ہم دائروں میں رہنے والے لوگ ہیں، ہم ہر وقت اپنے گردمذہب
، مسلک، علاقے، قوم ، زبان،رنگ اور صوبے کا دائرہ کھینچے رکھتے ہیں، ہمارے
اپنے یہ کھینچے ہوئے دائرے حقیقی دنیا سے کوسوں دور ہوتے ہیں، ہم نے خود سے
ہر چیز کی ایک خود ساختہ تعریف کر رکھی ہوتی ہے اور اسی تعریف کے دائرے کے
اندر ہم گھومتے رہتے ہیں، کبھی کبھی ہمارا اپنا ہی کھینچا ہوا فرضی دائرہ
اتنا موٹا اور ضخیم ہوجاتا ہے کہ ہم اس دائرے کو ہی سب کچھ تصور کر لیتے
ہیں۔ہمیں سو فی صد یقین ہوتا ہے کہ ہم بغیر مطالعے اور تحقیق کے جوکچھ
سمجھتے ہیں وہ صحیح ہے اور جو انجام دیتے ہیں وہ واجب ہے۔
اس خود ساختہ دائرہ سازی کے عمل کی وجہ سے ہمارے اندر کی دنیا میں تاریکی
اور باہر کی دنیا میں گھٹن ہے، ضرورت اس مرکی ہے کہ ہم اپنے کھینچے ہوئے
دائروں پر پاوں رکھیں، خواہ مخواہ کی تاریکی سے باہر نکلیں اوربات چیت و
مکالمے کی فضا کو فروغ دیں۔ جب ہم اپنے ہی کھینچے ہوئے دائرے سے شعوری طور
پر باہر نہیں نکلتے تو پھر لال مسجد اسلام آباد اور سانحہ مسجد راجہ بازا
رراولپنڈی جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔
لال مسجد اور راجہ بازار راولپنڈی مسجد کے کرداروں کو دیکھیے تو تعجب ہوتا
ہے کہ لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دے کر ابھارنے والے یا تو برقعہ پہن کر
فرار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یا پھر اپنے ہی فرقے کے لوگوں کو خود سے
قتل کرتے ہیں۔
یہ ہے اندھی دشمنی، بغض، حسد اور بغاوت کا دائرہ۔ جب تک ہم ان دائروں کے
اندر محدود رہیں گے ، ہم مسائل حل کرنے کے بجائے بڑھاتے رہیں گے۔
اہلیان ِپارہ چنار اور ہزارہ کمیونٹی کا یہ امر خوش آئند ہے کہ انہوں نے
قبائلی و مسلکی دائرے میں بند ہوکر ہتھیار اٹھانے کے بجائے قومی دھارے میں
شامل ہونے کو ترجیح دی اور قومی اداروں کے ساتھ مکالمے اور گفتگو کو وجود
بخشا۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگر ہم چھوٹے چھوٹے دائروں سے نکل کر قومی دھارے
میں نہیں آئیں گے تو ملک و قوم کے دشمن ہمیں پاکستان اور پاک فوج کے خلاف
استعمال کرتے رہیں گے۔ قومی دھارے میں شامل ہوتے ہی انسان جو سب سے پہلی
چیز سیکھتا ہے وہ رواداری اورمدمقابل کا احترام ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں ابھی تک ایک اقلیت ایسی موجودہے جو
قومی دھارے، رواداری اور مدمقابل کے احترام سے غافل ہے۔ گزشتہ شب جب ہزارہ
کمیونٹی قومی اداروں کے ساتھ مکالمے میں مصروف تھی اور امت مسلمہ شبِ برات
کی عبادات و مناجات میں مشغول تھی اور ملک و قوم کی سلامتی کے لئے دعائیں
کر رہی تھی ، اس وقت بھی ایک اقلیت لٹھ لے کر لوگوں کے پیچھے پڑی ہوئی تھی
کہ خبردار شبِ برات منانا کفر اور بدعت ہے۔
تعجب ہے کہ عید میلاد النبی ﷺ ہو، یا شب برات یا چودہ اگست یہ لٹھ برادار
لوگوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں حالانکہ اسلام ہمیں رواداری کا درس دیتا ہے۔ رواداری
یہ ہے کہ دوسرے مذاہب و مسالک اور مکاتب کو ان کے افکار و عقائد کے مطابق
نہ صرف یہ کہ جینے کا حق اور آزادی دی جائے بلکہ ان سے اظہار یکجہتی کر کے
انہیں خوش بھی کیا جائے۔
غیرمسلم دنیا باہمی رواداری میں ہم سے کس قدر آگے ہے اس کا اندازہ اس سے
لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں بعض غیرمسلم اکابرین، مسلمانوں سے
اظہار یکجہتی کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں۔
متشدد رویوں، گالیوں، کفروشرک کے فتووں سے کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا اور
کسی کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ہم جس ملک اور ماحول میں جی رہے ہیں اس میں
اصلاح کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم رواداری اور حسنِ تعامل سیکھیں۔
آج ہزارہ برادری کو پوری پاکستانی قوم کے درمیان جو شرف، عزت اور وقار
حاصل ہے اس میں ان کی روداری اور برداشت کا بہت عمل دخل ہے۔ حکومت پاکستان
کے اعلیٰ عمائدین کا کوئٹہ جانا اور ہزاراہ کمیونٹی سے اظہار محبت کرنا در
اصل ہزارہ برادری کے صبر، حوصلے اور حسنِ اخلاق کا ہی صلہ ہے۔
آج ہم سب کے لئے ہزارہ نمونہ عمل ہیں، ہمیں ان سے مظلوم رہ کر فاتح بننا
سیکھنا چاہیے، آج تاریخ میں ہزارہ برادری نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا
ہے کہ تلوارکو کردار سے اور گولی کو اخلاق سے شکست دی جا سکتی ہے۔
آج پوری پاکستانی قوم ہزارہ برادری کے صبر و استقلال کو سلام پیش کرتی ہے
اور ان سے اظہار یکجہتی کرتی ہے چونکہ مسئلہ ہزارہ اور غیر ہزارہ کا نہیں
مسئلہ اخلاقی اقدار، انسانیت، شرافت ، پاکستان کی سالمیت اور رواداری کا
ہے۔ |