ہزاروں کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود ہم ناآشنا ہیں کہ
ہم بھی گناہ گار ہوسکتے ہیں۔ قدم قدم گناہوں میں ملوث ہے مگر اناٰو ضد نے
ایسے جھکڑا ہوا ہے کہ سب سے نیک پرست، عاجز و درددل رکھنے والا انسان خود
کو سمجھتے ہیں۔لیکن حقیقت میں تفاخرانہ انداز ہر شخص کی مرغوب خصلت بن چکی
ہے۔ہر انسان مجرم ہے مگر احساسِ جرم ختم ہوگیا ہے۔قوموں کا زوال اس ایک بنا
پہ بھی شروع ہوتا ہے۔اپنی غلطیوں کا احساس جب ختم ہوجائے تو مصلح بھی دشمن
لگتا ہے ہر مبلغ کی بات تنقید لگتی ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے مالک نے
فرمایا تھا کہ شیطان تمہارے اعمال کو ایسے مزین کرتا ہے کہ تمہیں گناہ گناہ
نہیں لگتا۔ہم َان گنت گنا ہوں اور جرائم کی دلدل میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ
اپنا جرم چھوٹی سی خطا اور دوسروں کی چھوٹی سی خطا جرم ِعظیم لگتی ہے۔ذرا
غور وفکر تو کرئے ہم اپنے جرم میں بخیل اور دوسروں کے جرم میں مسرف بنے
ہوئے ہیں۔ہم ذاتی مفادات کو بھی شرعی احکام پہ ترجیح دیتے ہیں۔جہاں ہمارا
مذہب ہم سے مشقت طلب کرے تو مجبوری کا لیبل لگا کر مشقت طلب احکام کو
مجبوری کی آڑ میں رد کرتے وقت ہم میں احساسِ جرم پیدا ہی نہیں ہوتا۔اور پھر
ہم اپنے ہی گناہوں پہ ڈٹ جاتے ہیں۔یہ احساس جرم کے ختم ہوتے ہی اپنے سامنے
حجتیں رکھ کے اپنے آپ کو مطمئن کرتے ہوئے گناہ آلود زندگی گزارتے جارہے
ہیں۔گناہوں کی زندان میں اس قدر مقفّل ہیں کہ ساری راہوں پہ اٰنا اور ضد
آڑے آرہی ہے۔اگر کبھی ہماری روحانی کیفیت ہمیں احساس دلانے کی کوشش بھی کرے
تو نفس ڈھیڑوں حجتوں کو پیش کرتے ہوئے اِس احساس کو اْبھرنے نہیں
دیتا۔احساسِ جرم کا زوال بہت بڑا زوال ہے۔مبلغ و مصلح جب تک خود احساس جرم
نہیں رکھتا وہ جرم ختم نہیں کر سکتا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگر ہمیں ہماری
خطاوؤں کی نشاندہی کروائی جائے تو ہماری اٰنا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔اور خود
شناسی سے کوسوں دور ہونے کی بنا پہ ہم خود پہ دربان بن کر بھی نہیں بیٹھے
ہوئے۔برائی کو شیطان نے اس قدر مزین کردیا ہے کہ ہم نیکی سمجھ کر اس کی
پوجا کر رہے ہیں۔سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ غلطی کو غلط سمجھا نہیں جا
رہا۔وعظ و نصیحت کو بھی اپنی گفتگو کومدلِل بنانے اور طعنوں کے ذریعے سنانے
کی غرض سے سنا جارہا ہے۔ برائی کو برا مان کر اپنی غلطی تسلیم کرلینے سے ہی
برائی کی جڑ اْکھڑ جاتی ہے۔اور رفتہ رفتہ انسان خود کو راہ راست پہ گامزن
کرنا شروع کر دیتا ہے۔ احساسِ جرم کے فقدان کی وجہ سے ہی ہم غلطی پہ ہوتے
ہوئے ڈٹ گئے ہیں۔یہ جانتے ہوئے کہ ہم غلط ہیں پھر بھی ہر پل خود کو منوانے
کی کاوشوں میں لگے ہیں۔ہر ایک پہ خود کو منوانے اور نام بنانیکا نہ ختم
ہونے والا ایسا جنون طاری ہے کہ بعض اوقات غلط راہ سیآگاہ ہو جانے کے
باوجود شہرت و نام کو بچانے کے لیے صراطِ مستقیم کو پس و پشت ڈال دیتے
ہیں۔اپنے نیند سے جاگنے والے ضمیر کو جو ہمیں برْی راہ سے روکتا ہوا صراطِ
مستقیم کی دعوت دے رہی ہوتا ہے اْسے تھپکیاں دے کر دوبارہ سْلا دیتے
ہیں۔برائی کو بْرا مان کر اپنی غلطی تسلیم کرلینے سے ہی برائی کی جڑ اْکھڑ
جاتی ہے۔اور رفتہ رفتہ انسان خود کو راہ راست پہ گامزن کرنا شروع کر دیتا
ہے۔ احساسِ جرم ہمیں اپنی ذات کے سامنے شرمندہ کرتا ہے احساسِ جرم بیرونی
جنگ کو ختم کرکے اندرونی جنگ کی شروعات کرتا ہے۔انسان ہر پل خود کو برائی
سے روکنے کی تلقین کرتا ہے۔احساسِ جرم ہی نفس کو مات دے سکتا ہے ورنہ ہمارا
