ماہ رمضان المبارک اور اخلاصِ نیت

الحمدللہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر برکتوں،رحمتوں ،نعمتوں ،نوازشوںاورسعادتوں کے ساتھ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے ،جس کا ایک ایک لمحہ نہایت ہی خیروبرکت کا ہے اس پورے مہینہ کا روزہ اللہ نے ہم پر فرض قرار دیاہے ،جس کی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ایک رات ایسی ہے جس کی عباد ت ہزارمہینوں کی عبادتوں سے بہتر اورافضل ہے ۔اس ماہ مبارک میں نیک اعمال اور نوافل کے ثوابات دیگر مہینوں کےبالمقابل دوچند ہوجاتےہیں ۔یہ مہینہ کثرت سے نوافل اور صدقات وخیرات کرنے کا مہینہ ہے ،اس میں دعائوں کے اہتمام اور تلاوت قرآن سے رب العالمین بہت خوش ہوتاہے اس کےایک ایک حرف پڑھنے پر دس دس نیکیاں دیتاہے اور اخلاص نیت سے روزہ رکھنے اور قیام اللیل یعنی تراویح کے اہتمام سے سابقہ گناہوں کو معاف کردیتاہے نبی کریمﷺ کی پیاری حدیث ہے کہ :’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘۔( رواہ البخاری:۳۸، مسلم:۷۶۰ )اور دوسری روایت میں ہے کہ :’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘۔(رواہ البخاری:۳۷،ومسلم:۷۵۹ ) ۔

مذکورہ دونوںحدیثیں اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایک روزہ دار اورتہجد گذارکی عبادات واعمال حسنہ کی قبولیت کے لئے ایمان اور اخلاص کی شرط لگا دی ہےکہ جو بندہ مومن وموحد ہوتے ہوئے خلوص وللہیت کے ساتھ قیام وصیام کا اہتمام کرے گا تو اس کے سابقہ بشری لغزشیں معاف کردی جائیں گی ،اس سے واضح ہوتاہے کہ اعمال کی قبولیت کے لئے ایمان اور احتساب بنیادی شرائط ہیں اور بغیر ایمان واخلاص کے بندے کا کوئی بھی عمل رب کی بارگاہ میں مقبول نہ ہوگا ،چاہے بندہ کتنا ہی بڑا نمازی ہو ،روزہ داروتہجد گذار ہو،صدقات وخیرات کرنے والانیز حج پر حج اور عمرہ پر عمرہ کرنے والاہو،وہ کثرت سے دعائوں، نوافل اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرنے والاہو ،اگر اس کے اندر ذرہ برابر بھی شرک کی غلاظت اور ریاءکاری ومکاری کا شائبہ پایا جائے گا تو اس کا وہ عمل باطل اور مردود ہوگا ۔اللہ کا فرمان ہے:﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾(البینہ : ۵)’’ان کو تو یہی حکم دیاگیا تھا کہ وہ اخلاص نیت کے ساتھ یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کریں ،اورنماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی سچا دین ہے ‘‘۔ اورسورہ حج میںبندے کے اسی عمل کو تقویٰ سے تعبیر کیاگیاہےکہ:﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾(حج :۳۷)’’اللہ تعالیٰ کو تمہارے قربانیوں کاگوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے ہیں اسے تو تمہارے دلوں کا تقویٰ اور پرہیزگاری پہنچتی ہے ‘‘۔ اورنبی کریم ﷺکی پیاری حدیث ہے :’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ ‘‘درحقیت اللہ تمہاری شکل وصورت اور مال ودولت کو نہیں دیکھتاہےبلکہ وہ تو تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتاہے ۔(متفق علیہ)

