انسان کا دنیا میں آنا حکم ربی ہے ۔ جس میں اس کا ذاتی
ارادہ شامل نہیں ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے وہ مقدر کا پابند ہے ۔ آزادی
ارادہ اس کی محدود ہے ۔ گلے میں صلیب مقدر ہے ۔ پھر جنت کا حصول کیسے ممکن
؟
ہر انسان کے سامنے دو راستے ہیں ۔ پہلا قدم خیر یا شر کے تابع وہ اٹھاتا ہے
۔ پھر اس راستے پہ آگے بڑ ھتا ہے ۔ اب اگر برائی کا راستہ تو ضمیر کی آواز
سنتا ہے کچھ پل کے لیے سوچتا ہے پھر یا تو پلٹ آتا ہے واپس یا پھر سنی ان
سنی کر کے آگے بڑ ھ جاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اس کے قدموں میں روانی آجاتی ہے
۔ پھر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ پلٹنا ناممکن ہو جا تا ہے ۔ دنیا
کی رنگینیاں اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں ۔ موت سے آگاہ تو ہے لیکن دلی
دور است ۔
لیجئیے ! بجا موت کا نقارہ ۔ جان لیوا کسی مرض نے آگھیرا ۔ ستر اسی سال
دنیا پہ گزار کر بچوں کے بچوں کی شادیاں کرکے بھی جینے کی خواہش ہے کیوں ؟
کیونکہ آخرت کی تیاری نہیں ہے کیونکہ مال و متاع گھر اور اپنے کمرے سے محبت
بہت ہے ۔ اب آہستہ آہستہ بھولے بسرے گناہ یاد آنے لگے ۔ اپنے اعمال منہ
چڑانے لگے ۔ اب قبر کی وحشت ڈرانے لگی ۔ اب آنکھ سے آنسو بہنے لگے لیکن وقت
ختم ہو نے والا ہے ۔ اب مدت نہیں ہے باقی ۔
بیماری جھیلتے جھیلتے شکل بگڑ گئی ۔ جسم کا گوشت گُھل گیا ۔ رنگ جل گیا ۔
پہچانے سے نا پہچانا جاۓ ۔ لیجئے عزرائیل موت کے ہر کاروں کے ساتھ آپہنچے ۔
بدصورت شکلوں والے فرشتے ، بدبودار جہنمی کفن لیے ۔ دیکھتے ہی لرزنے لگا
تڑپنے لگا ۔ فرشتے آگے بڑ ھے اس کی روح بدن میں دوڑنے چھپنے لگی ۔ کھینچی
فرشتوں نے روح پیروں میں سے ۔ ناقابل بیان اذیت سے سانس کی آوازیں تیز ہو
نے لگی۔ بیقراری سے ایڑ یاں رگڑ نے لگا ۔ کبھی ٹانگ کھینچے کبھی سر جھٹکے
کئی گھنٹے گزر گئے ۔ اب جان اٹک گئی ہنسلی کی ہڈی میں ۔ نرخرے کی آوازیں
بلند ہونے لگی ۔ گھر والے کفن دفن کی تیاریوں میں لگ گئے ۔ روح کو لڑتے
لڑتےچھپتے چھپتے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ فرشتوں نے کھینچا آخری جھٹکا ۔ انکھیں
اوپر جا لگی جہاں روح گئی ۔ ابھی چھت تک بھی بلند نہ ہوئی تھی حکم آیا اس
ملعون کو زمین کی سات تہوں کے نیچے "سجین "بد روحوں کے دفتر میں داخل کر دو
۔ جیسے اعمال ویسی موت ۔جیسی روح ویسے فرشتے ۔ |