عقائد کا دوسرا نام ایمانیات ہے ایمانیات کا تعلق دل اور
یقین پر ہوتا ہے۔ ہمارے مذہب نے جو عقائد بیان کئے ہیں سراپا حقیقت اور
فلاح پر مبنی ہیں.ہر شخص کچھ عقائد کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے۔زندگی میں
سب سے اہم لمحات وہی ہوتے ہیں جب عقائد کا قیام عمل میں آتا ہے۔انسان کے ہر
عمل کی بنیاد عقیدہ ہے۔جوں جوں ہم پروان چڑھتے ہیں ہمارے عقائد خواہ منفی
ہوں یا مثبت پختہ ہوتے رہتے ہیں انسان اپنے افعال میں تو تغیر لا سکتا ہے
مگر اپنے عقیدے میں رد و بدل نہیں کر سکتا۔عرصہ بھر ایک ہی عقیدہ کی بنیاد
پہ زندگی بسر کرتے ہوئے اگر کسی مقام پہ جاکر ہمیں احساس ہو بھی جائے کہ
ہماری بنیاد باطل عقائد پر مبنی ہے توہمارے لیے عقیدہ بدلنا بہت ہی مشکل
ہوجاتا ہے۔کبھی ذاتی انا آڑے آجاتی ہے تو کبھی معاشرتی ضروریات جو ہمیں ا س
عقیدے کی بنا پہ ملی ہوتی ہیں۔ فقط ایک بہادر اور مادی ضروریات سے بے نیاز
رہنے والا شخص ہی اپنی راہ کو بدل سکتا ہے۔کچھ عقائد انفرادی ہوتے ہیں اور
کچھ اجتماعی۔انفرادی عقائد کا تعلق انسان کی اپنی سوچ اور جذبات پر ہے اور
اس کی درستگی کے لیے وقتاً فوقتاً معاشرے کی تنقید ہمیں سوچنے پہ مجبور
کرتی رہتی ہے آیاکہ ہم باطل راہ پہ گامزن تو نہیں۔لیکن سب سے نازک مرحلہ تو
اجتماعی عقائد کا ہے۔ آج ہم ایسے گروہوں میں بٹ چکے ہیں جو اپنے عقائد
خودتخلیق کرکے اْسی پہ ڈٹ جاتے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جانچ پڑتال
کیے بغیر جس پہ دل مطمئن ہو یا جس سے ہمیں مادی استفادہ حاصل ہو اسی راہ کو
صراطِ مستقیم سمجھ بیٹھتے ہیں۔اجتماعی عقائد تو ہم سے بینائی ہی چھین لیتے
ہیں۔ہم جانچ پڑتال کرنے کی صلاحیت سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں۔ہمارے اردگرد
رہنے والے چونکہ خود انہی عقائد پہ قائم ہوتے ہیں اسی لیے ہمیں کبھی یہ
محسوس نہیں ہوتا کہ ہم غلط بھی ہوسکتے ہیں۔کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے جس راہ
پہ زیادہ لوگ چل رہے ہوں اْسی کو حق سمجھتے ہیں اور فراموش کر دیتے ہیں کہ
اتنی بڑی تعداد اور بھاری طاقت باطل بھی ہوسکتی ہے۔کیونکہ سچائی کا کڑوا
گھونٹ پینے کی ہمت ہر ذی روح کے پاس نہیں ہوتی۔سچائی مادی لوازمات سے
بالاتر ہوتی ہے۔
قارئین اکرام !!! ایک لمحہ کے لیے معاشرتی عقائد پہ گہری نظر ڈالیں تو روزِ
روشن کی طرح بہت سے باطل عقائد عیاں ہوجاتے ہیں جن پہ ہم عرصہ بھر سے یقین
کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے جارہے ہیں۔کچھ عقائد تو نسل در نسل چلتے
آرہے ہیں۔لیکن مشرکین مکہ کی پیروی کرتے ہوئے ہم ان کو باطل جانتے ہوئے بھی
رد نہیں کرتے۔ مذہب سے دوری ایک فیشن بن چکا ہے نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے
اور زکوۃ کی ادائیگی کر نے والوں کو بدوی سمجھا جاتا ہے اور ان کی ادائیگی
کرنے والے بھی گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں۔ہم یہی سوچتے ہوئے اعمال سے دوری
اختیار کرتے جارہے ہیں کہ محض ہم اکیلے ہی تو اس کو رد نہیں کررہے اس جرم
