سلسلہ وار ناول رازی قسط نمبر ٤


یہ ناول آج کے عالمی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ کیسے کیسے حیلوں لالچ بہانوں اور سازشوں سے مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑایا جا رہا ہے اور دجال کے آنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔اس ناول کے تمام کردار اور واقعات تخیلاتی ہیں۔ کسی کردار کی کسی سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔

راجر نے ٹیلی فون ٹیپ کیا اور اپنے باس کے پاس پہنچا دیا۔ اس ٹیلی فون میں ابوصالح ایاز کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اپنے کسی غیر ملکی دوست سے رابطہ کئے ہوئے تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ آپ کی اور میری دوستی سے ہی یہ یہودی سبق سیکھیں گے ۔
جیمیز نے ٹیپ ریکارڈ ر بند کیا اور اس کے ساتھ دئیے گئے پتے پراپنے دو آدمی بھیجئے کہ اس شخص کو زندہ یا مردہ کسی بھی صورت میں یہاں لایا جائے ۔
راجر ایس ون کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار تھا اور اس کا انچارج جیمز تھا جیسے" آئی" کہا جاتا تھا ۔اس نے فوراً یہ ٹیپ ایس ون کو بھیجا اور ساتھ احکامات کی کاپی بھی۔
ایس ون کے پی اے نے اسے شابش دی اور کام کی منظوری دے دی ۔
ابوصالح جانتا تھا کہ اس کا ہر پیغام بلکہ تمام ٹیلی فون سنے جاتے ہیں اس لئے وہ ناگہانی صورتحال کے لئے تیار تھا۔ وہ پبلک بوتھ سے باہر آیا تو اس کو دو آدمیوں نے گھیر لیا۔ اور ہاتھ اوپر کرنے کو کہا۔
ایسے میں کہیں سے دو فائر ہوئے اور وہ دونوں سپاہی وہیں ڈھیر ہو گئے ۔
ابو صالح ایاز پلک جھپکتے ہی روپوش ہو گیا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
آئی جس کے معنی آنکھ ہوتے ہیں ۔ جیسے اندھا ہو گئی جب اُسے ٹرانزسٹر سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اُسے غصہ آرہا تھا۔ اس نے وائرلیس پر پغاام نوٹ کروایا کہ ان دو اہلکاروں کو فلاں ایڈریس پر بھیجا گیا تھا۔ وہ ابھی تک نہیں لوٹے۔ اور اُن کے ٹرانزسٹر بھی خاموش ہیں ۔ موبائل سروس اُن کا پتہ کر کے فوراً رپورٹ کرے۔
ابھی وہ یہ پیغام بھیج ہی رہا تھا کہ موبائل سروس سے کال آگئی ۔ جس میں انہی دو اہلکاروں کی نااہلی پر غصہ آیا اور وہ کف افسوس مل کے رہ گیا۔ اور ناکامی کی رپورٹ ایس ون کو بھیج دی ۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
یامین مرزا نے صبح سویرے نماز سے فارغ ہو کر جب اخبار اُٹھایا تو عین اُس وقت رئیس احمد ناصر کی طرف کا فون آیا۔ جس میں رئیس نے اُسے حضرت صاحب کے ادارے میں کام کرنے کی آفر کی۔ یامین مرزا نے کام کی نوعیت دریافت کی اور فوراً رضامندی کا اظہار کر دیا۔
یامین مرزا اور رئیس احمد ناصر واشنگٹن میں اکٹھے کام کر چکے تھے ۔ رئیس مرزا کو اچھی طرح جانتا تھا۔ دونوں کے ذہن اور دل ایک ہی طرح سوچتے اور دھڑکتے تھے۔ یامین مرزا ایک ماہر
معاشیات تھا ۔ اُس کے بنائے ہوئے منصوبوں سے بہت سے ممالک فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ وہ پاکستان کے وزارت خزانہ کا آفیسر تھا جس دوران اُس نےآئی ایم ایف
میں کنریکٹ پر نوکری اختیار کی ۔
وہاں استحصالی معاشیات کو دیکھ کر وہ بہت گبھرا جاتا اور سوچتا کہ کس طرح آئی ایم ایف
