا۔’’انسان
مر چکا ہے‘‘ میں نے کہا اور تیزی سے باہر آگیا۔ |