معزز قارئین اکثر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی
،مشکلات نے آن گھیرا ہے ،بے روز گاری ہے ،گھر سے لڑائی جھگڑے ختم نہیں ہوتے
،شوہر بیوی سے تنگ ،بیوی شوہر سے تنگ ،بچے اپنے والدین کے روز روز کے
جھگڑوں سے تنگ ،امن سکون تبا ہ کیو ہو چکا ہے ،کبھی ہم نے غور سے سوچا ہے
کہ ایسا کیو ں ہے ؟یہ سب اس لیئے ہے کہ ہمارا یمان کمزور ہو چکا ہے ،نماز
میں کوتاہی ،سود کا کاروبار عام ،زنا تو دور نگاہوں سے شرم وحیا کا خاتمہ
مغربی ممالک کے کلچر حجاب کا عدم اہتمام ،انڈین چینلز پر دیکھائے جانے والے
ڈراموں اور فلموں میں اداکاراؤں کا شارٹ اور غیر تہذیبی لباس ،ریم واک کرنے
والی ماڈلز کا لباس ،کاروبار میں ناپ تول کا فرق ،اصلی کو نقلی سامان میں
مکس کرکے بیچنا ،پھل یا سبزی دیتے وقت ایک آدھ چیز خراب ڈال دینا ،دینا کچھ
اور لینا کچھ اور یہ سب کیا ہے ۔۔؟دیکھتی آنکھیں ہیں سب کچھ مگر لب خوموش
ہیں ہمارے توہ پھر دعا کیسے قبول ہو، حضرت ایسے میں توہ انسان کیلئے خسارہ
ہی خسارہ ہے اﷲ پاک ہم سے راضی کیسے ہودعا کیسے قبول ہو ،اس میں قصور کس کا
ہے ؟ انسان خود قصور وار ہے اﷲ پاک کی رحمت تو سب پر ہے رزق تو اﷲ پاک
یہودیوں ،عسائیوں کو بھی دیتا ہے مگر ان میں اور ہم میں فرق ہے، ہم مسلمان
ہیں ہم پر اسلام کے اصولوں کی پیروی فرض قرار پائی ہے ،لیکن ہمارے اعمال ہی
کچھ ایسے ہیں جو ہماری پستی کا سبب بنے ہوئے ہیں،عبادت کی بجائے رات گئے تک
کلبوں میں رہنا ،مسجدومدارس میں درس وتدریس سننے کے بجائے اڈوں پہ جوا
کھیلنا ،دولت کے لالچ میں اتنا اندھا ہوجانا کہ حلال و حرام کی پہچان نہ
رہے ،تو جب لقمہ ہی حرام ہوتو زمان میں مٹھاس کہا سے آئے گی جس زبان ،میں
مٹھاس ہی نہیں ہو گی تو لڑائی جھگڑے کہا ختم ہونگے ۔جب ہم نماز اور دین
اسلام سے ہی خافل ہو جائے گے تو دعا مانگنے کا طریقہ کہا ں سے آئے گا اور
دعائیں کیسے قبول ہونگی ،بات وہی آتی ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے ،اﷲ
پاک کی ذات تو رحیم ہے وہ تو پھر بھی رزق عطا کرتا ہے ،لیکن کچھ کام ہمارے
ذمہ بھی تو اﷲ پاک نے لگائے ہیں اور ہمیں کوئی فکر ہی نہیں ،صبح سویرے جب
رزق تقسیم ہوتا ہے تو ہم لمبی تان کر سو رہے ہوتے ہیں ،اگر ہم نے کہی پارٹی
وغیرہ میں جانا ہو تو ہمیں نیند نہیں آتی صبح صبح ہی اٹھ کر تیاری شیاری
میں لگ جاتے ہیں کہ دیر نا ہو جائے ،لیکن نماز کیلئے ایسا فکر کیو ں نہیں ،روزے
رکھنا فرض قرار پائے ،مگر آج کا دور ،بھوک برداشت نہیں ،پیاس برداشت نہیں ۔گرمی
برداشت نہیں،جب ﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ روزے میرے لیے ہیں اور میں ہی اس کا
اجر دونگا ،تو صبر بھی تو وہی عطا کرے گا ،روزہ نہ رکھنا کھلے عام بازاروں
میں پھرنا ،اﷲ کے ذکر کی طرف نہ آنا ،روزے دار خواتین سے کھانا پکوانا خود
بھی کھانا اور ساتھ چار دوستوں کو بلا لینا ،دوپہر کے وقت سخت گرمی بھی
خواتین کھانا پکا کر دیتی ہے روزہ بھی ہے مگر وہ کیا کرے ،شوہر کا حکم ہے
