یورپ نے نقل مکانی روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا ہے۔
اس سے کہیں زیادہ معاشی استحصال کی پالیسی پر عمل روکنے کی ضرورت ہے۔
افریقا سے نقل مکانی کا رحجان اس لیے پروان چڑھا ہے کہ اس براعظم کے وسائل
کا بلا دریغ استحصال کیاجارہاہے۔ لازم ہوگیاہے کہ یہ رجحان روکا جائے۔۱۷؍
جنوری کواطالوی پارلیمنٹ نے۴۷۰فوجی افریقی ملک نائیجرمیں تعینات کرنے کی
منظوری دی۔ اس اقدام کابنیادی مقصد یہ تھا کہ نائیجر کے باشندوں کو لیبیا
جانے سے روکا جاسکے۔ لیبیا سے یہ لوگ یورپ کی راہ لیتے ہیں۔ فرانس، جرمنی
اور اسپین نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔ افریقا سے یورپ کی طرف نقل
مکانی روکنے کیلئے ان یورپی طاقتوں کو اور کوئی طریقہ نہیں سوجھ رہا۔
افریقا سے نقل مکانی روکنے کیلئے طاقت کا استعمال انوکھا یا راتوں رات
رونما ہونے والا واقعہ نہیں۔ یورپ میں اس حوالے سے بہت سوچا گیا ہے۔ بہت
کچھ لکھا گیا ہے۔ تھنک ٹینک کی سطح پر تجاویز مرتب کی گئی ہیں۔ کوشش کی جا
رہی ہے کہ فی الحال طاقت کے ذریعے افریقی آبادی کو یورپ کی طرف آنے سے
روکا جائے۔ حکومتوں نے اہلِ دانش کی آراء کی روشنی میں چند ایک اقدامات
کیے ہیں۔ اوران اقدامات کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
افریقا سے یورپ کی طرف نقل مکانی میں ایک طرف تو این جی اوز کا کردار ہے
اور دوسری طرف منظم جرائم کے گروہ بھی فعال ہیں۔ یہ سب کچھ ایک منظم نیٹ
ورک کے ذریعے ہورہا ہے۔یورپ نے افریقیوں کو ان کے گھروں تک محدود رکھنے کے
حوالے سے اب تک جو اقدامات کیے ہیں وہ ان کی دانست میں درست ہی ہوں گے مگر
حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور رس اور مثبت اثرات رونما ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
افریقی ممالک میں معیشت کا ڈھانچا کچھ اس طرح کا ہے کہ لوگ مجبور ہوکر دیگر
ترقی یافتہ خطوں کی طرف دیکھتے اور لپکتے ہیں۔ قدرتی وسائل کو بہتر انداز
سے بروئے کار لانے کا باقاعدہ نظام موجود نہیں۔ سیاسی استحکام برائے نام
ہے۔ سیاسی تبدیلیوں کے نام پرقتل وغارت کابازارگرم رہتا ہے۔ ایسے میں لوگ
ملک سے نکل بھاگنے کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔
یورپی طاقتیں افریقا سے نقل مکانی روکنے کیلئے جو کچھ کر رہی ہیں وہ قلیل
المیعاد بنیاد پر تو چند ایک اثرات کا حامل ہوسکتا ہے مگر طویل مدتی بنیاد
پر ایسا کرنے کے فوائد نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افریقا میں موجودہ اور آنے
والی نسلوں کو معیشتی،سیاسی اورمعاشرتی ساخت کے اعتبارسے غیر معمولی
اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسا کچھ نہیں کیاجارہااورظاہر ہے کہ جب تک ایسا نہیں
ہوگا مرضی کے نتائج بھی برآمد نہیں ہوں گے۔افریقا کے کئی ممالک تیل اور
گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان میں نائیجیریا سب سے نمایاں ہے۔ نائیجیریا
میں تیل کے ایک بڑے بلاک میں مجموعی طور پر کم و بیش ۹؍ارب بیرل تیل موجود
ہے،یہ بلاک ساحلی علاقے میں ہے۔یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے پندرہویں صدی عیسوی
میں ایک کروڑ بیس لاکھ غلاموں کو امریکا لے جایا گیا تھا اور یہیں سے سب سے
زیادہ لوگوں نے ۲۰۱۶ء میں نقل مکانی کرکے اٹلی کی سرزمین پر قدم رکھا۔
نائیجیریا افریقا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔
یورپ سے تعلق رکھنے والی تیل اور گیس کی کمپنیوں نے نائیجیریا سے تیل اور
گیس کے حصول کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ نائیجیریا میں صحتِ
عامہ کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں۔ اگر یورپی طاقتیں تیل حاصل کرنے کیلئے
خرچ کی جانے والی رقم کا بہت تھوڑا سا حصہ بھی صحتِ عامہ پر خرچ کریں
تونائیجیریا میں لوگ سکون کا سانس لیں اور انہیں اپنی ہی سرزمین پر زندگی
بسر کرنے میں کچھ زیادہ قباحت محسوس نہ ہو۔ باضابطہ ریاستی ڈھانچا
اورشفافیت نہ ہونے کے باعث تیل اورگیس کے سودوں سے عوام کوکچھ نہیں ملتا ۔
