روزہ کا ترک کرنا بے ایمانی کی علامت

روزہ؛اسلام کا ایک بنیادی رکن ہےاور ماہ مبارک ِرمضان اسلامی سال کانواں مہینہ ہےیہ مہینہ خداوندعالم کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اورکامرانیوں کامہینہ ہے۔ اپنی عظمتوں اوربرکتوں کے لحاظ سے دیگرمہینوں سےممتاز ہے۔ماہ رمضان کا روزہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور تمام مسلمانوں جو بالغ، عاقل، اور سالم ہوں، پر اس مہینے میں رزوہ رکھنا واجب ہے۔

روزہ؛اسلام کا ایک بنیادی رکن ہےاور ماہ مبارک ِرمضان اسلامی سال کانواں مہینہ ہےیہ مہینہ خداوندعالم کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اورکامرانیوں کامہینہ ہے۔ اپنی عظمتوں اوربرکتوں کے لحاظ سے دیگرمہینوں سےممتاز ہے۔ماہ رمضان کا روزہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور تمام مسلمانوں جو بالغ، عاقل، اور سالم ہوں، پر اس مہینے میں رزوہ رکھنا واجب ہے۔

ماہ رمضان کا روزہ تغییر کعبہ کے 13 دن بعد ہجرت کے دوسرے سال 28 شعبان المعظم کوسورۂ بقرہ کی 183ویں آیت:یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا کتِبَ عَلَیکمُ الصِّیامُ کما کتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکمْ لَعَلَّکمْ تَتَّقُون۔ کے نازل ہونے کے ساتھ ہرمسلمان پر واجب ہوا ہے۔۔اگرچہ اس سے پہلے بھی پیغمبر اکرمﷺاوربعض دوسرےمسلمان روزہ رکھتے تھے۔جیساکہ ان سے پہلے کی امتیں بھی روزہ رکھاکرتی تھیں ،پہلے بھی روزہ ؛شیطان سے دوری کا سبب ،دلوں کے آرام کا ذیعہ ،گناہوں کا کفارہ ،حج کا بدل اورحصولِ تقویٰ کا ذریعہ تھا آج بھی ہے اور تاروزقیامت صاحبانِ ایمان کو مخاطب کرتا رہے گا کہ اے یمان والو!تمہارے اوپرروزہ واجب ہوا ہے۔۔۔ تاکہ تم متقی و پرہیز گاربن جاؤ۔
روزہ کے وجوب اس کے فوائد اورفلسفے کےبارے میں قرآن وحدیث میں بہت سے فرامین و ارشادات موجود ہیں جنکا خلاصہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے سےانسان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی میں نظم وضبط، صبر و استقامت اور قناعت پیشہ کرنے کا سلیقہ ،تزکیۂ نفس ،ارادےاوراخلاص کی تقویت،تقوااورپرہیزگاری کاحصول،عبادت و بندگی الہی ،اطمینان قلب اورمعرفت الہی کا حصول،غروروتکبرکاخاتمہ،غم گساری،محبت واُلفت، ہمدردی، خیرخواہی،خدمتِ خلق،جذبۂ اتحاد،ایک دوسرے پر ایثار اورہمدلی کاجذبہ،غریب و مسکین اورمحرموں کی مدداور ان کی خدمت کاحوصلہ،قیامت کی بھوک اورپیاس کے دردکااحساس پیداہونا ہے۔
پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا: طُوبَی لِمَنْ ظَمَأَ، أَوْ جَاعَ لِلَّهِ، أُولَئِک الَّذِینَ یشْبَعُونَ یوْمَ الْقِیامَة-۔ خوشخبری ہےاس شخص کیلئےجس نےخدا کی خاطربھوک اورپیاس کوبرداشت کیایہ لوگ قیامت کےدن سیراورسیراب ہونگے۔ (ہدایۃ الامظ الی احکام الائمۃ ج۴، ص۲۶۸، ح ۹)
خالق نہج البلاغہ حضرت امام علی علیہ السلام ميں فرماتے ہيں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب۔روزہ کے واجب ہونے کی ايک وجہ يہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہي کے مقابلے ميں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں : فرض الله...َ الصِّیامُ ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْق۔خدانے روزہ واجب کیا تاکہ اس کے ذریعے بندوں کی اخلاص کی آزمائش کیا جاسکے۔( نہج البلاغہ (صبحی صالح) ص۵۱۲، ح ۲۵۲ - تصنیف غررالحکم و دررالکلم ص۱۷۶، ح ۳۳۷۶)