غرض یہ کہ اللہ بندوں کے اعمال اور نیت کو دیکھتاہے کہ بندہ اگرمیرے راستے میں کچھ خرچ کررہاہے ،میرے غریب ونادار بندوں کا تعاون کررہاہے کسی یتیم کی پرورش وپرداخت اور کسی بیوہ کی کفالت کررہاہے تو اس کی نیت کیسی ہے ۔ایااس کی نیت میں اخلاص ہے یا اس کے قلوب واذہان کے اندر دھوکہ دھڑی ،مکر وفریب ،چوری وبے ایمانی یا رکاری ومکاری کا جذبہ پیوست ہے ۔ اگروہ اسلام کے ان مذموم صفات سے متصف ہوگا تو یقینا اس کے تمام اعمال حسنہ رب کی بارگاہ میں مردود ہوں گے۔ اس لئے کہ وہ نیتوں کو دیکھتاہےاسی وجہ سے عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: ’’ رب عمل صغیر تکبرۃ النیۃ ورب عمل کبیر تصغر النیۃ ‘‘بہت سے چھوٹے نیک اعمال نیت کے سبب بڑے ہوجاتے ہیں اور بہت سے بڑے نیک اعمال نیت کی بنیاد پر چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ: ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتاہے‘‘۔

اوریہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم اس مقدس اور وسیع وعریض سرزمین پر رہتے ہوئےاپنا کوئی بھی عمل ظاہری وباطنی نیک وبد عمل اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے اس لئے کہ اس کا فرمان ہے کہ اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ :﴿ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ﴾(آل عمران:۲۹)اے میرے بندو!تم اپنے سینوں میں کوئی بات چھپائو یا اسے ظاہر کرو اللہ سب کچھ جانتاہے ۔ہم چاہے کوئی عمل رات کی تاریکی وتنہائی میں کریں یا دن کے اجالے میںکریں وہ ہمارے سارے اعمال سے بخوبی واقف ہے اور اس کی ذات تو اتنی اعلیٰ اورارفع ہے کہ ہمارے نگاہوں کی چوری اور سینوں کے رازوں کو بہت اچھی طرح جانتاہے اس کا فرمان ہے:﴿يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ﴾(غافر:۱۹)اور فرمایا:﴿إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾(آل عمران :۱۱۹)

قارئین کرام !ہم روزہ کس نیت اور کس مقصد سے رکھتے ہیں ،قیام اللیل کن مقاصد کے تحت پڑھتے ہیں ،فرائض ونوافل کے اہتمام کے تعلق سے ہمارے دلوں میں کیا ہے ان تمام اعمال کے متعلق وہ اچھی طرح باخبر ہے اور کتاب وسنت کے ذریعہ یہ بات بالکل واضح اور ثابت ہے کہ ہمارا بڑے سے بڑا عمل بھی ریاونمود کی وجہ سے ضائع وبرباد ہوجاتاہے اور چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی اخلاص نیت کی وجہ سے رب کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتاہے ۔خلوص نیت نہ ہونے کی وجہ سے انسان عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتاہے اور خلوص نیت کے باعث انسان پر آئی ہوئی مصیبت ٹل جاتی ہے،جیساکہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین لوگوںکورب کی بارگاہ میں پیش کیا جائےگا اور ان کے متعلق جہنم کا فیصلہ سنایا جائیگا۔ سب سے پہلے ایسے شخص کی پیشی ہو گی جوراہِ خدامیں شہید ہوا ہو گا، وہ جب اللہ کے سامنے حاضر ہو گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیںیاد دلائے گا وہ اس کو یاد آجائیں گی اس سے فرمایا جائے گا بتلاتونے ان نعمتوںکاکیا حق ادا کیا اور کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گااے پروردگارعالم میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی میں جان عزیز تک قربان کردی، اللہ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لئے جہاد کیا تھا کہ لوگ تجھے بہادرکہیں، تو دنیا میں تیری بہادری کا خوب چرچاہوا، اسی طرح ایک قاری قرآن ایک عالم دین حاضر عدالت کیاجائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گامیں نے تیرے دین کا علم حاصل کیا اور تیری کتاب کے علم کو پڑھا اورلوگوںکوپڑھایا اور یہ سب تیری رضا کے لئے کیا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے عالم، قاری اور مولانا کہلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا تھااور تونے لوگوں کو علم اس لئے سکھلایا تھا کہ لوگ تجھے علامہ کہیں ،تو تجھے دنیا میں اس کا بدلہ مل گیا ،پھر اس کے بعد ایک اور شخص کی پیشی ہوگی جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہوگا، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تونے دنیا میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا اے اللہ !میں خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لئےمال نہ خرچ کیا ہو،اللہ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تونے صرف اس لئے مال خرچ کیا تھا کہ دنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میںتیری سخاوت وفیاضی کا خوب چرچا ہوا، پھراللہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس کوبھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دو،چنانچہ فرشتےگھسیٹتے ہوئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیں گے ۔ (صحیح مسلم : کتاب الامارۃ : ۱۹۰۵)