یورپی آئل کمپنیاں جو ڈیل کرتی ہیں ان کے نتیجے میں چندبیورو کریٹس
اورسیاست دانوں کوفائدہ پہنچتا ہے۔ چند ایک منی لانڈرزبھی اس سیٹ اپ سے
فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نائیجیریا کے عوام کی زندگی میں ان سودوں سے کوئی بڑی
تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ بڑے ممالک کے ادارے غریب ممالک کے
قدرتی وسائل کوہڑپ کررہے ہیں۔ اوپی ایل۲۴۵ (نائیجیریا) آئل بلاک ہے، یعنی
وہ علاقہ جہاں تیل مرتکزہے۔ پاناماپیپرزسے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکا
اور یورپ کے بڑے اداروں کیلئے کام کرنے والے بہت سے اداروں نے افریقا اور
بحیرۂ روم کے کنارے آباد غریب ممالک کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ میں
نمایاں کرداراداکیاہے۔ ایندھن،سونااورگیس اس طورنکالاگیا ہے گویا لوٹا
جارہا ہو۔
عام تصوریہ ہے کہ یورپ بہت فراخ دل ہے اوربہت سے غریب اورتباہ حال ممالک کے
لوگوں کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے قبول کررہاہے۔ یہ تاثریا تصور ختم کرنے
کی ضرورت ہے۔یورپ اگرلاکھوں پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کررہاہے
تویہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جانی چاہیے کہ اس مسئلے کوپروان چڑھانے میں
خود یورپ ہی نے کلیدی کرداربھی ادا کیا ہے۔ چند دیگر مسائل سے نمٹنے کیلئے
بھی توجہ درکار ہے۔
یورپ کوافریقا کے غریب ممالک کی بھرپور مدد کیلئے آگے آنا ہوگا۔ ایک طرف
تو یورپی یونین کو اپنی منڈیاں افریقی مال کیلئے کھولنا ہوں گی اوردوسری
طرف افریقا کے خام مال کوبٹورنے سے گریزکرناہوگا۔ افریقا سے جو فوائد یورپ
نے بٹورے ہیں، ان کے فوائد افریقی آبادیوں کو دینا ہوں گے۔ کروڑوں افراد
انتہائی پس ماندگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ معیشتوں کی ساخت تبدیل کرکے
ترقی کی راہ ہموار کرنا ہوگی تاکہ عمومی معیارِ زندگی بلند ہو اور لوگ بہتر
انداز سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ افریقا کے انتہائی پسماندہ ممالک کی پائیدار
ترقی یقینی بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔
افریقا اور بالخصوص شمالی افریقا کے عوام کو بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع
فراہم کرنے میں متمول عرب ریاستیں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس حوالے
سے سعودی عرب، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ کو اپنا کردار
ادا کرنا ہوگا۔
شام اوریمن میں جاری لڑائی کوروکنے کیلئے عرب ممالک کواپنا کرداربھرپور
طریقے سے اداکرنا ہوگا۔یورپ سے اسلحے کی کھیپیں اس خطے میں بھیجی جا رہی
ہیں۔بلقان کاخطہ اس حوالے سے نمایاں ہے۔اگرشام اوریمن میں لڑائی کو روکناہے
اورخطے کوحقیقی معنوں میں پرامن بناناہے تولازم ہے کہ سعودی عرب،کویت
اوردیگرمتموّل اوربااثرممالک اپناکرداراداکریں۔ جب تک ان دونوں ممالک میں
لڑائی ختم نہیں ہوگی تب تک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع
نہیں ہوگی۔نائن الیون کے بعدجارج بش جونیئرنے انتہائی ناانصافی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایا اور دونوں ممالک کو تباہی سے
دوچار کردیا۔ تب سے اب تک دونوں ممالک میں دہشت گردی کا سلسلہ تھما نہیں
ہے۔ افغانستان پہلے ہی تباہ حال تھا۔ نائن الیون کے بعد اس کی تباہی کا
دائرہ پھیل گیا۔دوسری طرف عراق مجموعی طورپرپرسکون ملک تھامگرجارج بش
جونیئر نے یورپ کے ساتھ مل کراس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ نتیجہ یہ
برآمد ہوا کہ ہنستا کھیلتا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ عراق کی تباہی سے
لیبیا کی تباہی کی راہ بھی ہموارہوئی اور یوں مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام
کا دائرہ پھیل گیا۔ ساتھ ہی ساتھ شمالی افریقا میں بھی خرابیوں کا آغاز
ہوا۔
افریقا میں پسماندگی اور خرابی بہت زیادہ ہے۔ یورپ چونکہ جڑا ہوا خطہ ہے اس
