یہ خواب ہے کسی اور کا !

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس کی بد ترین آمریت ہے جو ہو رہا ہے جوڈیشل مارشل لاء سے کم نہیں ہے اگر خود بات کرتے ہیں تو سننے کی بھی ہمت کریں فوجی آمریت میں بھی اتنی پابندیاں نہیں لگتیں جتنی لگ رہی ہیں انھوں نے مزید کہا کہ اس پارلیمینٹ میں دم خم نہیں اگلی تگڑی پارلیمینٹ آئی تو سب ٹھیک کر دیں گے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ پہلی بار سپہ سالار خود جمہوریت کی پشت پناہی کر رہے ہیں جناب چیف جسٹس کی سمت درست ہے کیونکہ وہ عام آدمی کے مسائل سن رہے ہیں ۔ایک طرف جناب چیف جسٹس نے اندرون خانہ کرپٹ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف سینیٹ انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور ضمیر فروشیوں کا واویلا جاری ہے ۔یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارا ہر انتخابی مرحلہ شفافیت کے ضمن میں سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔اب کے پھر نا کامی کا سامنا کرنے والوں نے سینٹ انتخابات کو دھاندلی کا نام دیکر سینیٹ انتخابات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن چکاہے کہ’’ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو ‘‘کے مصداق جہاں اپنی جیت اور اپنا میت نظر آئے وہ کام اچھا اورشفاف ہے اور جہاں ناکامی کا اندیشہ ہو یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہا ں گریبان چاک ہے اور زبان بیباک ہے ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بسا اوقات خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا ہے جبکہ شفاف انتخابات ہی ملکی و قومی ترقی کے ضامن ہیں ۔ شاید اسی کے پیش نظر تحریک انصاف نے اپنے 20 ارکان اسمبلی ’’اڑا ‘‘ دئیے ہیں ۔جن میں 5 خواتین بھی شامل ہیں ۔خان صاحب کا یہ اقدا م قا بل ستائش ٹھہرا ہے اور ملکی ، سیاسی ،سماجی اور عوامی سطح پر بے حد پسند کیا گیا ہے ۔

اقدام تو احسن ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اخلاقی بندش کیا صرف کارکنان تک ہی محدود ہے یا کپتان بھی اس میں شامل ہے کیونکہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اکثریتی سیاستدان موقع پرست ،مفاد پرست اور پرانے پاپی ہیں ایسے میں کپتان کیسے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ شفاف نظام کی بنیاد رکھیں گے اور وہ بھی آصف علی زرداری سے مبینہ طور پرہاتھ ملا کر جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ ن لیگ کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے تو جان بچانے کے لیے سبھی محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں ۔یہ پہلی بار نہیں ہوا ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ جو جماعت ابھرتی نظر آتی ہے دوراندیش سیاستدان اسے ترجیح دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ پارٹی بدل سیاسی شعبدہ باز ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ جن کا ایک ہی ایجنڈا ہے ’’مک مکاؤ اورجہاں سے ملے وہاں سے کھاؤ‘‘۔بدقسمتی سے ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور نہ ہی عوام سوچتے ہیں کہ کل تک یہ جس کے گیت گا رہے تھے اور جن کی ایما پر زمین پر اکڑ کر چل رہے تھے انہیں آج گالیاں کیوں دے رہے ہیں ؟

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ منفعت پروری پر مبنی رویہ جماعت اسلامی کا ہے کہ ن لیگ اور اس کے وزرا پر تمام الزامات ثابت ہو رہے ہیں مگر جماعت اسلامی نے ن لیگ کا ساتھ دیا جوکہ ان کے ایجنڈے اور اسلامی فنڈے پر سوال چھوڑ گیا ہے اور ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے نزدیک اسلامی بیانات اور روایات بھی مفادات کے زیر اثر ہیں کہ : ’’جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی ‘‘۔ ان شعبدہ بازیوں پر عوام کی خاموشی پر حیران مت ہوں کہ مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، گیس کی عدم فراہمی ، امن و امان کا فقدان ، گڑ ملا پانی ، ناقص خوراک ، ہسپتالوں کی حالت زار اور ڈاکٹروں کی عدم توجہ نے عوام کو ڈپریشن اور عدم برداشت کا مریض بنا دیا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ بچوں سے زیادتی اورقابل اعتراض ویڈیوزکے انکشافات نے پورے پاکستان کو رُلا کر رکھ دیا ہے ۔پنجاب میں بچوں سے جنسی زیادتی کے اس قدر وسیع پیمانے پر انکشافات ہو رہے ہیں کہ عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ گذشتہ پانچ برس سے حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے یہ سب چل رہا تھا تو اس میں ملوث کون ہے؟ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور جن ملزمان کو پکڑا گیا اور فائلیں بند کی گئیں اگر وہ اس گھناؤنے کام میں ملوث نہیں تھے یا ان کے پکڑے جانے کے بعد بھی یہ گھناؤنی وارداتیں جاری رہیں تو یہ سب کس کی ایما پر کیا گیا ؟ ہمارے پھولوں کو نوچنے والوں کو اتنی آزادی کس نے دی کہ وہ آزادانہ ہماری عزتوں اور جگر کے ٹکڑوں سے کھیلتے رہے ؟

