شام کا ڈھلتا سورج زرد و نارنجی شعائیں بکھیر رہا تھا۔
زمین پر موجود ہر ذی نفس اپنا اپنا ذریعہ معاش سمیٹتے ہوئے نمونہ عجلت بنا
ہوا تھا۔ گویا سب کو اپنی اپنی پناگاہوں میں پہنچنے کی جلدی تھی۔ ایسے میں،
میں اور وہ نہیں۔۔۔۔۔۔وہ اور میں تصحیح الفاظ، محبوب کو ہمیشہ آگے رکھنا
چاہیئے۔ ہاں! تو وہ اور میں سمندر کنارے۔۔۔۔۔۔نہیں ایسا کوئی منظر نہیں
تھا، ضروری نہیں کہ سمندر کنارے یا کسی پارک کے گوشے میں ہی محبوب کو خراج
عقیدت پیش کیا جائے۔
سڑک کنارے ہاتھوں میں کارنیٹو تھامے ہم محو گفتگو چلتے جا رہے تھے۔ گاہے
بگاہے میں میں منہ میں آئسکریم کا ذائقہ گھول لیتی۔ پھر اچانک اس نے مجھ سے
ایک سوال پوچھ لیا۔ اس نے کہا نینا! وہ مجھے نینا ہی کہتا تھا کہ اس کی
نظریں میری کاجل سے لبالب بھری آنکھوں پر مر مٹی تھیں۔
اس نے کہا! نینا۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو محبت کی قیمت کیا ہے؟۔ میں نے بھی عام
لڑکیوں کی طرح ڈائیلاگ مارنے کو فوقیت دی۔ میں نے کہا شجاع، تم مجھ سے محبت
کی قیمت پوچھتے ہو!۔۔۔۔۔۔محبت تو بے مول ہوتی ہے۔ وہ ذرا کی ذرا میری
آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا پھر پلکیں جھکا لیں، پھر میں نے اس کے ہونٹوں
کو ہلتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجھ سے آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہا تھا۔ نینا میں
تمہیں محبت کی قیمت بتاتا ہوں۔ محبت کی قیمت "اخلاص" ہے۔ اخلاص جانتی ہو
کسے کہتے ہیں؟۔۔۔۔۔ "خلوص" کو، اور اس کا شجرہ "خالص" سے جا ملتا ہے، اور
خالص کہتے ہیں سچے اور کھرے کو۔ محبت میں اگر خلوص نہ ہو تو وہ مردہ ہو
جاتی ہے۔ بالکل ویسے، جیسے ایک انسان بغیر روح کے مردہ ہو جاتا ہے۔ اس کی
کوئی قیمت نہیں رہتی، کوئی وقعت نہیں۔ جیسے کرہ ارض پر اس کی گنجائش ہی
باقی نہ رہی ہو۔ محبت کا بھی اخلاص کے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسا جسم کا
روح سے۔ اگر اخلاص نکال دو تو محبت بے جان۔۔۔۔ اور ایسی محبت عرش بریں پر
اپنا مقام کھو دیتی ہے۔ ایسی محبت فطری خوشی تو دے سکتی ہے لیکن دلی سکون
نہیں۔ میں جو یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی، اس کے ہلانے پر چونک گئی۔ وہ اب
میرا ہاتھ ہلا کر مجھے پگھلتی ہوئی آئسکریم کی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ نینا
تمہاری آئسکریم پگھل گئی ساری، آٶ نئی لے دوں۔ بات کب کی ختم ہو چکی تھی
اور میں بس اس کے محبت آمیز اخلاص کی تہہ میں پرت در پرت اترتی چلی گئی۔ |