منشیات کا نشہ ایک موزی مرض ہے۔ یہ نہ صرف انسان کو
انفرادی طور پر بلکہ اسکا گھر، خاندان اور معاشرے کو بھی تباہ کر دیتاہے۔
نوجوان جو ملک کا معمار ہیں وہ تیزی سے اس لت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔ اسلامی
تعلیمات کی رو سے منشیات سے پرہیز لازم ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے،
''اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال
شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہو تاکہ نجات پا جاؤ''
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے رسول اﷲ ﷺ نے ہر نشہ آور اور مفتر (اعضاء
کو بے حس کرنے والا) چیز سے منع فرمایا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے
''جو کوئی چیز بڑی مقدار میں نشہ دیتی ہے اسکی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے''۔
لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و
جرائم کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 8.9 ملین لوگ منشیات کا
استمال کرتے ہیں۔ منشیات کے عادی ان لوگوں کی عمر 15 سے 64 سال کے درمیان
ہے۔ 2007 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں نوے ہزار لوگ سرنج کے
ذریعے منشیات لیتے تھے جبکہ 2014 میں انکی تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ ہوگئی۔
اس تعداد میں روز بروز اضافے کی ایک وجہ ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔ دنیا بھر
میں 75 فیصد ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور یہی ہیروئن پاکستان کے
راستے مختلف ممالک بھیجی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی 11
فیصد آبادی منشیات کی عادی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب کے 8 لاکھ 40
ہزار افراد ہیروئن اور 86 ہزار افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں
سرنج سے نشہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ میں 40 لاکھ
سے زائد افراد بھنگ کا استعمال کرتے ہیں۔
منشیات کے عادی یہ لوگ اس میدان میں دور تک نکلنے کے بعد اپنے گھر کے تک
نہیں رہتے۔ وہ لوگ جو کبھی معاشرے کا فعال رکن ہوتے تھے ایک ناکارہ عضو کی
مثل بن کر رہ جاتے ہیں کچرے کے ڈھیر اور نالیوں کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔
جب نشہ کی طلب بڑھتی ہے تو یہ لوگ منشیات کے حصول کے لئے چوری و ڈاکہ جیسے
جرائم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
قارئین کرام !حکومت کو چاہیے کہ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے منشیات کے خرید
و فروخت کو مشکل بنائے بلکہ ناممکن بنائے ،والدین بچوں کو نشہ آور چیزوں کے
نقصانات سے متعلق آگئی فراہم کریں اور انکی تربیت ایسی کریں کہ وہ منشیات
سے نفرت کریں نہ کہ ان لوگوں سے جو اس مرض میں مبتلا ہیں.منشیات کے نقصانات
کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے.نوجوانوں کو دوران تعلیم ہی اس زہر کے
نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس خاموش قاتل سے دور رہیں.علماء منبر و
محراب کے ذریعے منشیات کے استعمال کے روک تھام کے لئے کردار ادا کریں
کیونکہ منشیات نہ صرف ایک طبی بلکہ ایک اسلامی مسئلہ بھی ہے.علماء منشیات
کے دنیاوی و آخروی نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کریں کہ منشیات نہ صرف اس دنیا
میں انسانی صحت' ملک و قوم اور معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ محشر میں
بھی اسکا حساب ہوگا.ایسے افراد عام مریض کی طرح اپنا علاج خود نہیں کرواتے
ایسے لوگوں کو آمادہ کیا جاتا ہے اکثر اوقات علاج کے ابتدائی مراحل میں
مریض کی مرضی کے خلاف علاج کیا جاتا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں
ٹیمیں تشکیل دے جو ایسے افراد کو گلی کوچوں سے اٹھا کر ہسپتال منتقل کریں
جہاں انکا علاج ہوسکے.میڈیا اگر اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرے مختلف
پروگرام نشر کئے جائیں جن میں علماء،ڈاکٹر اور سماجی شخصیات کے ذریعے عوام
کو آ گئی فراہم کی جائے.منشیات چھوڑ کر عام پرسکون زندگی بسر کرنے والے
لوگوں کے انٹرویو نشر کئے جائے تاکہ معاشرے کو منشیات جیسے ناسور سے پاک
کیا جاسکے ۔
|