آج عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ باغبان خواب غفلت میں ڈوبے رہے اور گلشن اجڑتا چلا گیا ۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ پامال ہو گیا تشہیری منصوبوں کے راگ آلاپتے رہے ،ایک ہی منصوبے کا چار چار دفعہ افتتاح کرتے رہے کہ مدہوشی کا عالم یہ رہا کہ قریب المرگ کو گورنر بنا دیا گیا کہ وہ کسی وقت میں وفادار تھا اور نا اہلوں کوعہدے اور وزارتیں بانٹ دیں تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ ہم کام کر رہے ہیں مگر اﷲ سب دیکھ رہا تھا ۔جب عزت اور جان غیر محفوظ ہوجائے تو پھر عزاب آتا ہے ۔۔یقینا جو کچھ ہو رہا ہے یہ عذاب الہی کی ہی شکل ہے ۔میں نے چند ماہ پہلے لکھا تھا جوکہ صلاح الدین ایوبی کا ایک پکا قول تھا اور نوشتہ دیوار ہے : ’’حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے ۔‘‘ آپ دیکھ لیں کہ آج ثابت ہو چکا ہے! بین الاقوامی میڈیا ہمارے حکمرانوں کا نام کرپشن میں ملوث پائے گئے حکمرانوں کی فہرست میں لکھ رہا ہے ۔ ویسے یہ کس قدر ذلت کی بات ہے ۔۔میاں صاحب ہر تقریر میں کہتے رہے کہ مجھے اس لیے نکالا کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اور جب عدالت میں ثابت ہوگیا کہ تنخواہ وصول کی گئی ہے تو صحافی نے سوال کیا تو کہا’’تنخواہ کی بات چھوڑیں کہ بیٹے سے تنخواہ لینا جرم نہیں ہے ‘‘ ایسے ہی مریم بی بی نے سفید جھوٹ بولا تاکہ کرپشن کے پیسے سے بنائی گئی خاندانی جائیدادوں کا تحفظ کر سکیں مگر پکڑ ا گیا تو پشیمانی کا اظہار کرنے کی بجائے عمران خان کونازیبا الفاظ سے للکارا:جس پر عوام ششدررہ گئے کیا اچھا باپ ایسا ہوتا ہے کہ عوام کا پیسے پر اپنے بچوں کو عیش کروائے ؟ایسا ہی کچھ ن لیگی وزرا اور دیگر لیگی خیر خواہوں کا حال ہے کہ مل بانٹ کر کھاتے رہے اور اب مدد کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ۔شنید ہے کہ بیرونی آقاؤں سے بھی مدد طلب کی جا رہی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے سعودیوں کا والہانہ پن نظر نہیں آرہا اور اب قطری بھی عاجز لگتے ہیں چونکہ سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے کہ تمام الزامات یک بعد دیگرے ثابت ہو تے جا رہے ہیں بریں وجہ جیسے جیسے دستاروں کے بلوں میں چھپے پاپ سامنے آ رہے ہیں لیگی قیادت ،درباریوں اور خوشامدیوں کی زبانیں بھی دراز ہوتی جا رہی ہیں یہی وجہ ہے ان کی تقاریر پر پابندی لگانے کا پرزور مطالبہ کیا گیا تاکہ مزید جگ ہنسائی سے بچا جا سکے ۔عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف گھٹیا بیانات اور الزام تراشیاں ن لیگ کا تکیہ کلام بن چکا ہے مگر عوام اتنے بھی سادہ نہیں ہیں ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ شیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیدڑ کیا سوچتا ہے اور جناب چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جناب قمر باجوہ نے اس قول کو سچ ثابت کر دیا ہے وہ اندرون خانہ کرپٹ عناصر کے خلاف اور آرمی چیف دہشت گردوں کے خلاف محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور قانون اور انصاف کے ساتھی ہیں ۔خوشامدی اور درباری گیدڑوں کی طرح ان کے کردار و اعمال کو مشکوک کرنے میں مصروف ہیں مگر سلام ہے ان وطن کے بیٹوں اور جانثاروں پر کہ جو اپنے اپنے محاذوں اور اپنی ہمت کے مطابق وطن عزیزکی بہتری کے لیے دن رات کوشاں ہیں ۔اقبال نے انہی کے لیے تو کہا تھا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

پنجاب کرپشن کی کہانیاں تو پہلے بھی عام تھیں اور منصوبوں کی آڑ میں کی جانے والی کرپشن کا تذکرہ با ہمت قلمکار اور تجزیہ نگار کرتے ہی رہتے تھے مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اور کچھ اوپر سے لیکر نیچے تک اپنے من پسند افسران اور عہدے داران کی بھرتیوں نے مکمل طور پر تلخ حقائق کو قصے اور کہانیاں ڈکلئیر کر دیا تھا اور کچھ درباریوں کے لکھے جانے والے قصیدے بھی سچ پر پردے ڈال دیتے تھے مگر اب غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کو پنجاب میں تفویض کردہ منصوبوں کے ٹھیکوں اور معاہدات میں کرپشن کی خوشبو آرہی ہے جو کہ رفتہ رفتہ شواہد اکٹھے ہو رہے ہیں جوکہ کسی بڑی پکڑ دھکڑ اور ریکوری کا پیش خیمہ نظر آرہی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ کل تلک سچ لکھنے اور سچ کہنے والوں کو ’’بغضِ نواز شریف ‘‘ کا طعنہ دینے والے بھی لیگی کرپشن زدہ پالیسیوں ،دشنام تراشیوں اور ملک مخالف ایجنڈوں سے تنگ آکر سبھی باری باری ن لیگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بلوچستان سے ن لیگ کا صفایا ہو چکا ہے اور باقی صوبوں میں بھی ہو کا عالم ہے۔ ہر دن ایک رہنما ن لیگ کو خیر آباد کہہ دیتا ہے ۔ سینیٹ انتخابات میں تو ن لیگ بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور آنے والے وقت کے لیے اگر یہ لکھ دیں توشاید غلط نہ ہوگاکہ وزارت عظمیٰ، صوبوں کی وزارتیں اور عہدے یہ سب خواب ہے کسی اور کا انھیں سوچتا کوئی اور ہے۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.