شب برأت ہر سال آتی ہے۔ مقدر سنوار جاتی ہے۔ امیدوں کی
سوغات لاتی ہے۔ روح کی بالیدگی کا پیام سناتی ہے۔یہ شب بڑی روح پرور اور
ایمان افروز ہے۔ عبادتوں کا اہتمام۔ مُردوں کے حقوق کی ادائیگی۔ ایصالِ
ثواب کے توشے۔ غرض کہ روح پرور سماں ہوتا ہے۔ جس میں جاذبیت و کشش ہوتی ہے۔
ایک دوسرے سے ہم دردانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ گویا اس طرح سے ماہِ رمضان کی
تیاری کا ایک اخلاقی پیغام شب برأت سے مل جاتا ہے۔
احترام مسلم: اسلام ایک آفاقی معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ جس میں سبھی کے حقوق
کی مکمل پاس داری کی ضمانت دی گئی ہے۔ مردوں کے حقوق کا تصور اسلام کے سوا
کہیں نہیں پایا جاتا۔ کوئی شخص دنیا سے رخصت ہو گیا اب اس کے تئیں کیا ذمہ
داریاں اقارب پر عائد ہوتی ہیں؛ اس بابت اسلام نے مواقع بھی دیے اور طرزِ
عبادت بھی بتایا کہ کس طرح سے رب کی عبادت و ذکر سے مرحومین کے لیے رحمتوں
کا توشہ پہنچایا جائے اور برکتوں کی نوید سنائی جائے۔گویا یہ شب اکرام مسلم
و وقارِ مسلم کا ایک ایسا مرحلۂ شوق ہے جس کے دامن میں مردوں کی فلاح کے
کئی ابواب کھلتے ہیں۔اور انھیں یاد رکھا جاتا ہے۔
جمعیت: مسلمان ایک قوم ہیں۔ اتحاد کی کڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ایسے مواقع
جن میں رضائے الٰہی کے توشے بٹتے ہیں اتحادکی منتشر کڑیاں جوڑنے والے ہوتے
ہیں۔ جس کا فائدہ یہی ہے کہ ایسے وقتوں میں ہماری قوت کو محفوظ کیا جائے
اور اسے اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ جمعیت اور
اجتماعیت کا نمایاں پیغام ہے شب برأت۔اسلام کا یہ نظام ہے کہ انفرادی زندگی
کو اجتماعی نظام سے مربوط کر کے قومی وقار کے تئیں بیدار کرتا ہے۔اسلام کے
نظامِ فطرت پر استقامت، رسول کریم ﷺ سے والہانہ الفت و ناموسِ رسالت کے
تحفظ کے لیے یک جان ہونے سے جمعیت کا وقار ملحوظ ہوتا ہے
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پرانحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رُخصت تو ملت بھی گئی
قبرستانوں میں اہتمام میت: میت اپنے اقارب سے توشۂ ثواب کی امیدیں رکھتی ہے۔
اس شب میں ان کے حقوق کی جہاں پاس بانی کی جاتی ہے وہیں میتوں کے راحت و
سکوں کا پیغام بھی ہوتا ہے کہ اس کے اقارب یک جا ہو کر اموات کے لیے تلاوت
و ذکر و اذکار و درود کا اہتمام کرتے ہیں۔ کہیں سورۂ یسٓ کی تلاوت تو کہیں
آیاتِ مبارکہ کا ورد، درودوں کی سوغاتیں، دعاؤں کے تحفے۔ یوں ہی سلام و
دُعا کے نغمے بھی۔ جن کے ذریعہ مردے کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس کے
لیے آسائش کا ساماں مہیا ہوتا ہے۔
فکر آخرت: شب برأت احتسابِ نفس کا مرحلہ ہے جس میں یہ احساس زندہ ہوتا ہے
کہ ہمیں موت آنی ہے۔ موت ایک زندہ حقیقت ہے جس سے مفر نہیں۔ اس کی یاد کو
شب برأت ہر سال تازہ کر دیتی ہے۔ جس کی تیاری مومن کی اہم ذمہ داری ہے۔
بلکہ سچا مسلمان تو ہر عمل میں موت کی تیاری کو مقدم رکھتا ہے۔ تصورِ آخرت
گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکیوں کی راہ کا مسافر بناتا ہے۔ وہ کیسے ہیں
کہ نفس بد کے بہکاوے میں اپنے انجام سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔گویا فکرِ آخرت
کی تجدید اسی شب ہوتی ہے۔
شام کی یادیں: گزرے کئی برسوں سے شام میں لاکھوں مسلمان شہید ہو گئے۔ ارباب
اقتدار نے اپنے تخت کی بقا کے لیے زندگیوں سے وہ کھلواڑ کیا کہ بچے، عورتیں،
ضعیف سبھی سفاکی سے شہید کر دیے گئے۔ شام کے کھنڈرات پر ابلیس کا رقص آج
بھی جاری ہے۔ کتنے صحت مند جسم بموں کی زد پر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
شامیوں کی شام غم بڑی طویل ہو چکی ہے۔ جنگ سے نبرد آزما مسلم ریاست امن کو
ترس رہی ہے۔ کوئی مسلم ملک اس کے غم کا مداوہ نہیں کر رہا۔ عربوں میں غیرت
ایمانی کب کی رُخصت ہو چکی، حمیت نہ رہی، اپنی قوت کا احساس بھی باقی نہ
رہا، اپنی شوکت کا پاس نہ رہا، عزتِ مسلم کالحاظ نہ رہا۔ جس زمیں سے رسول
کریم ﷺ نے بتوں کو نکالا دیا تھا؛ آج وہاں کے بادشاہ کئی منات نصب کروا رہے
ہیں، لات و ہبل کو لابسایا جا رہا ہے۔ مندروں کی اجازت دے کر شرک کے
متوالوں پر عرب کی زمیں کشادہ کر رہے ہیں۔یہ المیہ ہے۔ اپنی تاریخ کا خونین
باب ہے یہ۔ ایسے ہی مسائل کے بطن سے شام غم طلوع ہوتی ہے اور عالم کفر اپنی
سازشوں کی تکمیل کرتا ہے۔ شام میں مسلمانوں کی خوں ریزی کا حساب مشیت لے گی۔
بادشاہانِ عرب کب تک عیش کدوں میں رہیں گے۔ ایک دن انھیں بھی زوال آنا ہے۔
ان سے احتساب ہوگا۔ یومِ آخر تو آخر قائم ہونا ہے۔ ظلم کا عرصہ ایک دن
سمٹنا ہے۔
ہمارا امتحاں ہے: جلتے ہوئے غوطہ، تباہ ہوتے حلب، سمٹتے ہوئے یمن، گرتے
ہوئے عراق، لہولہان فلسطین یہ سب درس ہیں مسلمانوں کے لیے۔ کہ کب تک یہود و
نصاریٰ کے چنگل میں رہو گے۔ یہ تمہارے دُشمن ہیں۔ یہ کوئی موقع تمہاری
تباہی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ اس لیے اے قوم مسلم! اٹھ جا، بیدار ہو
لے۔ اپنے ایمان و شریعت پر استقامت اختیار کر کے باطل کے ایواں کو پاش پاش
کردے۔ ایماں کی قوت سے اجڑتے ہوئے مسلم ممالک کا سہاگ بچا لے۔ قبلۂ اول
تمہیں آواز دے رہا ہے۔ خونِ مسلم کی ارزانی کب تک ہو گی؟ کب تک ہم سربراہانِ
مملکتِ اسلامیہ پر تکیہ کریں گے۔ اب بھی وقت ہے اسلام کی قوت و شوکت رفتہ
کو آواز دیں۔ امتحاں کی اس گھڑی میں سبز گنبد کے مکیں سے مدد چاہیں۔ ان شاء
اﷲ رب کی رحمتیں جھوم کر برسیں گی اور کفر کے ایواں خس و خاشاک کی طرح اُجڑ
جائیں گے۔ کاش ہم جاگ جائیں! دعاؤں کے توشے مظلومینِ قوم کے لیے نذر کریں۔
شہدا کے لیے ایصالِ ثواب کریں۔ شبِ برأت کی عبادتوں میں عزم کریں کہ رب کی
بندگی پورے سال کریں گے۔ تادم زیست فرامین خدا و رسول کی پاس داری کریں گے۔
تب اُمیدوں کی صبح نمودار ہو گی جس کے سائے میں شام و یمن و فلسطین بھی
آزادی کی نوید سنیں گے
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغازہے
٭٭٭
|