خلوص نیت ہی کا ثمرہ تھا کہ غار والوں پر آئی ہوئی مصیبت ٹل جاتی ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی امید نہ تھی : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ’’ تم سے پہلی امتوں میں سے تین شخص ایک سفر پرروانہ ہوئےحتی کہ رات ہوگئی چنانچہ رات گزارنے کے لئے وہ ایک غارمیں داخل ہوگئے وہ اس کے اندر داخل ہو کر سو گئے، اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان پھسلی اور غار کے منہ پر آ رکی جس نے غار کا راستہ بالکل بندکردیا۔ صبح بیدار ہوکر جب ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ اس چٹان کی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی اپنی زندگی کے سب سے زیادہ اچھے اور نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے دعا کرو، تو ان میں سے ایک مسافر نے کہا اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے بہت بوڑھے عمر رسیدہ ماں باپ تھے اور میں ان سے پہلے اپنے کسی بیوی بچے، لونڈی یا غلام کو شام کا دودھ پینے کے لئے نہیں دیا کرتا تھا۔ پہلے والدین کو پلاتا پھر دوسروں کو، یہ میرا روز کا معمول تھا۔ اتفاق سے ایک دن میں چارے کی تلاش میں بہت دور نکل گیا اور گھر اتنی دیر سے واپس آیاکہ میرےوالدین انتظارکرتے کرتےسو گئے۔ میں ان کے لئے بکریوںکا دودھ نکال کر لایاتو دیکھا کہ دونوں گہری نیند میں سو رہے ہیں۔ میں نے ان کے آرام کا خیال کرتے ہوئے نہ ان کوجگانا پسند کیا اور نہ ہی ان سے پہلے بیوی بچوں وغیرہ کو دودھ پلانا گوارا کیا اور رات بھر ان کے سرہانے دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لئے کھڑا رہا اور ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور بچے رات بھر بھوک سے میرے قدموں میںپڑے بلکتے رہے۔ بہرحال جب وہ بیدار ہو گئے اور انہوں نے اپنے حصے کا دودھ پی لیا پھر ہم سب نے پیا۔ اے اللہ! اگر میں نے ماں باپ کا یہ احترام اور خدمت تیری رضا کے لئے کیاہو تو اس نیک عمل کے واسطے سے ہم سب کو اس چٹان کی مصیبت سے نجات دیدے،اس دعا کے بعد چٹان تھوڑی سی ہٹ گئی مگر ابھی نکل نہیں سکتے تھے۔ دوسرے مسافر نے کہا اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے چچا کی ایک خوبصورت لڑکی تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ دوسری روایت میں ہے کہ مجھے اس لڑکی سے اس سے بھی زیادہ شدید محبت تھی جتنی کسی مرد کو ایک عورت سے ہوتی ہے۔ میں نے اس کو اپنی ہوس کا شکار بنانے کے لئے کافی ڈورے ڈالےمگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے ایک موقع پر وہ خاندان کے ساتھ شدید ترین قحط میں مبتلا ہو گئی۔ فقروفاقہ سے مجبور ہو کر وہ میرے پاس مدد مانگنے آئی تو میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ مجھے تنہائی میں اپنے نفس پر قدرت دے، مجبوراً وہ اس پر آمادہ ہو گئی۔ جب میں نے اس پر قابو پا لیا۔ ایک روایت کے مطابق جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے بڑی عاجزی سے کہا اے اللہ کے بندے اپنے پروردگار سے ڈر، حق کے بغیر اس مہر کو مت توڑ، یہ امانت ہے الہیٰ! تیرے خوف سے میں فوراً ہٹ گیا۔ حالانکہ مجھے اس سے بے انتہا محبت تھی،میںاس پر قابو بھی پا چکا تھا اور وہ سونے کے سکے جو میں نے اس کو دیئے تھے اسی کے پاس چھوڑ دیا۔ اےاللہ! اگر میں نے یہ نیک کام صرف تیری رضا کے لئے کیا ہو توتو اس مصیبت کو جس میں ہم گرفتار ہیں دور کر دے۔ اس دعا کے بعد چٹان اور تھوڑی سی ہٹ گئی مگر پھر بھی وہ غار سے نہیں نکل سکتے تھے۔ تیسرے مسافر نے دعاکی یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک بار چند مزدوروں سے کام کرایا اور کام ختم ہونے کے بعد میں نے ان سب کی اجرت بھی دے دی۔ ایک مزدور نے کسی وجہ سے اجرت نہیں لی اور چلا گیا تو میں نے اس کی مزدوری کی رقم کو کاروبار میں لگا دیا۔ حتی اس سے بہت سارا مال بن گیا۔ اچانک وہ مزدور ایک دن آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے بندے! میری اجرت مجھے دے دے۔ میں نے کہا یہ اونٹ، گائیں، بکریاں اور لونڈی غلام سب تیرے ہیں آئو اور شوق سے لے جائو۔ مزدور نے کہا اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق مت کر، میں نے کہا میں تمہارے ساتھ کچھ بھی مذاق نہیںکر رہا ہوں۔ یہ تمام چیزیں درحقیقت تمہاری اجرت کا نتیجہ ہے۔ اس نے وہ سب مویشی اور لونڈی غلام مجھ سے لے لئے اور سب کو ہانکتاہوا لے گیا اور کچھ نہیں چھوڑا۔ اے اللہ! اگر یہ نیک کام میں نے صرف تیرے لئے کیا ہے تو اس کے طفیل اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ چٹان غار کے منہ سے بالکل ہٹ گئی اور تینوں باہر نکل آئے۔(بخاری:۳۴۶۵،مسلم:۲۷۴۳ )

