جہالت اورجذباتیت کے ہاتھوں مجبورہوکر پستی میں گرے ہم
بھی کیا لوگ ہیں؟جو ابھی تک اِس سے نکل نہیں سکے ہیں یقینایہ وہ پچھتاوا
اورایک ایسا سوال ہے جسے ہرپاکستانی ستر سالوں سے کرتادِکھائی تو دیتاہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی کو بھی کہیں سے اِس سوال کاتسلی بخش
جواب نہیں مل سکاہے بھلا ملتا بھی کیسے ؟ہم سب ہی توکا نے ہیں کوئی تو سا
لم ہوتا اور اِنسا نیت کے مقام پر پہنچا ہوتا یا قریب قریب ہی ہوتاجوکہیں
سے اِس سوال کا ذراسا بھی تسلی بخش جواب دے پاتا اور یہی جواب سوال پوچھنے
والے کو مطمئن کرتا ۔
مگر ہائے افسوس کہ ہماری کل منہی قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو
جنازوں پر ثوابِ دارین کے لئے گریہ وزاری کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں مگر
بڑے دُکھ اور درد کی بات یہ ہے کہ سترسالوں سے جہالت اورجذباتیت کی پستی کے
اندھیروں میں غرق ہم لوگ جہالت کے خلاف آہ وفغاں کرناگناہ سمجھتے ہیں اِسی
لئے ہم جہالت پر آنسوبہا سے قاصر ہیں۔
اکثراپنی تہذیب اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے
ہم جہالت اور جذباتیت کے کنوئیں کے مینڈکوں کو یہی اپنی زندگی لگتی ہے تب
ہی ہم نے اِس کنوئیں سے نکل کر باہر کی دنیا کا حسین نظارہ کرنا کبھی گوارہ
ہی نہیں کیا ہے اگر اِس کنوئیں میں سے کوئی نکلنا بھی چاہتاہے تو نیچے والا
اُسے پکڑ کر کھینچ لیتاہے اور وہ دوبارہ تہہ میں جا گرتاہے۔
مان لیجئے کہ گزشتہ ستر سالوں سے ہم پاکستا نی قوم اِس کام میں لگی ہوئی ہے
یا ہمیں ہمارے طاقتور وں نے اِس کام پر لگا رکھاہے یہی وجہ ہے کہ آج ہماری
ساری صلاحیتیں ایک دوسرے کواپنے ذاتی و سیاسی اور مذہبی مفادات کے خاطرنیچے
گرانے اور کھینچا تانی میں ہی صرف ہورہی ہیں جیسے اَب یہی ہماراقومی فریضہ
اور ہمارا مشغلہ ہے اور ہماری زندگی کی ساری کمائی اِسی کے گرد گھومتی ہے۔
یہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گاکہ جن لوگوں نے ہمیں اِس کام پر لگایا
ہے اِنہیں یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اِس کام کو کرنے اور پروان چڑھا نے
کے لئے نہ کسی مالی اور نہ کھاد کی ضرورت ہے اَب پوری پاکستا نی قوم جہالت
اور جذباتیت کی آباری خود کرتی ہے اور خود ہی اپنی جہالت اور جذباتیت کی
فصل کو پروان چڑھا تی ہے اورپھراِسے خود ہی کاٹتی ہے آج اِس میدان میں یہ
دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں سب سے آگے نکل چکی ہے ۔
آج یہ میری قوم کے لئے کلنک کا ٹیکہ ہی تو ہے جس کی وجہ سے میری قوم اپنی
جہالت اوراپنے جذبات پن کی وجہ سے اکثر اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں اپنا
وقار داو پر لگاکر اپنی بقا ء و سلامتی اور استحکام کا بھی سودا کرنے سے
دریغ نہیں کررہی ہے ہم کسی کواپنی مجال دکھاتے دکھاتے اپنا کمال و جمال بھی
گنوا بیٹھتے ہیں یعنی کہ آج جب ہم پر اپنی مجال کے مظاہرے کا شوق چڑھتاہے
تو پھر ہم اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی جذباتیت کے سامنے یہ بھی
احساس نہیں رہتاہے کہ ہم اپنی مجال کے ہاتھوں مجبورہوکر کیاکرنے والے ہیں ؟پھر
کچھ بھی ہوجائے ہم اِس سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔
پچھلے ستر سالوں سے یہی توہم کرتے آئے ہیں اور اگر ابھی ہم نہ سنبھلے توپھر
پتہ نہیں کب تک ہم اپنا سب کچھ جہالت اور جذباتیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر
اُلٹاتے رہیں گے آج ہماری جہالت اور جذباتیت کی وجہ سے پستی اور ناکامی کا
تماشہ تو دنیا دیکھ کر مزلے لو ٹ رہی ہے مگر دنیا یہ بھی یاد رکھے کہ جس
روز میری قوم کو اپنی اہمیت اور افادیت کا احسا س ہوگیااور یہ جہالت اور
جذباتیت کے لاوے سے باہر نکل گئی تو پھر دنیا جو آج تیل پر لگی آگ دیکھ رہی
ہے یہی دنیا یہ بھی دیکھے گی کہ میری یہ پاکستا نی قوم اپنی صلاحیتوں اور
ہنر مندی و مہارت سے پانیوں پربغیر تیل کے کیسے آگ لگا تی ہے اورآسمانوں کی
بلندی سے بھی آگے کیسے نکلتی ہے پھر یہ کیسے دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے
لوہے منواتی ہے بس ذرا قوم کو جہالت اور جذباتیت کے اندھیرے کنوئیں سے
باہرتو نکل لینے دوپھریہی دنیا خودپکارے گی ہاں یہ ہے پاکستا نی قوم جو اَب
دنیا پر اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے جھنڈے گاڑرہی ہے۔
|