پاکستان میں ہونے والی جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی
تنظیم (سارک) کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت سرگرم ہوگیا ہے اور
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے نیپالی وزیراعظم سے نئی دہلی میں ہونے
والی ملاقات میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اس سال سارک سربراہ
اجلاس کے اسلام آباد میں انعقاد کو خارج از امکان قرار دے دیا۔ مودی نے
نیپالی وزیراعظم کے پی شرما کو بتایا کہ موجودہ صورت حال میں اسلام آباد
میں سارک کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں ہے اور بھارت اس میں شرکت نہیں کرے
گا۔ مودی نے نیپال پر بھی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے زور دیا۔ مودی
اور نیپالی وزیراعظم کے پی شرما کی ملاقات کے بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ
ویجاج گوکھل نے میڈیا بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ بھارتی وزیراعظم
نے اپنے ہم منصب کو سارک کانفرنس سے متعلق بھارت کے خدشات سے آگاہ کیا ہے
اور پاک بھارت سرحد پر موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں سارک
کانفرنس کے انعقاد کو ناممکن قرار دیا۔اٹھارواں اجلاس 2014میں نیپال کے
دارلحکومت کھمنڈو میں ہوا۔ سارک کانفرنس کا پچھلا اجلاس 2014 ء میں کھٹمنڈو
میں منعقد ہوا تھا، جس کے بعد انگریزی حرف تہجی کے حساب سے اگلی کانفرنس
پاکستان میں 2016 ء میں ہونی تھی، لیکن بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور بنگلا
دیش، افغانستان، نیپال اور بھوٹان کی ملی بھگت کے باعث کانفرنس معطل کرادی
گئی تھی۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور شرارت کے بعد 19ویں سارک کانفرنس منعقد
نہیں ہوسکی تھی اور اس بار بھی بھارت نے اپنے منفی کردار اور مذموم کھیل کا
آغاز کردیا ہے۔ سارک جنوبی ایشیا کے 8 ممالک پر مشتمل اقتصادی اور سیاسی
تنظیم ہے، جس میں بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ،
بھوٹان اور افغانستان شامل ہیں۔سارک کے چارٹر کے تحت اگر کوئی رکن ملک
اجلاس میں شرکت سے معذرت کرتا ہے تو اس صورت میں اجلاس کا انعقاد نہیں ہو
سکتا۔
جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم ’’سارک‘‘ جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی
ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے، جس کے قیام کا مقصد علاقائی تعاون کو مؤثر
اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا اور اس خطے کو ایک غیر سیاسی ادارے کے
دائرہ کار میں لانا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی
تنظیم ہے، جو تقریباً 1 اعشاریہ 47 ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ
تنظیم 8 دسمبر 1985 کو بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ
اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ سارک تنظیم ابتدائی طور پر سات ممالک پر مشتمل
تھی، لیکن 3 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں
افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔ سارک تنظیم
کے اٹھارہ اجلاس ہوچکے ہیں۔ سارک ممالک کا پہلا سربرہ اجلاس 8 دسمبر 1985
کو ڈھاکا میں ہوا، دوسرا 1986 کو بنگلور میں ہوا، تیسرا 1987 کو کھٹمنڈو
میں ہوا، چوتھا 1988 کو اسلام آباد میں ہوا، پانچواں 1990 کو مالی میں ہوا،
چھٹا 1991 کو کولمبو میں ہوا، ساتواں 1993 کو ڈھاکا میں ہوا، آٹھواں 1995
کو نئی دہلی میں ہوا، نواں1997 کو مالی میں ہوا، دسواں 1998 کو کولمبو میں
ہوا، گیارہواں 2002 کو کھٹمنڈو میں ہوا، بارہواں 2004 کو اسلام آباد میں
ہوا، تیرہواں 2005 کو ڈھاکا میں ہوا، چودھواں 2007 کو دہلی میں ہوا،
پندرہواں 2008 میں ہوا، سولہواں سربراہ اجلاس2010 کو بھوٹان کے دارلحکومت
’’تھم پھو‘‘ میں ہوا اور سترہواں اجلاس 2011 میں مالدیپ میں ہوا۔ اٹھارواں
اجلاس 2014میں نیپال کے دارلحکومت کھمنڈو میں ہوا۔ سارک کانفرنس کا پچھلا
اجلاس 2014 ء میں کھٹمنڈو میں منعقد ہوا تھا۔
