پاکستان میں بہت سی لاگت کے منصوبے شروع ہوئے اور
ختم ہوئے۔ اسی طرح پاکستان کاشہرلاہور، جو کہ دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس میں ایک
منصوبہ نمایاں طور پر پڑوان چڑھتے اور اپنی تکمیل کو پہنچتے ہوئے نظر آتا
ہے۔ جس کو ہر کوئی جانتا ہے۔ بلکہ نام لیے بغیر ہی آپ کو سمجھ آگئی ہو گی۔
لیکن نام بھی لینا ضروری ہے۔ اورنج لاین ٹرین لاہور کا مشہور ترین موضوع جو
ہر جگہ زیرِ بحث ہے جو بلاواسطہ اور بلواسطہ حق میں بھی ہے اور مخالف بھی۔
لاہوری عوام کو سستی سفری سہولت مہیا کرنے کے لیے پنجاب کا میگا پراجیکٹ ہے۔
اس کو ستایئس ماہ کی مدت میں مکمل کتنے کا عزم لیا گیا ہے۔ اس کو چار حصوں
میں تقسیم کیا گیا ہیں۔
:1ڈیرہ گجرا سے چوبرجی جو کہ 86%مکمل کر لیا گیا ہے۔
:2 چوبرجی سے علی ٹاون جو کہ 80%مکمل کر لیا گیا ہے۔
:3ڈپوکی تعمیر جو کہ 87%مکمل کر لیا گیا ہے۔
:4سٹیبلنگ یارڈ جو کہ90% مکمل کر لیاگیا ہے۔
کل 26 اسٹیشن ہیں جس میں24 بالائی زمین اور 2 اندرونی زمین پر ہیں۔ روزانہ
250,000 مسافر سفر کرے گے۔ جس میں 30,000 مسافر پر گھنٹہ اور 1,000 مسافر
ایک ٹرین میں سفر کرے گے۔ سواری کا کل وقت 45منٹ ہو گا جب کہ رفتار ذیادہ
سے ذیادہ 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ حکومت کو بہت سی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے نئے آرڈرز آئے لیکن اس کے باوجود بھی
حکومت ثابت قدم رہی کہ یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے۔ 26 اسٹیشن ہیں جو کہ تاریخی
مقامات کے قریب بنائے گئے ہیں۔ روزانہ یہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے کینکہ اس پر
24 گھنٹے کام ہو رہے ہیں۔
حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ یہ ٹا سک مکمل کر لیا جائے۔ مئی کے آخری ہفتے
میں کسی نہ کسی طرح ٹیسٹ سیریز شروع کی جائے تاکہ الیکشن میں یہ نعرے لگائے
جائے کہ اپنے دور میں اور جاتے ہوئے بھی عوام کے لیے سہولت مہیا کی۔ عوام
کے لیے جدید سہولت نکال دی ہے۔
اورنج لاین ٹرین کے سٹیشنز کو لاہور کی تاریخی مقامات سے تشبیہ دیا جا رہا
ہے۔ انار کلی اسٹیشن کو مغل سٹرکچر دیا جا رہا ہے۔ انار کلی لاہور کا خاصی
اہمیت والا حصہ ہے۔ تاریخی تعمیر کی طرف نظرثانی کے لیے یہ قدم لیا گیا ہے۔
کچھ مقامات کی تعمیر اپریل میں ہی مکمل ہو گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے
فیصلے میں حکومتِ پنجاب کو حکم دیا تھا کہ وہ لاہور میٹرو ٹرین منصوبے کو
جاری رکھے اور اس منصوبے کو اپنے مقررہ وقت پر تکمیل تک پہنچائے۔
گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب حکومت کو اورنج لائن کا
ٹریک 11 تاریخی مقامات سے 200 فٹ دور رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ
قومی ورثے یا تاریخی عمارتوں کے قریب تعمیراتی منصوبہ نہیں بنایا جاسکتا۔
اسی وجہ سے اس کی تعمیر تاخیر کا شکار ہوئی۔ کچھ تعمیر عدالت کے آرڈرز جاری
ہونے کے بعد شروع ہوئی۔ آگست میں سماعت مکمل ہوئی اور تعمیراتی کام جاری
ہوئے۔ کام بہت زیادہ ہے اور ضلع پنجاب پوری طرح اس میں شامل ہیں۔ یہ عوامی