میں تو پورا معاشرہ ہمارا ہم قدم ہے۔ایسا گناہ جو سارا معاشرہ کر رہا ہو
اسے کوئی بھی آسانی سے کرلیتا ہے کوئی جھجک محسوس ہی نہیں کرتا۔المیہ یہ ہے
کہ گناہ کے بعد بھی مطمئن ہے۔شاید ہمیں یوں لگتا ہے کہ مجرموں کی تعداد
زیادہ ہونے کی بنا پہ ہم جنگ جیت جائیں گے۔یہی عقیدہ تو ہمیں حق و باطل میں
امتیاز کرنے سے روکتا ہے۔ہم جس کو حق سمجھتے ہیں ہمارا ماننا ہے کہ حق فقط
وہی ہے اسکے علاوہ سارے عقائد باطل ہیں۔یہی سیاہ عینک ہمیں اپنے آپ پہ گہری
نظر ڈالنے اور اپنا احتساب کرنے سے روکتی ہے۔ ہزاروں لوگ بھی حق کی پہنچان
کرائے لیکن ہم تب تک اسکو نہیں پہچان سکتے جب تک ہم خود اپنا احتساب نہیں
کر لیتے۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم سنتے ہیں دیکھتے ہیں مگر غوروفکر نہیں
کرتے۔اپنااحتساب کرنا تو ہمیں گوارا ہی نہیں ۔ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں
کہ ہم غلط بھی ہوسکتے ہیں۔زندگی میں اگر کسی راہ کا انتخاب کرنا پڑے تو
کوالٹی کی بجائے تعداد (quantity) کو دیکھ جس راہ پہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ
ہو اسی کو حق سمجھ کر زندگی کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ہم منفرد ہونے سے ڈرتے
ہیں کیونکہ ہم سٹیٹس،شہرت اور پیسہ کو ہی ہر چیز پہ ترجیح دیتے ہیں۔یہی
چیزیں ہی تو ہمیں گناہ کرنے پہ اْ کساتی ہیں۔ ان کے چھن جانے کے ڈر سے ہی
تو حق سن کر دیکھ کر بھی ہم اندھے ، بہرے اور گونگے بن چکے ہیں۔’’لوگ کیا
کہے گے ‘‘ یہ فقرہ ہمیں حق کے میدان میں آنے نہیں دیتا۔وہ خالق جس نے اپنی
بندگی کے لیے ہمیں بنایا آج ہم اس کے علاوہ سب کی بندگی کرتا ہے۔ہمارے
عقائد باطل اجتماعی ہوچکے ہیں ہمارے گناہ بھی اجتماعی ہوچکے ہیں۔ہمارے دو
چار نیک اعمال بھی اجتماعی ہوچکے ہیں۔جو لوگ کرتے ہیں ہم وہی کرتے جارہے
ہیں۔نہ عقائد کی پڑتال کرتے ہیں نہ اعمال کا احتساب اور نہ ہی نافع علم کی
تلاش کرتے ہیں۔معاشرے میں کوئی ایسا فرد ہی نہیں رہا جس کا علم و عمل ہمیں
اپنا احتساب کرنے پہ مجبور کرے اور حق کی ترغیب دلائے۔ سبھی ایک ہی سمت
گمراہی کے عمیق کنویں کے دھانے پہ کھڑے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ بینائی کی
قدر نہ کرنے کی وجہ سے حق کو دیکھنے والی بینائی بھی چھن گئی ہے۔مکرمین
!آئیں اپنی آنکھوں کو بند کرکے ایک گہری سانس لیں اور خود کا احتساب
کریں۔آیا کہ ہم باطل عقائد پہ تو قائم نہیں۔کہیں ہمارے گناہ بھی اجتماعی
گناہ تو نہیں۔ہم بھی معاشرے کو نمونہ بناتے ہوئے گناہ تو نہیں کرتے
جارہے۔منفرد بنئے۔منفرد اعمال کرئے۔موٹیویشنل سپیکر نہیں بلکہ بذات خود مو
ٹیویشن بنئے۔شرعی احکام کی یاد دہانی ضروری نہیں کیونکہ علم کا دریا ہے محض
احتساب کی ،سچے عقیدے کی اور اعمال کی طرف راغب ہونے کی ضرورت ہے۔سارے
حقائق واضح ہوجائیں گے۔ایک بار اپنی زندگی پہ تنقیدی نگاہ تو ڈالیے۔خدارا
!!!! غوروفکر کیجئے خدارا!!!! غوروفکر کیجئے خدارا!!!! غوروفکر کیجئے تو
سہی۔۔بے شک ہماری مقدس کتاب ہمیں بارہا غوروفکر کا درس دیتی ہے- |