علم سیاست ایک ایسا علم ہے جو اقوام کو خوش حال زندگی بسر
کرنے کی ضمانت دیتا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رہنے میں رہنمائی کرتا
ہے، یہ ریاستوں کو ایسا نظام حکمرانی عطا کرتا ہے کہ جس میں اس ملک کے شہری
امن و سکون، سلامتی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں، یہ علم پیار محبت، بھائی
چارہ کا درس دیتا ہے۔ ہم نے تو سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے اس علم کے
بارے میں یہی کچھ پڑھا اوریہی کچھ علم سیاست کی کتابوں میں لکھا ہوا بھی ہے،
یہی کچھ ہمارے اساتذہ نے ہمیں بتایا بھی ہے لیکن ..........پاکستان میں تو
ہم نے الٹی گنگا بہتی دیکھی، یہاں سیاست نام بن کر رہ گیا ہے طاقت حاصل
کرنے کا، نام و نمود، شہرت ، دولت اکھٹی کرنے کا، تجارت کرنے کا، بیرون ملک
جائز و ناجائز طریقے سے ملک کا سرمایہ لے جانے کا، بیرون ملک جائیدادیں
بنانے کا ، کاروبار کرنے کا، اقربا پروری کرتے ہوئے اپنے اولودوں، بھائی ،
بھائیوں، بہنوں، رشتہ داروں کو ایم پی اے ، ایم این اے بنا نے کا، ریاست کے
اداروں کو اپنے قابو میں کرنے کا، وزیر ، سفیر ، مشیر بن کر اپنے مخالفین
کو کھلے عام گالی گلوچ کرنے کا، مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کا۔ ایسی صورت
حال میں عوام غریب سے غریب تر ، حکمراں امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے ،سارے
ہی حکمرانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہ حاکم جو ووٹوں سے منتخب ہوکر
آیا، یا طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا، کوئی ایک جس کی جائیدادیں ملک سے
باہرنہ ہوں، کوئی ایک جس کا سرمایہ ملک سے باہر نہ ہو، کوئی ایک اقتدار
حاصل ہوجانے کے بعد جب اپنے عہدے سے فارغ کیا گیا ہو تو اس کی جائیدیں، بنک
بیلنس، اس کا طرز زندگی سیاسی طاقت حاصل کرنے سے پہلے والی ہوں۔ ایوب خان
صاحب سے پہلے سیاسی افق پر نمودار ہونے والے حکمرانوں نے تو صاف ستھر ی طرز
حکمرانی اختیار کیا۔ بعد کے حاکموں کا تو یہ حال رہا کہ جس حکمران کی ایک
شوگر مل تھی اس کی دس ہوگئیں، جس کی سو دو سوکینال زمین تھی وہ لاکھوں
کینال پر پہنچ گئی،جو کچے پکے مکان میں رہتا تھا محل میں رہ رہا ہے، جس کا
اپنے ملک میں گھر نہیں تھا آج وہ لندن، دبئی میں قیمتی فلیٹ اور محلوں میں
رہا رہا ہے۔ جو شہر کی عام سی بستی میں رہائش رکھتا تھا اس کا اب وہ
گھرنہیں بلکہ کئی سو ایکٹر زمین پر پھیلے رقبے پر ایسا محل ہے کہ جس کے
چاروں جانب کوئی انسان تو کیا پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ جس محل میں ایک
خاندان آباد ہو اس کو جانے والی سڑک کو غیر ضروری طور پر کشادہ کیا گیا جس
پر ملک و قوم کا خزانہ لگایا گیا، اس کا کیس بھی درج ہوچکا ہے۔
بات خلائی مخلوق کی کرنا تھی، یہ ہمارے حکمران بھی عجیب زمینی مخلوق ہیں کہ
ان کا ذکر چھڑ جائے تو ان کے برے کرتوت ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا
نہیں کہ انہوں نے اچھے کام نہیں کیے ، یقیناًاچھے کام بھی کیے ہیں ، جیسے
شریف خاندان نے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے، پشاور سے کراچی، کشمیر
سے بلوچستان تک کشادہ سڑکیں بنائی گئیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں
برادران کوملک میں کشادہ سڑکوں کو ہی ملک کی ترقی تصور کرتے ہیں۔ تعلیم اور
صحت جیسے اہم شعبہ جات ملک کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتے، اگر اس جانب توجہ
کرتے ہوئے کئی نہ سہی کوئی ایک بڑا اسپتال ہی بنا لیتے تو آج جب بیگم نواز
شریف کو اپنوں کی موجودگی کی شدید ضرورت تھی، وہ ہزاروں میل دور اپنے شوہر
اور بیٹی کے بغیر زندگی نہ گزار رہی ہوتیں۔ ان کے اس کرب اور احساس کا شاید
ہی اس خاندان کو احساس ہوتا ہو، یہ اپنے اقتدار کو دوبارہ سے بحال کرنے میں
مصروف عمل ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی نے عدالتوں کے بارے میں جس قسم کی
زبان استعمال کی ، انہیں تو بہت پہلے توہین عدالت کے جرم میں جیل بھیج دیا
گیا ہوتا لیکن یہ آسمانی مخلوق ہی تو ہے جس نے انہیں چھوٹ دی ہوئی ہے۔ جس
دن سے میاں صاحب کو نا اہل قرار دیا گیا ، ان کے بیانیے تبدیل ہورہے ہیں،