غریب ممالک کو اور غریب کرنے کے در پے ہے۔ وہاں اُس نے اپنا کنریکٹ بھی مکمل نہ کیا اور ورلڈ بنک میں چلا گیا ۔ وہاں بھی اسے اسی صورتحال کا سامنا ہوا ۔ اگر ورلڈ بنک کا کام ری کنسڑکشن اور ڈیلوپ منٹ تھا مگر یہ تو سب دکھاوا تھا ۔ یہ دونوں ادارے امریکا کے دست نگر بھی تھے اور اُس کے اشاروں پر چلنا تو کیا ناچتے تھے۔ اُسے اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ جب تک ان اداروں کا نظام تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک دنیا کا غریب اوپر نہیں آسکتا ۔
IMFاور World Bankبظاہر تو غریبی مٹانے کے منصوبے بناتے مگر حقائق اس کے برعکس ہوتے ۔ دنیا کے بہت سے ممالک بشمول پاکستان ان اداروں کو مجموعی قرضوں سے دوگنا سود واپس کر چکے تھے مگر اُن کے قرضے جوں کے توں قائم دائم تھے ۔
ان اداروں کو امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے آلات کے طور پر استعمال کر رہا تھا ۔ اور جس کو چاہتا جس وقت چاہتا دیوالیہ کروا دیتا۔ قرضے رکوا لیتا اور اقتصادی پابندیاں لگا دیتا۔
ایسے حالات میں یامین مرزا کو یقین ہو گیا کہ ان اداروں میں کام کرنا ایک صاحب ضمیر کا کام نہیں ہو سکتا۔ وہ چاہتا کہ یہ ادارے فلاح کا کام کریں مگر سودی نظام کے ذریعے نہیں بلکہ بارٹر سسٹم کے ذریعے۔ ایک ملک ان اداروں سے قرضہ یا امداد لے تو اتنی ہی رقم واپس کروا دے تاکہ اُس ملک کی معشیت پر بوجھ نہ پڑے ۔ دنیا کا ہر ملک ان اداروں کو چلانے کے لئے اپنی بساط کے مطابق فنڈ دے تاکہ ان کا انتظام وانصرام بھی چلتا رہے ۔
اُس کے ایسے خیالات کی وجہ سے کہ وہ دنیا میں اسلامک اکونومی لانا چاہتا ہے ۔ اسے ورلڈ بنک کی نوکری سے واپس ملک بھیج دیا گیا ۔ یہاں پر بھی اُسے مدت ملازمت سے بہت پہلے ریٹائرڈ کر دیا گیا ۔ یہ ریٹائرمنٹ اُس کے لئے سکون کا سبب بن گئی کہ وہ اس طاغوتی نظام سے نکل آیا ۔ یہ ساری باتیں رئیس جانتا تھا اسی لئے اُس نے یامین مرزا سے رابطہ کر کے اُسے حضرت صاحب کے ادارے میں بلایا اور مالیات کا شعبہ اس کے سپرد کر دیا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
سپر مین نے پاکستان میں ایجنٹ سے رابطہ کیا اور رازی کے متعلق رپورٹ طلب کی۔
پاکستان میں موجود سپر مین کے ایجنٹ جو کہ ایک ملٹی نیشن کمپنی کا کنٹری ڈائریکٹر بھی موجود تھا ، نے سپر مین سے رابطہ کیا۔
جان شرلے ازآن لائن ۔ فار دی فیور آف دی سام ،(دی سام کی خیرخواہی کے لئے) سپر مین کے پی اے کوڈ ورڈ سنتے ہی سپر مین سے رابطہ کروا دیا۔
کہو کیا بات ہے ۔ جان۔
سریہاں پر حالات بہت ہی بگڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔
رازی نے آپ کے تمام منصوبوں کو عیاں کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اور ہمارے مفادات پر کاری ضرب لگنے کا خطرہ ہے ۔
وہاٹ۔
یس سر ۔ وہ بہت ہی منطم طریقے سے یہ کام کرنے کی پلاننگ کر چکے ہیں ۔
مگر تمہیں کیسے معلوم ہوا۔
سر وہ اپنا منصوبہ چھپاتے نہیں بلکہ انہوں نے اس کی تشہیر کی ہے ۔
کیسی تشہیر
وہ اس طرح کہ انہوں نے ہماری تمام پالیسیوں کا جائزہ لیا۔ اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی دراصل ان کی دشمن ہیں ۔ اس پر انہوں نے پہلا وار یہ کیا ہے کہ ہمارے بہت ہی مشہور برانڈ کے مشروب کو اپنے حلقوں میں بند کر دیا ہے ۔ اور ساتھ ہی ہماری دیگر مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔ یہ ایسے اقدام ہیں جن پر حکومت بھی اُنہیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔
اچھا ۔ یہ تو بڑی خطرے کی بات ہے ۔ اگر ہماری کمپنیاں بند ہو گئیں تو ہمارے بہت سے منصوبے ادھورے رہ جائیں گے ۔
واقعی تم نے تو بہت بڑے خطرے سے آگاہ کیا ہے ۔ ہم ابھی اس کا سد باب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اوور اینڈ آل