فلاح و بہبود کا منصوبہ ہے۔
پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر لاہورہے۔ تقریبا 10 ملین باشندوں کی آبادی
ہے. اوسط، شہر کے دوروں کی نقل و حمل کے مطالبے کے لئے 6.8 ملین روزانہ شخص
سفر اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لئے
سفر کرتے ہیں جس میں پیدل چلنے والی سفر نہیں ہوتی۔
اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے کئی ٹرانسمیشن مطالعہ کئے گئے، سال 2005
میں لوگوں کی سفر کی طلب تقریبا 7 ملین تھی۔ جس میں 2021 سال کی طرف سے 11
ملین اضافہ ہو گا. پہلے سے ہی گزشتہ پچاس سالوں سے لاہور میں تجربہ کیا ہے
کہ آ بادی اور گاڑی کی ملکیت دونوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہیں۔اورنج
لائن ٹرین کے عوام کو بہت سے فائدے اور نقصان ہیں۔ عوام ایک جگہ سے دوسری
جگہ باحفاظت نقل وحمل کر سکتے ہیں۔ ٹرین پوری ایئرکنڈیشن ہوگی۔ عوام کو
بروقت منزل پر پہنچایا جائے گا۔ ٹرین میں تمام تر جدید چیزوں کا استعمال
کیا گیا ہیں۔ عوام کو کم کرائے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ کم قیمت اور کم
وقت میں مسافر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا موثر ذرائع ہے۔ بس
اور دوسری موٹرز کے مقابل ایک ٹرین کو کم دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ اس کو
چلانے کے لیے ایک خاص ہائی وے پر پٹریوں کو تعمیر کیا ہیں۔ دوسری جانب اس
کے نقصانات کچھ یوں ہیں۔ اس کے فکسڈ راستے اوراسٹیشن ہیں۔ پٹریاں بنانے کے
لیے زیر زمین سرنگیں بنائی گئی جو کہ بہت لاگت کا کام ہے۔
اورنج لائن ٹرین کے قابل از تعمیر اور مکمل تعمیر ہونے تک آلودگی کا عنصر
نمایاں واضح ہیں۔ جس میں لوگوں کو بہت سی مشکلات پیش آئی۔ آلودگی کی وجہ سے
عوام میں سانس اور جلد کے امراض پیدا ہوئے۔لوگوں نے حفاظتی تدابیر کیں۔
ہمیں آلودگی کا حصہ بننے کی بجائے مسائل کے حل کا حصہ بننا چاہیے۔ آلودگی
کو ختم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ وہ صرف درخت ہے۔ ماحول کو خوبصورت بنانے
کے لیے پودے لگانا ضروری ہے۔
27کلومیٹر کی اس میٹرو پر فی کلومیٹر چھ ارب روپے کا خرچہ آیا ہے جو روئے
ارض پر اس قسم کے ٹریک پر سب سے زیادہ ہے۔حکومت کا فرمانا ہے کہ یہ دنیا
میں اپنی نوعیت کا سب سے کم خرچ منصوبہ ہے۔ اتنے پیسوں میں پنجاب میں دس
ہزار سکول بن سکتے تھے اتنی رقم میں شوکت خانم جیسے تیس، پینتیس ہسپتال بن
سکتے ہیں یعنی پنجاب کے ہر ضلع میں ایک شاندار اور جدید سہولتوں سے آراستہ
پندرہ سو بیڈز کا ہسپتال بن سکتا تھا۔ اس قسم کے بے شمار دیگر حساب اور
موازنے کیے جا سکتے ہیں کہ ان 165 ارب روپوں میں کیا کیا بن سکتا تھا جو اس
ٹرین سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری تھا۔یہ عمل حکومت کا سب سے بڑا فیلیئر
عمل ہے۔
سب سے بڑی ضرورت صحت، تعلیم اور پانی ہیں۔ بین ا لاقوامی سطح پر بھی لاہور
کا نام اس لسٹ میں شامل ہو چکا ہے جہاں پر زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد
تک کم ہو رہا ہے اور زہریلا ہو چکا ہے۔ اربعوں روپے کی لاگت ایک ٹرین پر