دیور یا جیٹھ کا حکم ہے ،باپ یا بھائی کا حکم ہے ،خیال تو ہمیں کرنا چاہیے
یہ سب کیا ہے ،ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی ،پہلے ہم اپنے
اعمال تو ٹھیک کریں ،ہمارے اعمال ایسے رہے تو اﷲ پاک ہم سے کیسے راضی ہو
سکتا ہے اس کی رحمت ہم پر کیسے برس سکتی ہے رزق کی فراوانی کیسے ہو سکتی ہے
،آج ہر دوسرے گھر میں اولاد کی نافرمانی کا رونا رویا جاتا ہے ،یاد کرو جب
ہمارہ بچپن تھا ہمارے والدین نے دن رات محنت کر کے ہمیں پالا ،جوان کیا ،روز
گار کے موقع فراہم کیے ،دینی و دنیاوی تعلیم دلوائی پتہ نہیں کس طرح انہوں
نے ہماری تعلیم کیلئے پیسے اکٹھے کیے ،اور آج ہم ان کے ہی وجود سے تنگ ہیں
،ان کے علاج کیلئے پیسے نہیں جوئے اور پارٹیوں لٹانے کو بہت پیسہ ہے مگر ان
کا اچھا علاج کرانے کیلئے نہیں ،بیویا ں رہیں اے سی میں اور بوڑھے والدین
کی جگہ اولڈ ہاؤس میں جہاں پورے کمرے میں ایک ہی پنکھا ہے اور وہ بھی خراب
،تو پھر ہماری اولاد نا فرمان کیوں نہ ہو ہمارے بچے ہمارا خیال کیسے رکھیں
،ہمارا کہنا کیسے مانیں ،ہماری عزت کیسے کریں ،کہا سے آئے ان کے لہجے میں
مٹھاس ہم خود تو والدین سے گلا پھاڑ کر بات کرتے تھے تو آج اپنی اولاد سے
شکوہ کیسا ،اس بات سے اﷲ پاک راضی کیسے ہو،جس باپ کیلئے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد
ہے کہ ماں جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے ہم اسی باپ سے لڑتے جھگڑتے ہیں
اس کی عزت نہیں کرتے ،باپ ناراض ہو تو جنت کا دروازہ بند اگر ماں ناراض ہو
تو پوری جنت ہی ہاتھ سے گئی ،والدین کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے صبح صبح
پیار محبت چاہت سے والدین کا دیدا کرنا حج اکبر کا ثواب ہے ،اور ہم نے ان
عظیم ہستیوں کو ہی اولڈ ہاؤس کی زینت بنا رکھا ہے ،صبح والدین کو ملے بنا
کام پر چلے جانا اور رات گئے واپس لوٹنا جب والدین سو چکے ہوں ،وجہ پوچھی
جائے تو آسان بہانہ ،،مصروفیت بہت ہے ٹائم نہیں ملتا ،یونہی کئی کئی دن گزر
جاتے ہیں ،والدین اپنے بیٹھے کی راہ تکتے تکتے سو جاتے ہیں ،پھر ہماری
اولاد نا فرمان کیوں نہ ہو ،دوستوں سے خوش گپیوں میں فرصت نہیں ملتی اور
والدین کا حال پوچھتے ہوئے منہ دکھتا ہے ایسا کیوں ہے یہ سب باتیں اﷲ پاک
کی ناراضگی کا سبب نہیں تو اور کیا ہے ،ایسے میں ہم خوشحال کیسے ہوں پر امن
زندگی کیسے گزرے ،گزرے وقتوں کی مثال غلط نہیں ہو سکتیں ،،جیسا کرو گے ویسا
بھرو گے ،،یہی بات ہے کہ جو ہم کرتے ہیں ویسا ہی اجردنیا و آخرت میں ملے گا
،خدا راہ ابھی بھی وقت ہے سدھر جانے کا خود کو سنبھالنے کا ،کہیں یہ نہ ہو
کہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے اور ہم تو بہ سے محروم رہ جائیں ،ہاں سارے زمانے
کو سدھارنا مشکل ہے مگر ہم خود کو تو سنوار سکتے ہیں ،جب ہم سدھر گئے تو
پورہ معاشرہ سدھر جائے گا ۔دعا ہے کہ اﷲ پاک سب کو راہ راست پر چلنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ |