شب برأت کے معنی بری ہونے کے ہیں یعنی اس رات میں
گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی برأت ہوتی ہے۔ یہ ایسی شب ہے جس میں اللہ
تعالیٰ کثیر تعداد میں اپنے عاصی بندوں کو جہنم سے چھٹکارا دیتا ہے ۔ ان پر
رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے۔اس رات میں اللہ رب العزت کی رحمت
مسلمانوں کے دلوں پرمسلسل برس رہی ہوتی ہے، کتنے ہی گناہگا ر اپنے کیے گئے
افعال پر ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے سربسجود ہوکر اپنے رب کو راضی کرکے اس
سے مغفرت کا پروانہ حاصل کرتے ہیں۔ ا س رات میں آسمانوں سے ندا کی جاتی ہے
اور بندوں کو مانگنے کی طرف بلایا جاتا ہے۔ بخشش مانگنے والوں کو بخشش کا
پروانہ دیا جاتا ہے۔ رزق مانگنے والوں کو رزق کثیر دیا جاتا ہے۔ رکوع و
سجود کرنے والوں اور عبادت میں مشغول رہنے والوں کو خوشخبریاں سنائی جاتی
ہیں۔ اس مقدس شب میں کثیر رحمت و برکتو ں کے نزول کے باوجود کچھ بد قسمت
لوگ ان نوازشوں سے محروم رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے متعلق مختلف احادیث مبارکہ
میں وضاحت کی گئی ہے کہ وہ اس برکت والی رات میں رحمت خداوندی سے محروم
رہتے ہیں ، ان پر نظر عنایت نہیں ہوتی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گناہِ کبیرہ میں
سے بعض گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان سے توبہ نہیں کرتے۔ انہیں میں سے وہ
لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے بلکہ ا س کے
ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔شرک کرنے والوں کی مذمت میں اور ان کے اس ناقابل
معافی جرم کے متعلق قرآن گواہی دیتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس کو معاف
نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ (سورۃ النساء: ۱۱۶)
کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے والا بھی اس عظیم رات میں رحمت الٰہی سے
محروم رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کی عبادات بھی قبول نہیں کی جاتیں۔ آخرت میں
اس کی سزا یہ ہوگی کہ وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گااوراس کا ٹھکانہ
دوزخ ہوگا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً
قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (سورۃ النساء: ۹۳)رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اس کے قتل پر خوش ہوا تو
اللہ تعالیٰ اس کے نہ تو نفل قبول فرمائے گا نہ ہی فرض قبول فرمائے گا۔ (
ابو داؤد: ۴۲۷۰)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ناحق حرام
خون بہانا ہلاک کرنے والے اُن امور میں سے ہے جن سے نکلنے کا کوئی راستہ
نہیں ہے۔(صحیح بخاری: ۶۸۶۳)
وہ گناہ جن کی وجہ سے شب برأت میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ان میں سے ایک گناہ
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے کینہ اور بغض رکھنا ہے۔ یعنی ایک مسلمان
اپنی ذاتی وجوہات اور نفسانی خواہشات کی بناء پر دوسرے مسلمان سے بغض رکھے۔
ایسے شخص کی بخشش نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے صلح نہ کرلے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس بندہ کے گناہ
بخش دیے جاتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو ‘ ماسوا اس شخص
کے جو اپنے بھائی کے خلاف اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہو ، پس کہا جائے
گا : ان دونوں کو روک دو یہاں تک کہ یہ ایک دوسرے سے صلح کرلیں، آپﷺ نے تین
مرتبہ فرمایا۔ (مسلم: ۲۵۶۵)
حدیث مبارکہ کے مطابق والدین کے نافرمان کی طرف اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت
نظر رحمت بھی نہیں فرمائے گا۔والدین کے نافرمان پر جنت حرام کردی گئی
ہے۔ایسے شخص کا جنت میں داخلہ تو کجا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا
حالانکہ جنت کی خوشبو کا عالم یہ ہو گا اللہ کے نیک بندے پانچ سو سال کی
مسافت جبکہ ایک روایت کے مطابق ایک ہزار سال کی مسافت سے جنت کی خوشبو
محسوس کریں گے۔ اللہ تعالیٰ والدین کے نافرمان کو مرنے سے پہلے ہی دنیا میں
سزا دیتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کے سوا اللہ ہر گناہ میں سے جس کو چاہے گا
معاف فرمادے گا اور ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو زندگی میں موت سے
پہلے مل جائے گی۔ ( شعب الایمان: ۷۸۹۰)
جن گناہو ں کی وجہ سے مسلمانوں کی دعا شرف قبولیت تک نہیں پہنچتی اور وہ
رحمت الٰہی سے محروم رہتے ہیں ‘ اُن میں مسلمان بھائیوں اور رشتہ داروں سے
قطع تعلق کرنا ، شراب نوشی کرنا اور جادو کرنا بھی ہے۔ قطع تعلق کی مذمت کے
متعلق ارشاد ربانی ہے: اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ ان
کو کاٹ دیتے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۷) حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان
کی گئی ہے چنانچہ ارشاد مصطفی ﷺ ہے: قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہیں
ہوگا۔ (صحیح بخاری: ۵۹۸۴)شراب نوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ
تعالیٰ شراب پر لعنت فرماتا ہے اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے
والے پر اور اس کی فروخت کرنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور اس کے
نچوڑنے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے نچڑوانے والے پر اور اس
کے اٹھانے والے پر اور جس کے پاس وہ اٹھا کر لائی جائے۔ (ابوداؤد: ۳۶۷۴)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جو دنیا میں شراب نوشی
کرتے ہوئے مرگیا اور اس نے دائماً شراب نوشی سے توبہ نہیں کی وہ آخرت میں
شراب (طہور) نہیں پی سکے گا۔ ( صحیح بخاری: ۵۵۷۵) اسی طرح جادو کرنے اور
اسے سیکھنے کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔ایک روایت کے مطابق جادوگر
اور جادو کو صحیح کہنے والا یعنی جادو پر یقین رکھنے والا بھی جنت سے محروم
رہے گا۔ (صحیح ابن حبان: ۶۱۰۴)
جو گناہ مسلمان کو اس مقدس رحمت بھری شب میں برکتوں سے محروم رکھتے ہیں ان
میں ایک گناہ چغلی کھانا بھی ہے یعنی دو مسلمان بھائیوں کو لڑانے کے لیے
ایک کی بات
دوسرے تک پہنچا نا چغلی ہے۔ اس کی مذمت میں قرآن کریم کی آیات بھی نازل ہوئی
ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہر اس شخص کے لیے ہلاکت ہو جو عیب جو اور چغل
خور ہے۔ (سورۃ الھمزۃ: ۱) چغل خور کی مذمت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ ( شعب الایمان: ۱۱۱۰۱)
درج بالا محروم لوگوں کے علاوہ اورمزید ایسے لوگ ہیں جو شب برأت کے موقع پر
بھی رب کی ناراضی دور نہیں کرپاتے اُن میں کاہن، نجومی، باجہ بجانے والے
وغیرہ بھی شا مل ہیں۔ الغرض ہر مسلمان اپنا محاسبہ کرے اور صدق دل سے اپنے
رب کے سامنے گناہوں کی معافی طلب کرے تاکہ اس عظیم اور مقدس شب میں رحمت
الٰہی سے محروم نہ رہے۔
|