سیدہ کونئین حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: فَرَضَ اللّهُ الصِّیامَ تَثْبیتا لِلْأخْلاصِ۔ خدا نے روزے کو اخلاص کی تثبیت کیلئے واجب کیا ہے۔( بحار، ج۹۳، ص۳۶۸)
جب حضرت امام رضا علیہ السلام سے روزہ کے فلسفہ کے بارے ميں پوچھاگیا تو آپؑ نے فرمايا: بتحقيق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم ديا گيا ہے تا کہ بھوک اور پياس کي سختي کا مزہ چکھيں- اور اس کے بعد روزہ قيامت کي بھوک اور پياس کا احساس کريں- جيسا کہ پيغمبر اکرم ﷺنے خطبہ شعبانيہ ميں فرمايا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع يوم القيامۃ و عطشہ- اپنے روزہ کي بھوک اور پياس کے ذريعے قيامت کي بھوک و پياس کو ياد کرو۔ يہ ياد دہاني انسان کو قيامت کے ليے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے ليے مزيد جد و جہد کرنے پر تيار کرتي ہے۔
أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ ۔۔۔ (روزوں کےدن) گنتی کے چند روز ہیں۔ تو جوشخص تم میں سے بیمارہویا سفرمیں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔ اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔(سورہ بقرہ /۱۸۴)
سرکارختمی مرتبتﷺنے فرمایا: المعدۃ بيت کل داء- والحمئۃ راس کل دواء- ۔۔۔۔صوموا تَصِحّوا۔۔۔ انَّ الجنّةَ مُشتاقةٌ اِلی اَربعةِ نفرٍ: الی مُطعم الجیعانِ و حافِظِ الِلّسان و تالِی القرآنِ و صائِمِ شهرِ رمضان۔ معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہيزاور(ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کي اساس اور اصل ہے۔- روزہ رکھو تاکہ تندرست رہ سکو ۔بہشت اُن چار اشخاص کا مشتاق ہے، جوکسی بھوکے کو سیر کرائے۔ وہ جواپنی زبان کو کنٹرول کرے۔ وہ جو قرآن کی تلاوت کرے اور ایسا شخص جو رمضان المبارک میں روزہ رکھے ۔
نیز آپﷺ نے فرمایا: اَلا اُخْبِرُکمْ بِشَی‏ءٍ اِنْ اَنـْتُمْ فَعَلْتُموهُ تَباعَدَ الشَّیطانُ مِنْـکمْ کما تَباعَدَ الْمَشْرِقُ مِنَ الْمَغْرِبِ؟ قالوا: بَلی، یا رسول اللّه قالَ: اَلصَّوْمُ یسَوِّدُ وَجْهَهُ وَ الصَّدَقَةُ تَـکسِرُ ظَهْرَهُ وَ الْحُبُّ فِی اللّه‏ِ وَ الْمُوازَرَةُ عَلَی الْعَمَلِ الصّالِحِ یقْطَع دابِرَهُ وَ الاْسْتِغْفارُ یقْطَعُ وَ تینَهُ و لکلّ شی‏ء زکاة و زکاة لأبدان الصّیام۔ کیا تمہیں ایک ایسی چیز کی خبرنہ دوں؟ اگر اس پرعمل پیرا ہوں توشیطان تم سےدور ہوجائے اس طرح کہ جس طرح مشرق سے مغرب کا فاصلہ ہے؟عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہؐ: فرمایا روزہ شیطان کے منہ کو کالا کردیتا ہے۔ صدقہ اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ خدا کی خاطر کسی سے دوستی کرنا اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اس کے جڑوں کو خشکا دیتا ہے اورخدا سےاستغفار اس کے شہ رگ کو کاٹ دیتی ہے۔ اور ہر چیز کی کوئی زکات ہوتی ہے اور بدن کی زکات روزہ ہے۔( منہاج البراعہ ج۷، ص۴۲۶)
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ ۔۔۔۔(سورۃ بقرہ / 185)
ماہ رمضان خداوندعالم کی خصوصی الطاف و عنایات کا رازدار اور نیکیوں کی فصل بہار ہے۔خداوندعالم نے اس بابرکت مہینہ کواپنی وحی اورآسمانی کتابیں نازل کرنے کے لیے منتخب کررکھاہےجیساکہ سارا عالم اسلام اس بات پر متفق ہے کہ صحیفۂ انقلاب قرآن مجید جیسی باعظمت کتاب کا نزول مہینہ میں ہوا ہے نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اسی مہینے میں نازل ہوئے،حضرت موسی علیہ السلام کو تورات اسی مہینے میں دئیے گئے،حضرت داؤد علیہ السلام کی زبور اسی مبارک مہینہ میں نازل ہوئی اور اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کی انجیل اسی بابرکت مہینے کی تیرہ یا اٹھارہ تاریخ کو نازل ہوئی ۔