کتابوں میں پڑھا ہے کہ چار موسم ہوتے ہیں ۔ گرما ،سرما ،
بہار اور خزاں۔انسان کی زندگی میں عموماً یہی چار موسم آتے ہیں مگر ہم نے
ایک موسم برسات کانام بھی سنا ہے جو ساون بھادوں کے مہینوں کا کہا جاتا ہے
۔ ان کے علاوہ ایک موسم اور بھی آتا ہے جس کا سب کو معلوم ہوتا ہے مگر اس
کا ذکر کبھی کبھار دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کیا جاتا ہے اور وہ موسم ہے
’’بے وفائی کا موسم‘‘۔ ان موسموں کا ذکر زیادہ تر دل پھینک عاشقوں سے سنا
جاتا ہے یا پھران سیاستدانوں سے سنا جاتا ہے جن کی پارٹی چھوڑ کر دوسری
پارٹی جوائن کی جاتی ہیں۔
سیاستدانوں میں اس موسم کا ویسے تو کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتاپھر بھی ہر
الیکشن سے پہلے یہ موسم کافی عروج پر ہوتا ہے جیسا کہ آجکل ۔ موجودہ موسم
کے بارے میں اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کونسا موسم آرہا ہے تو وہ کہتا
ہے کہ موسم گرما آرہا ہے اور اگرسیاستدانوں سے پوچھو تو وہ بولیں گے کہ
آجکل پنچھیوں کے اڑنے کا موسم آرہا ہے یا بے وفائی کا موسم آرہا ہے۔ایک
سوال جو اکثر عوام کے ذہین میں گردش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت تو تبدیل
ہوتی رہتی ہے مگر چہرے تبدیل نہیں ہوتے ۔ سیاستدان اتنے چالاک کے کہ وہ جب
اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آتی ہے تو وہ فوراً چھلانگ لگا اس کشتی میں
سوار ہوجاتے ہیں جس کے ڈوبنے کے چانس کم ہوں یا جو کنارے کے قریب ہوتی ہے۔
آجکل روزانہ کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی امیدوار ایم این اے یا ایم پی اے
پارٹی تبدیل کرتا نظر آرہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے امیدواروں کو
پارٹی تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرتی ہے؟انکے پارٹی تبدیل کرنے سے حلقے
کی عوام کو کیا فائدہ ہو گا؟جب اقتدار میں تھے توکیا انہوں نے اپنے حلقے
میں کیا کام کرایا؟اگر واقعی انہوں نے کام کرایا ہے تو پھرانہیں پارٹی
بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اگر آپ نے اچھا کام کیا ہوتا تو پھر آپ کسی
بھی پارٹی سے الیکشن لڑو آپ کو کوئی نہیں شکست دے سکتا۔یہ وہ سوال ہیں جو
حلقے کی عوام کو اپنے امیدواروں سے پوچھنا چاہئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے
امیدواروں کواپنے حلقے کی عوام سے نہیں بلکہ اپنے اقتدارمیں رہنے کی ضرورت
ہوتی ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ حکومتی پارٹی کے لوگ چھتریاں بدل رہے ہیں۔کوئی جنوبی
پنجاب کو ایشو بنا کر جارہا ہے تو کوئی ختم نبوت کے نام پر۔ن لیگ کے علاوہ
دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی ادھر اُدھر ہورہے ہیں کیونکہ ایسے لوگ صرف اقتدار
کا مزا لینا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کو کچھ بھی کرنا پڑا وہ کرنے کو تیار
ہیں۔ کسی بھی پارٹی میں جانا پڑا وہ جانے کو تیار ہیں۔ کل تک جس پارٹی کے
بارے میں برا بھلا کہا آج اسی کے گن گائے جارہے ہیں۔جو لیڈر کل تک اس
امیدوار کو برا بھلا کہہ رہا تھا آ ج اپنے مفاد کے لیے اس کو اپنے ساتھ
بیٹھا کر پریس کانفرنس کررہے ہیں۔اس میں قصور ان امیدواروں کانہیں جو
