عوام پر مسلط ایک شیطانی تکون

تحریک انصا ف نے نوازشریف کو کسی بھی طرح سے چت کرنے کی سیاست چنی ہے۔نوازشریف اس وقت قدرے قابل قبول، قدرے شریف اور قدرے اہل لیڈر کی شناخت رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ لیڈر تو بیسیوں موجود ہیں مگر یا تو علاقائی سطح کے ہیں۔یا پھر مخصوص قبیلوں اوردھڑوں کے علمبردار۔قومی اور انٹرنیشنل لیول کی قیادت میں سے نوازشریف ہی سب سے قابل قبول اور مضبوط ہیں۔عمران خاں نے نواز شریف کو زیر کرنے کی سیاست چنی ہے۔اگر نوازشریف کو گرالیا جاتاہے تو پھر دور دورتک اور کوئی رکاوٹ نہیں بچتی۔جو دیگر بیسیوں لیڈران موجود ہیں۔کوئی مسئلہ نہ ہونگے۔ عمرا ن خاں کو دنیا جہان کے چو رٹھگ چھوڑ کر نسبتا کم برے بندے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کے سبب بڑی تنقید کر سامنا ہے۔ان کی ساکھ تباہ ہوگئی۔شریف فیملی کو برائی کی جڑثابت کرنے کے چکر میں خاں صاحب عزت سادات گنوا بیٹھے تاہم وہ اتنا آگے آچکے ہیں کہ اگر پیچھے ہٹیں تو کچھ نہیں بچتا ۔اس لیے وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔لاہورمینار پاکستان کے جلسے سے پہلے وہ گوجرانوالہ میں فوج اور عدلیہ کی حمایت میں ان کی جماعت ایک بڑی ریلی نکال چکی ہے۔اس ریلی میں کارکنان اور کسانوں نے فوج اور عدلیہ کے حق میں پلے کارڈ اٹھائے نوازشریف کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ تحریک انصا ف کا لاہور مینار پاکستان کے جلسے کو بھی اگراسی نوازشریف پر لعن طعن اور فوج اور عدلیہ سے اظہاری یک جہتی کاایک نمونہ قراردے دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

نوازشریف اپنی مخالفت کے باوجود ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحریک چلارہے ہیں۔ان کے مخالفین جتنا زور لگاتے ہیں۔سابق وزیر اعظم کی تحریک میں اتنی ہی تیزی آجاتی ہے۔ووٹ کے تقدس کی پامالی کبھی براہ راست باوردی لوگوں کی طرف سے کی گئی اور کبھی انہی کے کچھ پٹھوؤں کی طرف سے ۔ ہر دور میں کچھ ججز اور کچھ سیاستدان دستیاب رہے ہیں جو اس برائی میں ساجھے دار بننے کو بے تاب رہے۔ان کے گناہ اپنے سر لینے اور برائی اپنے کھاتے میں ڈالنے پر آمادہ رہے۔برے سیاست دان ۔برے ججز اور برے جرنیلوں کی اس تکون نے وو ٹ کے تقدس کی پامالی کی۔عوامی نمائندوں کو باہمی تعاون سے رسوا اور ناکام کیا۔نوازشریف کی تحریک کا مقصد جمہوری حکومتوں کو کسی بھی حیلے سے گھر بھجوادینے کے آئے دن کا ڈرامہ ختم کرنے سے متعلق ہے۔ آمریت کے لمبے لمبے ادوار توبلا روک ٹوک جاری رہتے ہیں۔تب تو جمہوری ادوارسے بدرجہا برائیاں اور خرابیاں ہوتی ہیں۔تاہم کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔دوسری طرف جب بھی کوئی عوامی حکومت آئی ۔آئین اور قانون کے درجنوں رکھوالے جاگ اٹھے۔آمرانہ دور کی نوازشوں نے ایسے درجنوں دھڑے اور اشخاص پیدا کردیے ہیں۔جن کا اوڑھنا بچھونا بوٹوں والوں کی تعریف کرناہے۔ان کا دفاع کرنا ان کی خرابیوں پر پردے ڈالنا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ آمریت کی آمدکا اصل سبب بدنیتی رہی۔ چند جرنیل اپنی ہوس اقتدار کے سبب مارشل لاء لگاگئے۔جن حالات کی خرابی کا بہانہ بنایا گیا۔وہ بہترنہ ہوئے۔مذید ابتر ہوئے۔ بد نیتی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگاکہ ہنگامی طور پر مداخلت کرنے والے بعد میں دس دس سال تک اقتدار سے چمٹے رہے۔بھئی اگر ہنگامی آمد تھی تو حالات کچھ ہفتوں میں درست کرکے فوج دوبارہ بیرکوں میں چلی جاتی۔یہ جو دس دس سال تک چمٹے رہنا ہے۔یہ بدنیتی او ربری سوچ کی دلالت کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کی فوج اور عدلیہ کی حمایت میں جلسے اور ریلیاں ہمارے ہاں نظام سیاست کی تہی دامنی کا پتہ دیتی ہیں۔ایک طرف دھڑلے سے ووٹ کی بے حرمتی ہورہی ہے۔اور دوسری طرف کچھ نام نہاد جمہوری لوگ بجائے جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کے اس کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں۔جلسے کررہے ہیں۔تحریک انصاف کے یہ احتجاجی شو سمجھ سے باہر ہیں۔ بھئی سابق وزیراعظم اگر ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں تو اس میں فوج یا عدلیہ کی تضحیک کہا ں سے آگئی۔وہ تو تاریخ کے چند تلخ اوراق پڑھ رہے ہیں ۔جس طرح پچھلے ستر سالوں سے جمہوری حکومتوں کومختلف حیلوں بہانوں سے گھر بھجوایا جاتارہاہے ۔یہ قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ نوازشریف اس بے ایمانی پر معترض ہیں۔اگر وہ نظام عدل کی کوتاہیوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔اگر تین بار قوم کے بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم بننے والے کسی لیڈر کو اس کی اجازت نہیں تو پھر کیا کوئی ساجھا ماجھا ان امور کوچھیڑے گا۔عدلیہ نے آمروں کے لیے کسی مونس و مشفق کا کردار ادا کیا ہے۔اس کا تعاون ہی تھاکہ ڈرتے ۔جھجکتے آمروں کو حوصلہ ملا۔مارشل لاء کے نومولود بچے کو عدلیہ کی طرف ہمیشہ آئینی اور قانونی جواز کی شکل میں پاور فل ٹانک ملتا رہا۔اگر عدلیہ میں بیٹھے لوگ اپنی کرسی کی بجائے ریاست اور عوام کا مفاد عزیز رکھتے تو باربار میرے عزیز ہم وطنو سننے کونہ ملتا۔نوازشریف اس بری ریت کے خلاف میدان میں اترے ہیں ۔یہ تو جمہوریت کے لیے نیک شگون قرار دیا جانا چاہیے۔مگر نام نہاد جمہوریت کے چیمپئن ان کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں۔تحریک انصاف خود کو جمہوری جماعت قراردیتی ہے۔اسے تو نوازشریف کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔جانے کیوں عمرا ن خاں برے جرنیلوں۔برے ججوں اور برے سیاست دانوں کی اس شیطانی تکون میں نام لکھوانے پر بضد ہیں؟

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.