کسی بھی مہذب معاشرے کا وجود و استحکام کیلئے ضروری ہے
کہ اس میں خیر و صلاح کی صلاحیت موجود رہے ۔جس کسی معاشرے میں شرم و حیاء
اور عزت و آبروکی اہمیت اور اس کی حفاظت مفقود ہوجائے تو سمجھ لیں کہ اس
معاشرے کا زوال مقدر ٹھہر چکاہے۔پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود
میں آیا اور مسلم ممالک میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے میں لبرل و سیکولر
طبقوں کے لوگ شعائر اسلام کا دیدہ دلیری کے ساتھ مذاق اڑاتے ہیں اور ملک کی
انتظامیہ ان کیخلاف حرکت میں نہیں آتی۔نوجوانوں کو بے راہ روی و بے حیائی
کی جانب دھکیلنے والے اسباب و ذرائع میں سے اہم ترین ذریعہ انٹرنیٹ و
موبائل کی بے ہنگم فراہمی اور والدین و اساتذہ کی جانب سے اولاد وشاگردوں
کی عدم تربیت اور اس کے ساتھ مغرب کے افکار و نظریات اور اس کی تہذیب کو
آنکھیں بندکرکے قبول کرنا ہے۔افسوس ہے کہ موجودہ ایام میں ملک کی سیاسی و
سماجی اور طبقاتی جماعتوں اور الیکٹرانک میڈیا کی کوئی بھی سرگرمی بغیر
خواتین کو نیم برہنہ کیے بغیر نہیں کامیاب ہوتی جس کی وجہ سے اس قبیح عمل
کو ملک میں تیزی کے ساتھ فروغ دیا جارہاہے۔گویا کہ معاشرہ اس قدر باغی و
سرکش ہوچکا ہے کہ مذہب و سماج کی مہذب عادات و اطوار کا انحراف ببانگ دہل
کرتے جابجا نظر آرہاہے۔ اس میں بنیادی قصور والدین کی تربیت کی کمی کا ہے
اور اساتذہ کی جانب سے عدم اصلاح کا اہتمام اور اس کے ساتھ ہی حکومت کی
جانب سے قانون اسلام و ملکی کی دھجیاں بکھیرنے والوں کی عدم سرزنش و گرفت
ہے۔اسی طرح کے عمل کا بدترین مظاہرہ اسلام آباد جو کہ اسلام کے ساتھ منسوب
ہے میں بھی کیا جاتاہے کہ چند روز قبل اسلام آباد کے نواحی علاقہ پھلگراں
میں شاہ پور کے مقام پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باہم مل جل کر عیش و عشرت
منا رہے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سخت ترین ایکشن کے سبب وفاقی پولیس
نے کارروائی کرکے 47لڑکے اور لڑکیاں گرفتار کرلیا۔یہ تو ایک واقعہ ہے جس پر
گرفت ہائی کورٹ کے حکم پر کی گئی مگر اس کے علاوہ گیسٹ ہاؤسز،ہوٹلز اور
دیگر محافل و تقریبات میں اسلام اور اخلاقیات کی پامالی کرکے قانون مسلمہ
کا بے ہودہ مذاق اڑایا جاتاہے جو کہ باعث شرم و حیا ہے ۔ اور مادرپدر آزادی
کی تحریک کو ملک پاکستان میں اعلیٰ طبقوں اور مغرب این جی اوز کی سرپرستی و
تشجیع اور مدد حاصل ہے جس کے سبب ان کے خلاف ہرکوئی کارروائی سے گریزاں
رہتاہے۔ جبکہ نظریہ اسلام کا تقاضہ ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو پیش نظر
رکھتے ہوئے مسلم معاشرے اور مسلم ملک کے اندر شعائر اسلام کی حفاظت کو
یقینی بنائیں اور ماں،بہن،بیٹی اور بیوی اور منجملہ خواتین کی عزت و عصمت
کی حفاظت کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں۔اسلامی تعلیمات میں حیاء کو ایمان کا
آدھا حصہ قرار دیا گیا ہے جبکہ نبی آخر الزمانؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ جب
کسی شخص میں سے حیا پروری ختم ہوجائے تو اس کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے
کرگزرے تاہم یوم حساب کے روز اﷲ تعالیٰ اس شخص کو عذاب الیم سے دوچار
کرینگے کہ جس شخص نے دنیامیں اﷲ کا شرم و حیانہیں کیا کہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ
حرام اور قبیح افعال کا مرتکب ہوتارہاہے تو اﷲ تعالیٰ کیونکر اس کو اپنے
سایہ رحمت میں پناہ عطاء کریں تاوقتیکہ وہ صدق دل سے توبہ کرلے۔ الیکٹرانک
میڈیا کی چھان بٹھک کرنے والے ادارہ پیمرا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ ملک میں فحاشی و عریانی کی طرف مائل کرنے والے اشتہارات،نیوزاینکر اور
سیاسی اجتماعات پر پابندی عائد کی جائے اور اسی طرح والدین اساتذہ اور
حکومت اپنی عوام ،بچوں اور شاگردوں کو اسلامی و مشرقی مہذب تہذیب کا
پیروکار بنانے کیلئے کوشش کرنے کے ساتھ مغرب سے آنے والی ثقافت کو مکمل طور
پر چیک کیا جائے جو کچھ خلاف اسلام اور خلاف اخلاق اور خلاف تہذیب مشرق
ہواس کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ سخت سے سخت کارروائی کرے۔ اس
کے ساتھ حکومت و انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پھلگراں اور اس
جیسے متعدد واقعات جو جنسی زیادتی کے واقعات ملک میں بے ہنگمی سے وقوع پذیر
ہورہے ہیں کے سامنے سد سکندری باندھنے کی ضرورت ہے اور سخت سے سخت ایکشن
لینے کی بھی کہ وہ آئندہ کیلئے عبرت کی مثال بن جائیں اور مسلم معاشرے امن
و آشتی عفت و عصمت اور حیاکا عملی پیکر بن جائے اور کم سن بچے اور بچیاں
سکھ وراحت کا سانس لے سکیں۔ جبھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت و برکت ہمارے ملک و ملت
پر نازل ہوگی-
|