’’لوٹا کریسی ‘‘ کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ ان سیاسی پارٹیوں کے قائدین کا جو
آنکھیں بند کرکے ان کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیتے ہیں۔ کیا یہی ہماری
سیاست ہے؟ کیا عوام یہی چاہتی ہے کہ ووٹ ایسے لوگوں کو دیں جواپنے مفاد کے
لیے اپنے ووٹر کی عزت کو نیلام کردیں؟
جیسے جیسے حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے ہو ایسے ایسے سیاسی میدان میں ہلچل
تیز سے تیز ہوتی جارہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے
ہر طرح کے داؤ پیچ کھیل رہی ہیں۔ہربار کی طرح وہ منشور تیار کررہے ہیں جس
پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ عوام کو اپنی طرف جھکانے کے لیے ایک بار پھر نئے
نئے منصوبوں کی نوید سنائی جائے گی۔ ترقیاتی پیکیج سے عوام کا دل جیتنے کی
کوشش کی جائے گی۔سیاسی پارٹیوں کی طرف سے منشور پیش کرنا ان کا فرض ہے مگر
ان پر عمل بھی کیا جائے تب نا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام سیاستدان ملک سے محبت کرتے ہیں؟کیا یہ
چاہتے ہیں کہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے تو پھر عوامی منصوبوں کو پایہ
تکمیل کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ کیوں یہ عارضی کام کرتے ہیں ؟کروڑوں روپے
خرچ کرکے پروجیکٹ تکمیل تک پہنچتا ہے اور پھر چند مہینوں یا سالوں میں وہ
فلاپ ہوجاتا ہے۔کتنے منصوبے تو درمیان میں ہی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ کیا اس
منصوبے پر لگا پیسہ حرام کا تھا؟ اس منصوبے کی ناکامی کا جو ذمہ دار ہے اس
کو کیف کردار تک کیوں نہیں پہنچایاجاتا؟پاکستان میں ایسے بہت سے منصوبے ہیں
جن کی مد میں بیرون سے قرضہ لیا گیا ہے اور وہ منصوبہ درمیان میں چھوڑ دیا
گیا ہے ۔
یہاں ایک بات عوام سے ضرور کہوں گا کہ اگر عوام واقعی اپنے ملک سے محبت
کرتی ہے اور وہ سنجیدگی سے اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو
پھر ایک بار اپنے سیاسی رہنماؤں سے ضرور پوچھے کہ جو پچھلے الیکشن میں
منشور پیش کیے ان میں کتنے منصوبوں پر عمل کیاگیا؟ یہاں ووٹ کو عزت دینے کی
بات کی جاتی ہے مگر ووٹر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ووٹ کو عزت دینے والوں سے
پوچھا جائے کہ جب ووٹر ہی نہیں ہوگا تو ووٹ کون دے گا؟ عزت دینی ہے تو ووٹر
کو دوجن کے پیچھے الیکشن کے دنوں میں تم مارے مارے پھرتے ہو اور بعد میں اس
ووٹر کا کام کرنا تو ایک طرف ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔اگر آپ کو اپنے ووٹر
سے اتنا پیار ہے تو پھر ان کے فائدے کا سوچو نہ کہ اپنے مفاد کے لیے اس کے
ووٹ کو بیچ ڈالو۔
خدارا ! یاد رکھو یہ ملک اسلام کے نا م پرقائم ہوا ہے اور ہمارا مذہب اسلام
جس طرح کی سیاست کا درس دیتا اس پر عمل کرو۔ لوٹ مار کی سیاست کا ہمارے
مذہب سے کوئی واسطہ نہیں مگر کیا کریں ہماری سیاسی پارٹیوں کا کوئی بھی
لیڈر ایسا نہیں جس کی ذات پر کرپشن کا دھبہ نہ ہو۔ اب بھی وقت ہے سنبھال
جاؤ اور اپنے ملک کا خیال کرو ورنہ دشمن تو اسکے ٹکڑے کرنے کے در پر ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے سیاستدانوں کو ہدایت دے اور ہمارے ووٹر ایسے
صالح قیادت کا انتخاب کریں ملک اور اسلام کے خیر خواہ ہوں۔
|