امن کی خواہش اور امتیازی سلوک

 گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک کا سب سے بڑااجتماع منعقد ہوا ، جس سے خطاب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ آج غربت، نسلی، مذہبی و قبائلی کشیدگی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل پر توجہ دینے، اور عالمی امن و استحکام کیلئے دیرینہ تنازعات کی وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پائیدار امن کا راستہ مسائل کی جڑکو سمجھنے سے شروع ہوتا ہے، پائیدارامن میں غیر ملکی قبضے، بیرونی مداخلت، سیاسی و معاشی ناانصافی حائل ہیں۔ عالمی برادری پائیدارامن کی اہمیت کو سمجھنے کے باوجود مسائل کے حل میں پیشرفت نہیں کر رہی۔ جبکہ بیرونی تسلط اورمداخلت بین الاقوامی تنازعات کاباعث بنتی ہے‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر خطے اور ملک میں پائیدار امن کا قیام ہر شخص کی خواہش ہے ، مگر کہیں سپر پاور کہلانے کی دوڑ ،کہیں اپنے اسلحہ کی فروخت ، کہیں اپنی معیشت کی مضبوطی کے لئے حریف ممالک کے خلاف انتہاء پسندی، تو کہیں اپنے ملک میں امن کی خاطر دوسروں کے امن تباہ کرنے کی سازشوں،امتیازی رویوں، غیر قانونی تسلط، ریاستی ظلم و جبر نے پوری دنیا کا امن تباہ کررکھاہے۔ اس طرح امن کے علمبردار ہی عالمی امن کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے عالمگیر سطح پر قیام امن کے لیے خود کو وقف کررکھا ہے اور وہ اس مقصد کے لیے تعاون کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، لیکن عملی طور اقوام متحدہ اپنے اس منشور پر قائم نہیں، اور امن و تشدد کے نام پر پوری دنیا خاص کر مسلم ممالک میں بھیانک جنگ کی حوصلہ افزائی، اور مسلم ممالک کے احتجاج پر مسلسل خاموشی اختیار کرتی چلی آئی ہے۔ 2001 ء میں دنیا بھر کا امن تباہ کرتے ہوئے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں انسانوں کو امن کے نام پر قتل کیا، عراق میں امن کے نام پر لاکھوں انسان جنگ کی بھینٹ چڑھادیے تو دوسر ی جانب شام، فلسطین، کشمیر، میانمار برما، صومالیہ، پاکستان، ہندوستان میں امن کے نام پر تشدد کو فروغ دینے میں اقوام متحدہ کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی امن کے سب سے بڑے علم بردار امریکا نے نائن الیون کے بعد دھمکیوں اور اقتصادی پابندیوں سے ڈرا کر پاکستان کواتحادی ممالک کے ساتھ جنگ میں شریک کیا، اس جنگ نے پاکستان کے امن کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا، جبکہ دوسری جانب پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں سے ملک کی سا لمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچایا گیا۔حالانکہ پاکستانی فوج کو دہشت گردوں کے خلاف ہر طرح کے آپریشن پر عبور حاصل ہے اور پاکستانی فوج کے پاس جدید ترین ڈرون طیارے موجود ہیں اس کے باوجود پاکستانی علاقوں میں امریکا خود ڈرون حملے کرتارہا جو کہ پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا مظہر اور کسی بھی جمہوری ملک کی سا لمیت کے خلاف، اور عالمی امن کے اصولوں کے منافی ہے۔

مذید ستم یہ کہ پاکستان کو بھارتی جارحیت کا سامنا ہے۔ بھارت خطے میں اپنے تسلط کے خواب دیکھتے ہوئے ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن کی آئے روز خلاف ورزی کرتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ایماء پر پاکستان کے امن کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھارت کی مودی سرکار کے اب تک کے اقدامات اور عزائم خطے میں قیام امن کے حوالے سے نہ صرف غیر حوصلہ بخش بلکہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرات میں اضافے کا باعث بنے ہیں ۔ جبکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز ملک میں مستقل قیام عمل کے لئے پرسر پیکار ہے۔دشمن ممالک کے آلہ کاروں اور ملک کے امن کو نقصان پہنچانے والے سماج دشمن عناصرکے خلاف آپریشن کرکے ان کا قلع قمع کیا جارہا ہے ۔پوری پاکستانی قوم پاکستان میں مستقل قیام امن کیلئے بہادر مسلح افواج کے ساتھ ہے ، اور جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے بہادر سپاہ سالار کی قیادت پر فخر کرتی ہے۔ تمام تر سیاسی جماعتیں اور اعلیٰ سول و فوجی قیادت سرزمین پاکستان سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لئے متحد اور پرعزم ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب پاک فوج کے بہادر جوانوں کی عظیم قربانیوں کی بدولت ملک میں پائیدار امن کا سورج طلوع ہوگا، ملکی معیشت مضبوط ہوگی اور ہر پاکستانی خوشحال ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کے اثرات اب تک موجود ہیں اور پاکستان سرد جنگ کے اثرات سے نکلنا چاہتا ہے ، آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور پاکستان علاقائی تعاون کے فریم ورک میں پیش رفت کے لیے کام جاری رکھے گا، اور پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ہر اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے کیونکہ افغانستان میں قیام امن کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا۔

بلاشبہ دنیا بھر سے دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کا کردار مثالی اور لائق تحسین رہا ہے مگر صد افسوس امریکا اور بھارت نے پاکستان کی امن کوششوں کو سراہنے کی بجائے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔جبکہ اہل پاکستان دنیا کو واضع طور پر بتادینا چاہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے ، اور مسلمان ہر گز دہشت گرد نہیں۔ پاکستانی دہشت گرد نہیں، بلکہ خود دہشت گردی کا شکار ہیں ۔خدارا اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک رواء نہ رکھیں۔ شام میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا میانمار میں بدھ انتہا پسند وں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کا قتل، وہاں عورتوں کی عصمت کو پامال اورمعصوم بچوں کو بے دردی سے ذبح کیا جارہا ہو، یا فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام پر صہیونیوں کے ظلم اور بمباری سے معصوم بچوں اور خواتین، بزرگ مردوں کا قتل عام کا مسئلہ ہو یا کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہورہی ہوں، کشمیری مسلمان عورتوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہوں ، لیکن اس وقت اقوام متحدہ اور عالمی امن کے دعویداروں کی مجرمانہ خاموشی مسلم امہ کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و سلامتی کا قیام ہر ایک کی خواہش ہے مگر یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب قول اور فعل کا تضاد اور منافقت کا خاتمہ ہو، اور کمزور ہو یا طاقتور ہر ملک و قوم کے ہر ایک فرد کے ساتھ انصاف ہو۔ وہ وقت ماضی کا حصہ بن چکا جب طاقت کے بل بوتے پر قوموں کو زیر رکھا جاتاتھا۔موجودہ حالات میں تمام اقوام عالم پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کو با اثر بنایا جائے تاکہ پوری دنیا میں بلا امتیاز انصاف کی بالا دستی قائم ہو اور تمام اقوام عالم کے لئے پائیدار امن کاقیام عمل میں آسکے ۔

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 816652 views Journalist and Columnist.. View More