یہ خبر بجلی بن کر گری اور سپرمین نے ایسی تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈائریکٹر ز کی مٹینگ طلب کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اس خطرے سے پیشگی ہی نمٹا جا سکے۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
ابوصالح ایاز نے کئی بار رئیس احمد ناصر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر نہ ہو سکا ۔ یا تو لائن کٹ جاتی یا پھر اسے کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا ۔ آج پھر اس نے رابطہ کرنے کی کوشش تو کی ۔ رابطہ ہو گیا۔
اسلام علیکم رئیس بھائی ۔
وعلیکم السلام آپ کون؟
میں اسلام کا ادنیٰ خادم
ابو صالح ۔خوش آمدید ۔ خوش آمدید ۔ کہو کیسے حالات چل رہے ہیں۔ بہت دن بیت گئے آپ سے رابطہ نہیں ہوا۔ چلو دیر آید درست آید۔
ہمارا منصوبہ تو بہت کامیاب جا رہا ہے ۔ مگر اس میں ایک کمی ہے ۔
وہ کیا؟ رئیس نے پوچھا۔
یہودی ہراساں ہیں مگر ان سے مذاکرات کرنے والا کوئی نہیں ہماری پرانی قیادت قابل اعتماد نہیں رہی اور نئی قیادت سے یہودی بات نہیں کر رہے۔
ابھی اپنا منصوبہ جاری رکھو ۔ انشااﷲ وہ آپ سے مذاکرات پر تیار ہو جائیں گے ۔ نئے مشن کے بارے میں مشورہ کرنا تھا۔
ہاں تم اپنے طریقے سے مشن کو آگے بڑھاؤ ۔ ہم انشااﷲ دوسرے طریقے سے بہت جلد آپ کے قریب آنے والے ہیں ۔
یہ تو بہت اچھا ہوگا
انشااﷲ اچھا ہی ہو گا۔
تو پھر 11نمبر کو بھیج دیں ۔
ہاں بھیج دیں ۔ اور طریقہ پہلے سے بالکل مختلف ہو ۔
ٹھیک ہے ۔ خدا حافظ
خدا حافظ
رئیس احمد ناصرنے ابوصالح ایاز کے جذبے کی دل ہی دل میں داد دی اور فلسطینوں کے لئے کچھ کر گزرنے کا عہد دہرایا۔ رئیس احمد نے یہ ساری باتیں حضرت صاحب تک پہنچا دیں ۔ انہوں نے فلسطینوں کے حق میں دعا کی اور عرب حکمرانوں کی غفلت پر افسوس کا اظہار کیا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
نسوار خان سے بات کراؤ ۔ شیرون نے فون اٹھانے والی سیکرٹری سے کہا۔
صاحب میٹنگ میں ہیں ۔ اپنا تعارف کروائیں تا کہ آپ سے بات کروائیں۔
ان سے کہیں کہ ان کا کوئی غیر ملکی دوست ان سے بات کرنا چاہتا ہے۔
سیکرٹری نے رابطہ کرا دیا۔
ہیلو نسوار خان ۔ کیسے ہو۔
ہم ٹھیک ہے۔ تم سناؤ ۔
میرے کام کا کیا کیا؟
تمہارا کام ہو گیا۔ رازی کا راز معلوم ہو گیا۔ ہم ابھی اسی سلسلے میں بات کر رہا تھا اپنی ٹیم سے ۔
تو پھر ہمیں نہیں بتانا ۔
بتاناہے۔ تمہارے لئے تو اتنا کچھ کیاہے ۔
ہمارا معاہدہ ابھی تک برقرار ہے ۔
برقرار بھی ہے اور پکا بھی
تھوڑی دیر میں تمہیں پتہ چل جائے گا اپنا کمپیوٹر کھول کے دیکھوگے تو۔ میرے ویب سائٹ پر تمام معلومات ہیں مگر یہ سائٹ ماسٹر کارڈ سے کھلتی ہیں۔
ٹھیک ہے ۔ بائے
بائے
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
شیر ون نے اپناکمپیوٹر
آن کیا اور نسوار خان کا سائٹ کھول کے رازی کے بارے معلومات چاہیں ۔ مطلوبہ رقم کریڈٹ کارڈ سے جاتے ہی سائٹ کھل گئی ۔
شیر ون نے جب رازی کے بارے میں جانا تو پریشان سا ہو گیا اچھا تو یہ رازی ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان ایسا بھی کر سکتے ہیں ۔ شیر ون نے انفارمیشن ڈاؤن لوڈ کی اور سائٹ بند کر کے یہ انفارمیشن فوراً ایس ون تک پہنچا دیں۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*

 

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 65613 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More