لگانے سے کیا حاصل ہو گا۔ جس پر صرف چند ہزار لوگ سفر کر سکتے ہیں۔ پانی کی
ضرورت پر تو کوئی توجہ نہیں دے رہا جو کہ ہر جاندار کی صرورت ہے۔سرکاری
ہسپتال اور کواٹرز سب خستہ حالی کا شکار ہیں۔ان کی زرہ برابر بھی درستی
نہیں کی جا رہی۔ایک ٹرین بنانے کی بجائے انسانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا
کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہے۔اپنے سیاسی مقصد کے لیے عوام کے پیسوں کو بے
دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا اگر
کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اس کو ن لیگ کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک غریب اور محنت کش عوام کا پیسہ ایسے خرچ
ہوتا رہے گا۔ کب تک یہ شوگر مافیاں، دودھ مافیاں اور مرغی مافیاں ہمارے ملک
میں چھایا رہے گا۔ بہت بڑا خطرہ ہے کہ جس طرح کراچی میں پانی مافیاں ہے
لاہور میں بھی داخل ہوجائے ۔ اس میں حکومت اور پانی مافیاں برابر شامل ہو
گی۔ میرے نزدیک آنے والے وقت میں صرف انڈیا اور پاکستان کی پانی پر جنگ
نہیں ہو گی بلکہ عوام کی حکمرانوں سے خانہ جنگی ہوگی۔یہ عمل قومی سطح میں
تجارت کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ ایسی سوچ والے حکمرانوں کی سزا اڈیالہ جیل
نہیں ہے بلکہ سرِعام تختہ دار ہے۔ان جیسوں حکمرانوں کا نقطہ نظر صرف ان کا
پیٹ اور سیاست ہیں لیکن بہانہ عوام کا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سیا
ست بد سے بد تر ہوئی جاتی ہے۔ اورنج لائن اور میٹروبس عوام کے مسائل کا حل
نہیں ہے۔ یہ پراجیکٹ صرف حکمرانوں اوربڑے لوگوں کی جیبیں گرم کرنے کا
خوبصورت طریقہ ہیں۔ عوام کو سڑکوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ اس کا فائدہ صرف
سڑکوں پر نکلی عوام کا ہے۔ سونے پر سوہاگہ اورنج لائن ٹرین کے علاوہ ایک
اور ٹرین پراجیکٹ کا شور سننے میں آرہا ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک
حکمران ، عوام کا پیسہ اپنی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے گے۔
کیا حکومت اس کو اپنے دورِ حکومت کے اندر مکمل کر پائے گی۔ کیونکہ 8 جون کو
یہ اس حکومت کا دور ختم ہونے والا ہے۔ نئی حکومت آئے گی ۔الیکشن ہونگے۔ یہ
ٹرین کا ہی ٹیسٹ نہیں بلکہ حکومت کا اپنا بھی ٹیسٹ ہے۔ایک ملک خوشحال ہونے
کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکمران کی طرف سے لوگوں کی ضروریات کو سمجھا جائے
۔صرف تفہیم کافی نہیں ہے۔یہ ضروری ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے
بہترین ممکنہ حل تلاش کیے جائیں۔یہ پراجیکٹ حکومتی ایوانوں اور عوام میں
بھی زیر بحث رہتا ہے۔ بہت سا کام مکمل ہونے کے باوجود بہت سا کام باقی رہتا
ہے۔اس پر بہت لاگت بھی لگی ہیں۔ جہاں یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے وہاں بہت بڑی
قیمت بھی ہیں۔ یہ پیسہ اس قرض سے آتی ہے جو ہم دوسرے ممالک سے لیتے ہیں۔ یہ
پیسے عوام کی محنت کی کمائی سے آتے ہیں۔ اس کو بروقت پورا کر لیا جائے تاکہ
جو حکومت دعوے کرتی ہیں ۔ ان پر پورا اتر سکے اور سفر کی سہولیات عام عوام
تک پہنچ سکیں۔ |