البتہ ان کتب و صحائف کے نزول اور قرآن کریم کے نزول میں فرق ہے ۔دیگر انبیائے کرام کے کتب و صحائف لوح محفوظ سے نازل ہوکرملاوٹ و تحریفات سے محفوظ نہ رہے پائے اور ان کے ماننے والوں میں ان کتابوں کو لیکراب تک ایک انتشار پیداہے لیکن قرآن مجید واحد ایسا کلام الٰہی ہے جو ہر قسم کی ملاوٹ اور آمیزش سے پاک ومنزہ ہے،اس کےتمام الفاظ آج بھی اسی طرح واضح اور روشن ہیں۔۔۔اس نے اپنے نزول کے زمانے سے اب تک ساری دنیا سے اپنی فصحات و بلاغت ، سچائی ،صداقت، عظمت اورحقانیت کا کلمہ ہر ایک سے پڑھوایا ہے۔یہ کل بھی معجزہ تھا اور آج بھی ایک عظیم معجزہ ہے اور تاقیام قیامت معجزہ ہی رہے گا ۔یہ صرف عالم اسلام کے لئے ہی نہیں بلکہ قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لہٰذا یہ دنیاوی زندگی میں بھی رہنما ہےاورقیامت تک سعادت و خوش بختی کا باعث بھی ہےلہٰذا اس کی بتائی ہوئی راہ ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔
اس مہینہ کا قرآن مجید سے ایک گہرا تعلق ہے یہ مہینہ خیر و برکت اوررحمت و مغفرت کے ساتھ ساتھ نزول قرآن کا بھی مہینہ ہے تاکہ لوگ اس کے ذریعےہدایت پائیں اوراس قرآن کےذریعےحق وباطل،سچ اورجھوٹ کے درمیان امتیازپیدا کریں اور اسی بابرکت کتاب کی تعلیمات کوسرچشمہ ہدایت سمجھیں اوراسی کی واضح اور روشن دلیلوں سےمستفید ہوں اور اسی قرآن سے راہنمائی بھی حاصل کریں۔
سرکارختمی مرتبت ﷺ نے قرآن کو رہنمابناتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’جوشخص قرآن کو آگےرکھے گااورزندگی میں اس کی پیروی کرے گا قرآن،قیامت میں اسےجنت کی طرف رہنمائی کرے گا اورجوقرآن کو پس پشت ڈال دےگااور اس کے دستورات سے لاپرواہی کرے گا قرآن اسے جہنم میں ڈھکیل دے گا۔‘‘( الکافی، ج۲،ص۹۹۵)
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے کہ اگر ہمارے روزے اور ہماری تلاوتِ قرآن ہماری اخلاقی اور روحانی زندگی بالخصوص ہمارے عمل اور ہماری روح پراپنے مثبت اثرات مرتب کر تے ہیں اوران اثرات سے ہم فی الواقع فیض یاب ہوتے ہیں تو ہم یہاں بھی کامیاب ہیں اور وہاں بھی جزائے حسنہ کے مستحق ہیں اوراگر اس روزے اور تلاوت ِ قرآن سے ہمارے اندر تقوے اور ہدایت کے جذبے و پروان نہیں چڑھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا۔
روزےکا اصل مقصدومدعایہ ہےکہ صاحبانِ ایمان اس کےذریعہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت حاصل کرلیں تاکہ انھیں خوف و خشیتِ الہٰی نصیب ہوجائے۔
جب خوف وخشیت اوررضائےالہی ایک صاحبِ ایمان روزہ دارکامقصدِحیات بن تو اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا،سونا جاگنا،چلناپھرنا، الغرض سارا کاروبارِحیات ہی عبادت اوربندگی قرارپاتاہے ۔تب کہیں جاکراس کی ایک ایک سانس اور ایک ایک لمحہ عبادت میں شمارہوتاہے ۔جیساکہ حضرت ختمی مرتبتﷺنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا:’’۔۔۔ انفاسکم فیہ تسبیح و نومکم فیہ عبادۃ۔۔۔‘‘ اس مبارک مہینہ میں تمہاری سانسوں کو تسبیح اورتمہاری نیند کو عبادت کا ثواب دیا جاتا ہے۔
بخشش بھی، مغفرت بھی،جہنم سے بھی نجات دستِ طلب بڑھاؤ کہ رمضان آ‌گیا

تقی عباس رضوی کلکتوی
About the Author: تقی عباس رضوی کلکتوی Read More Articles by تقی عباس رضوی کلکتوی: 11 Articles with 13011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.