نفس تو آئے دن جیت کے جشن کی خوشی مناکر شیطان کو خوش کررہا ہے۔نفس ہر پل
بآور کرواتا رہتا ہے کہ تم راہ راست پہ ہو باقی سارا جہاں گمراہ ہے۔آج کا
مطالبہ مخض یہی ہے کہ اس بار اسکو وعظ سمجھے بنا حقیقت سمجھئے گا۔دوسروں کو
بدلنے کی بجائے خود کو بدلئے گا۔اپنی آنکھ خود پہ کھولنی ہے۔پورے عالم کو
تسخیر کرنے کی بجائے اپنی ذات کو تسخیر کرنا ہے۔جس دن اپنے جرم نظر آگئے
توناجانے کیوں دل چاہے گا کہ اقتدار کے جس عہدے پہ ہم فائز ہیں ہم تو اسکے
حقدار نہیں۔من اتنا میلا نظرآئے گا کہ انعامات ایسے لگے گے جیسے رحم وکرم
کی بنا پہ ملے ہوئے ہوں۔جن چیزوں پہ حق جماتے ہیں وہ بیگانگی کی گھنٹیاں
بجائیں گی۔اور اسی دن اصل میں ہم اِس اقتدار و انعامات کے حقدار ہونگے۔کسی
انسان کے اعلیٰ ظرف ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جسمانی طور پہ عرش
پہ پہنچ جانے کے باوجود بھی ذہنی طور پہ فرش پہ رہے۔انسان کے احساسِ جرم کے
فقدان کی ایک وجہ ہمارا اقتدار ، مقام و مرتبہ بھی ہوتا ہے۔سیانے کہتے ہیں
دو چیزوں کے تکبر سے بچنا چاہیے۔علم اور مال کے تکبر سے۔اور یہی دونوں
چیزیں ہمیں ہماری نظر میں اقتدار کی اعلی نشست پہ بیٹھا دیتی ہیں۔احساسِ
جرم کے فقدان ہی کی وجہ سے ہم بے حس بن چکے ہیں۔لوگوں کے لیے دردِدل نہیں
رکھتے۔دنیا مرتی ہے جیتی ہے ہمیں اس بات کی فکر نہیں۔حتیٰ کہ اپنی اٰنا کی
زد میں اس قدر آچکے ہیں کہ قریبی رشتہ داروں سے ہر چھوٹے چھوٹے مسئلے پہ
قطع تعلقی کر دیتے ہیں۔ اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے شرعی
احکام کو رد کرتے جارہے ہیں۔ ناصح کی وعظ و نصیحت کو خاموشی سے سنتے ہوئے
دل ہی دل میں اْسکا تمسخر اْڑا رہے ہوتے ہیں اور اْسکی وعظ سے لاپرواہی
برتتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے جرم کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ ہم غلط ہوتے
ہوئے بھی سب سے سمجھدار خود کو گردانتے ہیں۔ہماری یہی سوچ ہمیں سیاہ پردوں
کا جھال ہمارے ذہن پہ بچھادیتی ہے۔نقشِ سویدا کے اثرات بڑھتے جاتے ہیں اور
ہادی کے ساتھ پل پل گزارنے کے باوجود ہمیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ضروری امر
ہے کہ ہم جو ہر پل تنقیدی نگاہ دوسروں پہ لگائے ہوئے ہیں اسکا رْخ پھیر کر
اپنے اندر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہے۔ہم پوری طرح اپنے سامنے منکشف ہوجائے گے
اپنی حقیقت کو پالیں گے اور یقیناً فلاح کی راہیں پالیں گے۔احساسِ جرم کے
پیدا ہونے سے ہم خود پہ پوری طرح عیاں ہوجائے گے اور پھر اپنے گناہوں سے
گِھن آئے گی اور اسی گِھن سے چھٹکار پانے کے لیے ہم فلاحی راہوں کے مسافر
بن جائے گے۔افکار پاک ہونگے تو اعمال بھی پاکیزہ راہوں کے راہی بن جائے گا۔
اس لیے ہمیں جھکنا سیکھنا ہے۔غلطی کو تسلیم کرنا سیکھنا ہے۔تنقید کا جواب
اصلاح سے دینا ہے۔دوسروں کی کمزوریوں پہ پردہ ڈالنا سیکھنا ہے۔اپنی روحانی
کیفیت کو جگانا ہے اپنے اندر جھاکنا ہیں پھر ہی ہمیں اپنی خطاوؤں سے آگاہی
حاصل ہوگی۔نفس کو مات دینی ہے۔یہ نفس جب شکست حاصل کرتا ہے تو تب ہی ہم خود
پہ عیاں ہوتے ہیں تب ہی ہم خود کی خامیاں تلاش کرتے ہیں۔اپنی کھوج لگاتے
ہیں۔اپنے دل پہ دربان بن کے بیٹھ جاتے ہیں۔اپنی سوچ کے محافظ بن جاتے
ہیں۔اپنے کردار کو سنوارتے ہیں۔اپنے اقتدار کو بھول کر سادگی کو پسند
فرماتے ہیں۔اپنے اندر کی دنیا کو پاک کرنا شروع کرتے ہیں۔اس لیے احساسِ جرم
پیدا کرئے قدم قدم آسان اور سچا ہوجائے گا۔حیلے بہانے سے چھٹکارا پاکر
زندگی کی سچائیاں واضح ہوجائیں گی۔انشااﷲ، |