چنیوٹ: کرشنگ سیزن اور شوگر مافیا
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
چنیوٹ: کرشنگ سیزن اور شوگر مافیا ---------------------------------------- ضلع چنیوٹ پنجاب کے وسط میں واقع ایک زرخیز اور نہایت اہم زرعی خطہ ہے جو دریائے چناب کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے قدرتی پانی، ندی نالوں، بارانی بہاؤ اور زیرِ زمین نمی سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس ضلع کی سرزمین صدیوں سے زرخیز مانی جاتی ہے، اور یہاں کا زرعی ڈھانچہ پنجاب کی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ چنیوٹ گندم، گنا، مکئی، چاول، آلو، مٹر، کپاس، تربوز اور دیگر موسمی سبزیوں کی وافر پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ اس ضلع کی زرخیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کی زمین نہ صرف ربیع و خریف دونوں سیزن میں بھرپور پیداوار دیتی ہے بلکہ جدید تحقیق کے مطابق اس خطے کی مٹی میں نائٹروجن، پوٹاش اور نامیاتی مادّوں کی وہ مقدار پائی جاتی ہے جو بلند پیداوار کی حامل فصلوں کے لیے نہایت موزوں سمجھی جاتی ہے۔ چنیوٹ کی معیشت کی بنیادی اکائی زرعی پیداوار ہے، اور یہاں کے ہزاروں خاندان اپنی روزی روٹی کا دار و مدار انہی فصلوں پر رکھتے ہیں۔ گندم ضلع کی غذائی خود کفالت کو برقرار رکھتی ہے، جبکہ گنا یہاں کی سب سے زیادہ کیش کراپ ہونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ گنے کی کاشت کے ساتھ ساتھ چاول، آلو اور مٹر جیسی فصلیں بھی اس ضلع کی معیشت کو مستحکم رکھتی ہیں۔ مٹی کی زرخیزی اور دریائے چناب کے قریب ہونے کے باعث یہاں کی پیداوار پورے صوبے میں معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چنیوٹ کی زرعی زمینیں سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور شوگر مل مافیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں، کیونکہ اس خطے میں گنے کے خام مال کی مسلسل فراہمی ان کی صنعت کو بلا تعطل چلانے کے لیے انتہائی موزوں تصور کی جاتی ہے۔ لیکن اس زرعی و معاشی اہمیت کے باوجود چنیوٹ کا کسان اس وقت شدید ترین معاشی، انتظامی اور ساختیاتی استحصال کا شکار ہے۔ ضلع کی تین بڑی شوگر ملز,رمضان شوگر مل، سفینہ (پاہڑیانوالی) شوگر مل، اور مدینہ شوگر مل جن کا بنیادی مقصد کسان کو سہولت فراہم کرنا اور مقامی معیشت کو مضبوط بنانا تھا، وقت کے ساتھ اس نظام کا سب سے کمزور اور استحصال زدہ حلقہ وہی کسان بن گیا ہے جس کی محنت پر پوری صنعت کھڑی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں چنیوٹ کی شوگر صنعت نے سیاسی اثر و رسوخ، سرمایہ دارانہ اجارہ داری اور کمیشن مافیا کی ملی بھگت سے ایک ایسا طاقتور نیٹ ورک قائم کر لیا ہے جو نہ صرف مقامی انتظامیہ بلکہ صوبائی سطح تک حکومتی اداروں کو اپنے مفادات کے تابع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائی کے درمیانی برسوں میں جب گنے کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا تھا، سرمایہ دار حلقوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے چنیوٹ میں شوگر ملوں کا قیام کیا۔ رمضان شوگر مل کا قیام 1991ء میں ہوا اور وقت کے ساتھ یہ پاکستان کی بڑی ترین اور منافع بخش ملوں میں شمار ہونے لگی۔ اس کے بعد سفینہ اور مدینہ شوگر ملوں نے بھی اسی سلسلے کو آگے بڑھایا۔ توقع تھی کہ ان ملوں کی وجہ سے کسان کو بہتر نرخ ملیں گے، فصل کا بوجھ کم ہوگا، جدید طریقۂ پروسیسنگ سے ضیاع کم ہوگا اور دیہی معیشت میں روزگار بڑھے گا۔ مگر عملی صورت حال اس کے برعکس نکلی اور شوگر صنعت کسان کے لیے سہارا نہیں بلکہ معاشی غلامی کا نیا دور ثابت ہوئی۔ چنیوٹ کی شوگر ملز میں سب سے بڑا مسئلہ گنے کی تولائی اور کٹوتی کا غیر شفاف اور استحصالی نظام ہے۔ وزن کرنے کے لیے کھلے عام اسکینر یا وزن کانٹا موجود نہیں ہوتا۔ کسان اپنی گنے کی ٹرالی کے وزن سے مکمل طور پر لاعلم رہتا ہے۔ وزن اور کٹوتی کا پورا عمل مل کے اندر ایک کمرے میں موجود چند افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو من پسند اور انتظامیہ کے نافذ کردہ طریقے سے طے کرتے ہیں۔ اگر ایک ٹرالی کا وزن 400 من ہو، تو 30 من سے 70 من تک کی ناجائز کٹوتی کر دی جاتی ہے۔ یہ کٹوتی نہ کسی قانون کے تابع ہوتی ہے، نہ کسی اصول کی پابند، اور نہ ہی اس کے خلاف کسان کو احتجاج کا کوئی حق حاصل ہوتا ہے۔ وزن کے اس جعلی نظام نے کسان کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ گنے کی قیمت 400 روپے فی من مقرر ہے، مگر یہ قیمت کسان کے لیے تباہ کن حد تک کم ہے۔ فصل کی لاگت، کھادوں کی قیمت، ٹھیکہ کی ادائیگی ڈیزل، آبپاشی کے اخراجات، مزدوری، زرعی ادویات اور کرایہ پہلے ہی انتہائی زیادہ ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود مل مالکان کسان سے 400 روپے فی من پر گنا خریدتے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں چینی 200 سے 220 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ اس تمام فرق کا فائدہ شوگر مل مالکان اٹھاتے ہیں۔ گنے کی مٹھاس کی شرح یعنی ریکوری ریٹ اگر کم ہو تب بھی کسان کو 400 روپے ہی ملتے ہیں، اور اگر ریکوری بڑھ جائے تب بھی اس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا جبکہ مل کا منافع کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس یک طرفہ فارمولے نے کسان کو شدید غیر مساوی اقتصادی ڈھانچے میں جکڑ دیا ہے۔ وزن کے بعد ادائیگیوں میں تاخیر کسان کے لیے ایک اور تباہ کن مسئلہ ہے۔ مل مالکان کسان کو فوری ادائیگی نہیں کرتے بلکہ کئی ہفتے، بعض اوقات کئی مہینوں تک اسے اپنی رقم کے حصول کے لیے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ وہ رسید ہاتھ میں لیے مل انتظامیہ، بروکر اور کمیشن ایجنٹوں کے درمیان زلیل ہوتا رہتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے کسان مزید قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے، جو اسے سود خور مافیا، آڑھتیوں اور بینکوں کے چنگل میں دھکیل دیتا ہے۔ قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ اس کے خاندان کو معاشی غلامی کی طرف لے جاتا ہے۔ ملوں کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر ایک منظم حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے کسان کو مالی دباؤ میں رکھ کر اسے اگلی فصل کے لیے بھی انہی ملوں کا محتاج بنایا جاتا ہے۔ چنیوٹ میں کرشنگ سیزن کو جان بوجھ کر تاخیر سے شروع کرنا بھی مل مافیا کی طاقت کا حصہ ہے۔ جب موسم بدل چکا ہوتا ہے اور کسان اپنی ٹرالی گنے کو کھیت سے نکال کر مل تک لاتا ہے، اس وقت مل انتظامیہ کرشنگ سیزن نہیں کھولتی۔ کسان اپنی ٹرالی کو گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک مل کے باہر کھڑا رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ گنے کو دیر ہوتی ہے، اس کا رس کم ہونے لگتا ہے، پانی خشک ہوتا ہے، وزن گھٹتا ہے اور پھر وزن میں مزید کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس تاخیر کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ کسان گندم بروقت نہیں بو سکتا۔ کھیت خالی نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی کاشت تاخیر سے ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں پیداوار کم ہو جاتی ہے اور اسے مزید نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 2014 سے 2025 تک آنے والے سیلابوں نے چنیوٹ کے کسان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے زرعی رقبے، بیج، کھاد، مشینری اور ذخیرہ شدہ غلہ شدید متاثر ہوا۔ کسان پہلے ہی معاشی دھچکے میں تھا، مگر مل مافیا نے کم نرخ، ناجائز کٹوتی اور ادائیگیوں میں تاخیر کے ذریعے اس کی کمر پوری طرح توڑ دی۔ اس صورتحال نے کسان کی زندگی کو محض مشکل ہی نہیں بلکہ ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔ بہت سے کسان زرعی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں، جنہیں سالہا سال تک اتارنا ناممکن ہو چکا ہے۔ دیہی خاندانوں میں غربت بڑھ رہی ہے، بچوں کی تعلیم چھوڑ دینا عام ہوتا جا رہا ہے، اور صحت کی سہولیات تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنا مل مافیا کا ایک پرانا طریقہ ہے۔ یہ ملیں گنے کی کرشنگ تاخیر سے شروع کرتی ہیں، چینی کے ذخائر چھپا لیتی ہیں، اور پھر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ جب قیمت 200 سے 220 روپے فی کلو تک پہنچ جاتی ہے، تب اسٹاک مارکیٹ میں اتارا جاتا ہے۔ حکومت سرکاری نرخ کا اعلان کرتی ہے، مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ انتظامیہ یا تو اس مافیا کے سامنے بے بس ہوتی ہے یا پھر سیاسی سرپرستی کی وجہ سے آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی، کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی مداخلت، اور متعلقہ محکموں میں بدعنوانی نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پنجاب میں دہائیوں سے یہ روایت قائم ہے کہ شوگر مل مالکان ہی پالیسی ساز حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ گنے کی سپورٹ پرائس اکثر تاخیر سے مقرر ہوتی ہے، کرشنگ سیزن کے آغاز پر سخت نگرانی نہیں ہوتی، اور ملوں کی من مانی روکنے کا کوئی موثر طریقہ موجود نہیں۔ انسدادِ ذخیرہ اندوزی قوانین کاغذی صورت تک محدود ہو چکے ہیں۔ عدالت عالیہ نے حالیہ حکم میں تمام شوگر ملوں کو فوری طور پر فنکشنل کرنے کا فیصلہ دیا تاکہ کسان کو اس کے حق کے مطابق گنا فروخت کرنے کا موقع مل سکے۔ لیکن جب تک وزن کے نظام میں شفافیت نہیں لائی جاتی، اوپن اسکینر نصب نہیں کیے جاتے، کمیشن مافیا کے کردار کو ختم نہیں کیا جاتا، اور ادائیگیوں کا بروقت نظام نافذ نہیں ہوتا، تب تک یہ عدالتی حکم بھی کسان کی حالتِ زار میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ یہ پورا بحران صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی ڈھانچے کی بنیادوں تک پھیلا ہوا ہے۔ کسان کی نئی نسل زراعت سے بددل ہو رہی ہے۔ نوجوان شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنے آبائی پیشے میں وہ عزت، کمائی یا مستقبل نظر نہیں آتا جو بنیادی ضروریات پوری کرسکے۔ اس صورتحال کا اثر صرف چنیوٹ پر نہیں بلکہ پنجاب اور پھر پاکستان کی مجموعی زرعی پیداوار اور فوڈ سیکیورٹی پر پڑ رہا ہے۔ اگر کسان زراعت چھوڑ دے یا اپنی محنت کا مناسب معاوضہ نہ پائے تو پورا زرعی نظام غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ اس بحران کا مستقل حل تبھی ممکن ہے جب شوگر ملوں کے پورے نظام کی ازسرِنو تنظیم کی جائے۔ وزن کے نظام کو جدید ڈیجیٹل آلات سے منسلک کیا جائے، وزن کی اسکرین ہر ٹرالی کے سامنے نصب کی جائے، کٹوتی کے معیار سرکاری سطح پر طے کیے جائیں، اور ان پر سخت نگرانی ہو۔ کسان کو براہِ راست ادائیگی کا نظام دیا جائے تاکہ کمیشن ایجنٹوں کی گنجائش ختم ہو جائے۔ گنے کی قیمت کو مہنگائی کے تناسب سے خودکار طریقے سے اپ ڈیٹ کرنے کا فارمولا بنایا جائے۔ اگر مل کی ریکوری بڑھتی ہے تو اس کا فائدہ بھی کسان کو ملے۔ شوگر ملز کے سالانہ آڈٹ آزاد اداروں سے کرائے جائیں تاکہ اصل پیداوار، اصل منافع اور حقیقتاً کسان کو دی گئی قیمت کا تقابلی جائزہ لیا جا سکے۔ انتظامی سطح پر ضلعی حکومت کو طاقتور بنانا، کرشنگ سیزن کے آغاز و اختتام پر موثر نگرانی، ناجائز کٹوتی پر بھاری جرمانے، اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف فوری کارروائی جیسے اقدامات اس مسئلے کو کم کر سکتے ہیں۔ زرعی سائنسی مراکز کے ذریعے کسانوں کو جدید طریقہ کاشت اور متبادل فصلوں کی تربیت بھی اس انحصار کو کم کرے گی جو گنے پر حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ چنیوٹ کا زرعی بحران پاکستان کے وسیع تر معاشی ڈھانچے کی علامت ہے۔ جب تک ریاست کسان کو تحفظ نہیں دیتی، اس کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتی، اور صنعتکارانہ اجارہ داری کو ختم نہیں کرتی، تب تک نہ کسان مضبوط ہو سکتا ہے، نہ زراعت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی قومی معیشت میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ شوگر مافیا کا خاتمہ، شفافیت کا نفاذ اور کسان کے حقوق کا تحفظ صرف چنیوٹ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ |
|