ایک کے بعد ایک نیا بیانیہ ، کبھی خفیہ ہاتھ، نامعلوم عناصر، مجھے کیوں
نکالا، ووٹ کو عزت تو اور اب یہ کہ ان کے خلاف خلائی مخلوق سرگرم عمل ہے۔
کل ان کے دیرانہ ساتھی چودھری نثار نے کہہ دیا کہ انہیں اس بات پر سخت
افسوس ہوا کہ میاں صاحب نے کہا کہ میں اب نظریاتی ہوگیا ہوں، اس کا مطلب ہے
کہ وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے، چودھری صاحب نے فرمایا کہ میاں صاحب وضاحت
کریں کہ کون سے نظریاتی ہیں وہ، دائیں یا بائیں ، بقول چودھری نثار کیا
میاں صاحب نے اچکزئی کا نظریہ اپنا لیا ہے؟ یہ ہمارے سب ہی سیاست دانوں کی
روش ہے کہ یہ جس سے ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں کبھی اس کے بارے میں اس کا نام
لے کر اسے برا بھلا نہیں کہتے، ہمیشہ اشارو کناروں میں بات کرتے ہیں۔ اتنے
بہادر ہو تو نام لے کر کہو کہ خلائی مخلوق کون ہے؟ کیا وہ خلائی مخلوق صرف
میاں صاحب کو ہی دکھائی دے رہی ہے ، یہ وہ مخلوق تو نہیں جس نے میاں صاحب
کو سیاست کے میدان میں اتارا تھا، انہیں پالا پوسا اور سیاست کا کھلاڑی
بنایا تھا، اسی تربیت کانتیجہ ہی تو ہے کہ شریف خاندان گزشتہ کئی سالوں سے
پاکستان کا حکمراں خاندان چلا آرہا ہے۔ چودھری نثار کی باتوں سے اختلاف
ہوسکتا ہے ، ان کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے
5مئی2018کی پریس کانفرنس میں جو باتیں میاں صاحب کے لیے کہیں ان میں بے
شمار درست ہیں۔ ان کا کہناہے کہ انہوں نے میاں صاحب کو’ سپریم کورٹ جانے
اور تقریر کرنے سے منع کیا تھا‘، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ جو پیادے اس
وقت میاں صاحب کے ارد گرد جمع ہیں انہوں نے میاں صاحب کو اس انجام تک پہنچا
دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ملازم سے میرے خلاف بیان دلوایاجو کبھی کسی کے
خلاف کھڑا نہیں ہوا، سینٹ کے لیے ذاتی ملازمین کو ٹکٹ دئے، چودھری صاحب نے
کہا کہ وزیر اعظم کے پاس خلائی مخلوق کا ثبوت ہے تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی
ایس آئی سے بات کریں، اس نئی منطق کو چودھری نثار نے ’نئی نیوز لیکس‘ قرار
دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا
بلاواسطہ یا بلواسطہ کردار رہا ہے ‘،اصغر خان کیس دوبارہ کھل چکا ہے، اگر
تیزی سے اس سمت پیش رفت ہوتی ہے تو وہ بھی میاں صاحب کو مشکل میں ڈال دے
گی، میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ کہ ان کے خلاف خلائی مخلوق کام کررہی ہے ،
سیاسی بیان بازی کے سوا کچھ اور نہیں، ہوا میں تیر چھوڑنے کے مترادف ہے، جس
مخلوق کی جانب میاں صاحب اشارہ کر رہے ہیں ، اس وقت پاکستانی سیاست میں اس
کا عملی دخل دور دور دکھائی نہیں دے رہا۔ مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں
جاسکتا۔ اب بھی وقت ہے میاں صاحب اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں ، اس قسم کے
بیانات نہ خود دیں نہ اپنی صاحبزادی سے دلوائیں جب یہ دونوں اپنے آپ کو
کنٹرول کرلیں گے تو بقول چودھری نثار پیادے از خود احتیاط کریں گے، ویسے
بھی چند پیادوں کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی بہت آگے بڑھ چکی ہے، یہی
وجہ ہے کہ اب پیادوں نے احتیاط سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ اقتدار ہی زندگی
نہیں میاں صاحب ، اقتدار آنی جانی چیز ہے، آپ سے پہلے کتنے حکمراں آئے اور
چلے گئے۔ اور بھی اہم امور ہیں جو آپ کی مکمل توجہ چاہتے ہیں، آپ پر کڑا
وقت ہے، سیاست ہوتی رہے گی، انسان دوبارہ نہیں آیا کرتے، جو ایک بار چلا
گیا بس چلا گیا،جب کھیل ہاتھ سے نکل جاتا ہے پھر انسان زندگی بھر احساس ،
ندامت ، افسوس اور ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ مقدمات میاں صاحب پر ہیں ان کی
بیٹی پر تو نہیں ، وہ اپنی ماں کی خدمات کا موقع کیوں ہاتھ سے جانے دے رہی
ہے، ماں جیسی چیز دوبارہ نہیں ملنے کی۔شادؔ عظیم آبادی کی غزل کے چند اشعار
ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسوں وہ خواب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھولوں نے، اے شادؔ ! یہ کہلا بھیجا ہے
آجاؤجو تم کو آنا ہو ایسے میں، ابھی شاد اب ہیں ہم |