بھارت ہمیشہ ہی سے سارک کانفرنس کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے۔ سارک
کانفرنس کے پلیٹ فارم کو متاثر کرنے کا بھارت کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ بھارت کم
از کم چار مرتبہ سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کر چکا ہے اور اب پانچویں
بارانکار کر کے اس کانفرس کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ سارک کانفرنس کے پلیٹ
فارم کا بنیادی مقصد خطے کے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانا ہے، مگر بھارت
مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ایک بار پھر کانفرنس کو ناکام
بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث خطے کے پسے ہوئے عوام مزید
پسماندگی کا شکار ہوں گے۔ بھارت کے منفی رویے کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر
کی صورتحال سے ہٹانا ہے۔ بھارتی سرکار کشمیری میں ریاستی دہشتگردی کا
ارتکاب کر رہا ہے۔ بھارت اب تک ایک لاکھ کے قریب بے گناہ کشمیریوں کو شہید
کرچکا ہے اور گزشتہ دنوں بھی ایک ہی دن میں 20بے گناہ کشمیریوں کو شہید اور
2سو سے زاید کو زخمی کردیا تھا۔ اپنے منشور، ایجنڈے اور پروگرام کے ناتے یہ
تنظیم اس خطے کی موثر نمائندہ تنظیم بن سکتی ہے اور تنظیم کے رکن ممالک کے
ساتھ ساتھ علاقے کی بہتری اور اقتصادی ترقی و استحکام کے لیے بھی نمایاں
کردار ادا کر سکتی ہے، مگر بھارت نے علاقے کی تھانیداری کی حرص اور اپنے
توسیع پسندانہ عزائم کے تحت شروع دن سے ہی سارک سربراہ تنظیم کو یرغمال
بنانے اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بدنیتی کا اظہار شروع کر
دیا اور پاکستان اور بھارت کے دیرینہ تنازعہ کشمیر کو سارک سربراہ کانفرنس
کے ایجنڈے کا حصہ نہ بننے دیا۔
بھارت علاقائی تعاون کی اس تنظیم کی افادیت ختم کرنے اور اسے اپنی خواہشات
کا اسیر بنائے رکھنے کے لیے کوشاں ہے، جس کا سارک کے رکن خطے کے دوسرے
ممالک میں ردعمل پیدا ہونا فطری امر تھا۔ بے شک سارک کے دوسرے رکن ممالک
بھارت جتنی آبادی، رقبہ اور وسائل نہیں رکھتے، مگر آزاد اور خودمختار ہونے
کے ناتے انہیں بھارت کے مساوی حیثیت ہی حاصل ہے۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم
کے تحت بھارت پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کی خودمختاری میں بھی
مداخلت کی سازشیں بروئے کار لاتا رہتا ہے۔ بنگلا دیش اور افغانستان تو
بھارت کے اشاروں پر ناچتے ہیں، جبکہ بھارت دیگر ممالک کو بھی اپنے احکامات
پر چلانا چاہتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو اس کی شروع دن سے مخاصمت ہے جس کو
اس نے آج تک ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا اور
آج وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔
سارک کانفرنس کی ناکامی سے بھارت پرکوئی اثر پڑے یا نہ پڑے، مگر یہ پاکستان
کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے، کیونکہ پاکستان میں کامیاب سارک کانفرنس کے
بعد پوری دنیا کے سامنے پرامن پاکستان کی تصویر پیش کرسکتے، مگر بھارت یہ
نہیں چاہتا کہ دنیا کے سامنے پرامن پاکستان کا تاثر جائے، اس لیے وہ سارک
کانفرنس کو ہی سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو یہ
بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ بھارت پاکستان کو تنہا کرتا جارہا ہے، جو کہ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی اور پاکستان کی ناکام خارجہ
پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کمزور ہوتے
جارہے ہیں، جبکہ بھارت کے تعلقات ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط ہوتے جارہے
ہیں۔اس کو پاکستان کی ناکامی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سارک کانفرنس کے
باوجود بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے، جس کی
سب سے بڑی وجہ مودی حکومت کا انتہا پسندانہ رویہ ہے۔ بھارت کو خطے میں بالا
دستی کا خواب چھوڑ کر اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔
|