لیے آنے والے برسوں میں نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت افریقا کی
آبادی ایک ارب بیس کروڑ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک افریقا کی آبادی ڈھائی ارب تک پہنچے
گی۔ اگر پسماندگی دور نہ کی گئی اورمعیشتوں کو مستحکم کرنے پر توجہ نہ دی
گئی تو افریقا سے یورپ کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہے گا اور یوں
انسانی المیے جنم لیتے رہیں گے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یورپ میں شرح
پیدائش گھٹتی جارہی ہے۔ بیشتر یورپی اقوام کو گھٹتی ہوئی آبادی کے مسئلے
کاسامنا ہے۔ شمالی افریقاسے آنے والوں کوروکنے کیلئے یورپ کوزیادہ سے
زیادہ طاقت استعمال کرناہوگی۔ یہ سب کچھ ایساآسان نہیں جیساسوچااورکہا
جارہاہے۔ یورپ کوسب سے پہلے توافریقاکے قدرتی وسائل کی بندربانٹ روکنا
ہوگی۔اس وقت یورپ کے بہت سے ادارے افریقی قدرتی وسائل کوآنکھ بند کرکے
بٹوررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں افریقاکے لوگوں میں یہ احساس جنم لے رہا ہے
کہ جنہوں نے ہمارابراحال کیاہے اُنہی کی طرف نقل مکانی کی جانی چاہیے۔ یورپ
کوافریقا میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے اوردوسری طرف یورپی
منڈیاں افریقی مال کیلئے کھولنی چاہئیں تاکہ افریقی معیشتیں خاطر خواہ حد
تک پنپ سکیں۔ جب افریقا میں معیشتیں مضبوط ہوں گی اورلوگوں کوبہترزندگی
بسرکرنے کے مواقع ملیں گے تووہ کہیں بھی جانے سے گریزکریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ
یورپ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جنگ سے
تباہ حال ممالک میں اسلحے کی فراہمی جاری نہ رہے۔ بالخصوص یمن میں متحارب
دھڑوں کو اسلحے کی فراہمی روکنا ہوگی۔ افریقا سے ہر سال لاکھوں افراد موسم
کی تبدیلی کے باعث بھی یورپ کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کیلئے
۶؍ارب یورو مختص کیے گئے ہیں۔ یہ فنڈ قانونی طریقے تلاش کرنے پرخرچ کیے
جانے چاہئیں۔ معاملات کوخوش اسلوبی سے نمٹانے کی ضرورت ہے اوریہ کہ معاملہ
کرائسزمینجمنٹ سے ایک قدم آگے بڑھ کرکرائسز پریوینشن کاہے۔افریقاسے آنے
والوں کوروکنے کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ
یورپ کی طرف نہ آئیں۔ یعنی انہیں ان کے گھر میں بہترین امکانات سے
ہمکنارکیاجائے۔
ایک بڑا اوربنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یورپ کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ اور
افریقاکوانتہائی پسماندہ اوروحشی معاشرے کے طورپرپیش کیاجاتاہے۔ یہ سوچ
بالکل غلط ہے۔ اگرکوئی خطہ پیچھے رہ گیاہے تواسے پسماندگی کاطعنہ دینے کے
بجائے اس کی مددکی جانی چاہیے۔انہیں وحشی اورجاہل قراردینے سے معاملات صرف
بگڑیں گے۔اس حوالے سے سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ باصلاحیت خطوں کی زیادہ
سے زیادہ مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی عالمی سطح پرترقی کے عمل کاحصہ بن
سکیں اوراس دنیاکوزیادہ سے زیادہ قابلِ سکونت بنانے میں
اپناکرداراداکرسکیں۔ یورپ کوالگ تھلگ رکھنے کی پالیسی ترک کی جانی چاہیے۔
یورپ نے فقیدالمثال ترقی کی ہے توبہت کچھ بھلابھی دیا گیاہے۔ یہ
تاثردیاجارہاہے جیسے یورپ ہزاروں سال سے ایسا ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ مشرق
وسطٰی اورافریقا کے متعدد ممالک بھی علم و فن میں آگے رہے ہیں۔ ایک زمانہ
تھا کہ یورپ اندھیروں میں ڈوباہواتھااورمشرق وسطیٰ علم وفن کے حوالے سے
منوّرتھا۔اس حقیقت کوکسی بھی حال میں نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ پانچ سوسال
پہلے یورپ بھی جہل کی تاریکیوں میں ڈوباہواتھا۔ یورپ کواپنا رویہ
بدلناہوگا۔ انہیں یہ سوچتے رہنے سے گریزکرناہوگا کہ وہ بہت برترہیں اورباقی
سب کمتراورجاہل ہیں۔ کمزورخطوں کوحقارت کی نظرسے دیکھتے وقت انہیں یاد
رہناچاہیے کہ وہ خود بھی کسی زمانے میں ایسے ہی تھے۔ اور یہ کہ اُس زمانے
کوگزرے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔
|