یہ حدیث مبارکہ ہمیں اس بات کی تعلیم دے رہی ہے کہ لوگو!نماز،روزہ حج عمرہ ،صدقات وخیرات ہر معاملہ میں اپنے نیتوں کو خالص کرو اور اپنے پروردگارسے ڈرو ۔ وہی ہماری دعائوں کو سننے والا اور مراد وںکو پوری کرنے والاہے ،اس کے علاوہ ہمارا کوئی پرسان حال نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں ہوگا۔

لوگو!اللہ نے ہمیں اپنےاس خیروبرکت والے مہینے سے نوازاہے جس میں نبی کا وطیرہ اور صحابہ کا شیوہ یہ تھا کہ وہ ان مبارک ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہوئےکثرت سےنوافل پڑھتے ،قرآن کی تلاوت کرتے اور دل کھول کر اللہ کی راہ میں صدقات وخیرات کیا کرتے تھے ۔اور رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ساتھ ساتھ پوری رات شب بیداری کرکے اور لیلۃ القدر کو تلا ش کیا کرتے تھے۔

آج ہمیں بھی نبی اور صحابہ کے انہی سیرت اور شفاف تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے اور خصوصا اس ماہ مبارک میں اخلاص کے ساتھ کثرت سے اعمال حسنہ کرکے اپنے پروردگار کو راضی وخوش کرنے کی ضرورت ہے ،ورنہ ہمارا انجام نہایت ہی بھیانک ہوگا ،ہم یہاں بھی ذلیل ورسوا ہوں گے اور کل بروز قیامت بھی ہمارا نامہ اعمال ہمارے بائیں ہاتھ میں دیاجائے گا اور ذلت ورسوائی ہمار امقدر اور جہنم ہمارا ٹھکانہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ رمضان المبارک کی برکتوں اور شب قدر کی سعادتوں سے بدقسمت ہی محروم ہوسکتاہے ۔
اللہ ہمیں اس ماہِ مبارک اخلاص ِنیت سے کثرت سے نیک اعمال کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین!

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 148741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.