ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اے مسلمانو! تم دنیا میں بہترین اُمت ہو۔ تمھارا کام یہ ہے کہ تم نیکی
کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان لاتے ہو‘‘۔
اس آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے مومن کی زندگی کا لائحہ عمل بتا دیا ہے۔ وہ
لائحہ عمل، نیکی کا حکم کرنا اور بدی سے روکنا ہے۔ یعنی گلشنِ حیات میں
جتنے کانٹے ہیں انھیں ایک ایک کر کے چننا اور ان کی جگہ نیکی کے پھول
کھلانا ہے۔ مومن دنیا میں اﷲ کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ اسے ساری دنیا سے فساد
کا خاتمہ کرنا ہے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ اسے پہلی
اپنی زندگی کو احکام ِ الہٰی سے مزّین کرنا ہے۔
غلط رسوم و رواج کو جڑ سے کاٹ کر قلع قمع کرنا ہے۔ دنیا کے غلط چلن کو دیس
نکالا دینا ہے اور اپنی زندگی اور اپنے گھر کو ’’اسلامی گھر‘‘ کا بہترین
نمونہ بنا کر دم لینا ہے۔ مومن تو وہ ہے جو اتفاق و اتحاد کے ساتھ ساری
اُمت کو ایسا زبردست گروہ بنا دے جو شیاطین کو عبرت ناک شکست دینے میں
کامیاب ہو سکے اور دنیا سے برائی کا نام و نشان مٹا دے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے دنیا میں دو راستے بتائے ہیں، ایک نیکی کا راستہ
اور دوسرا بدی کا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سے راستے کا انتخاب
کرتا ہے۔ کیونکہ انسان اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا ہے تو اسے یہ
اختیار دیا گیا ہے کہ کائنات پر غور و فکر کرے اور پھر کوئی راستہ اختیار
کرے۔نیکی کے راستوں کے مسافر تمام کٹھنائیوں کو خوشی سے عبور کر جاتے ہیں
جبکہ بدی کے راستے پر چلنے والے ساری عمر اپنی قسمت پر شاکی ہی رہتے ہیں
اور اﷲ کے شکر گزار بھی نہیں ہوتے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لیے بہت سی خوشیاں
، مسرتیں ، برکتیں اور نیک عادات کا تحفہ لے کر آتا ہے۔ ہم اپنی بہت سی بری
عادتوں کو صرف اسی وجہ سے ترک کر دیتے ہیں کہ ہم روزہ کی حالت میں کسی بھی
انسان کو دکھ دینے اور اس کی دل آزاری سے باز رہتے ہیں۔ریاکاری اور دکھاوے
سے دور ہو جاتے ہیں کیونکہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسے آپ کسی کو انسان کو
دکھا نہیں سکتے، یہ خالص ایسا عمل ہے جو صرف اور صرف اﷲ کے لیے ہے۔ اور اس
عمل کو مکمل ادا کرنے کے لیے انسان ہر وہ عادت اپناتا ہے جو اس کو اﷲ کے
نزدیک اچھا اور نیک انسان ثابت کرے۔ مثلاً بھوک برداشت کرنے سے ان لوگوں کا
احساس دل میں جاگتا ہے جنہیں تین وقت کا کھانا میسر نہیں ۔ اسی طرح اپنے
نفس پر قابو پانے کی تربیت بھی ہمیں روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح
صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک انسان اپنی بھوک ، پیاس اور نفسانی
خواہشات کی نفی کرتا ہے تو اُس کے قلب و نظر اورفکر و احساس پر اﷲ تعالیٰ
کی حاکمیت غالب آجاتی ہے ۔ اﷲ کی بندگی کا احساس دوگنا ہو جاتا ہے۔
روزہ رکھنے سے انسان میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور اچھا معاشرہ
تشکیل پاتا ہے جس کے افراد اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر ادا
کرتے ہیں۔
رمضان المبارک میں لوگ فطر کے علاوہ زکوۃ کی ادائیگی اور صدقات کاخصوصی
اہتمام کرتے ہیں۔ ایک طرف دنیا کی محبت دل سے نکلتی ہے تو دوسری طرف مال
پاک ہوتا ہے۔ غرباء اور مساکین میں یہ رقم پہنچتی ہے توان کی مالی اعانت
بھی ہوتی ہے اور معاشرے میں اس طرح کی صورتحال میں معاشی عدم توازن بھی
پیدا نہیں ہوتا۔
اس ماہ میں تمام اُمتِ مسلمہ اتفاق و اتحاد کا جوعملی نمونہ پیش کرتی ہے ،اگر
پورا سال ہم انہی اصولوں پر کاربند رہیں تو بہت سے مسائل اور مشکلات کا
سامنا کرنے سے یقیناً بچ سکتے ہیں۔رمضان المبارک میں روزہ کی حالت میں ان
تمام عملی کاموں کو کیا جاتا ہے جو ایک مومن پر فرض ہیں ۔ مگر جب رمضا ن
اپنے اختتام پر پہنچے تو ہم اپنی وہی پرانی روش اختیار کر لیتے ہیں۔ آخر
کیوں ہم صرف اسی ماہ میں اخلاقیات کی مثال بننا چاہتے ہیں؟ باقی پورا سال
بھی تو اﷲ تعالیٰ ہماری دعائیں اور عبادتیں قبول کرتا ہے۔ پھر ہم ان عادات
و اطوار کو مستقل طور پر کیوں نہیں اپنا لیتے جو ہمیں تقویٰ کے زیادہ قریب
کرتی ہیں۔روزہ ہم میں نسلی اور طبقاتی تفاخر ختم کرنے کے سلسلے میں اہم
کردار ادا کرتا ہے۔ جب امیر و غریب، افطاری کے لیے ایک دسترخوان پر بیٹھتے
ہیں تو یہ انسان کے بنائے ہوئے تمام درجے ختم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اﷲ کے
نزدیک تو تمام انسان برابر ہیں۔ اگر کوئی اعلیٰ و ارفع مقام پر مرتّب ہے تو
صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔
افسوس صد افسوس! ہم لوگوں میں اخلاق اور احساسات کے جذبے اس ایک ماہ میں ہی
موجزن ہوتے ہیں ، بلکہ عبادت و ریاضت بھی ہم ذوق و شوق سے صرف اسی ماہ میں
کرتے ہیں۔ سارا سال مسجدیں ویراں ہوتی ہیں اور اس ایک ماہ میں آباد ہوتی
ہیں۔ یہ تو ہمارے رویّوں اور عمل کا تضاد ہے۔ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ شراب
پینا اسلام میں حرام ہے مگر غصہ پینا حلال ہے یہ ہم اکثر بُھلا دیتے ہیں۔
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کونہ ہاتھ سے اور نہ ہی زبان سے کوئی
تکلیف پہنچنی چاہیے۔ اگر ہم خوف ِ خدا دل میں رکھیں تو ایسی کوئی بھی حرکت
کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لیں کہ اﷲ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے
اور ہم سات پردوں میں چھپ کر بھی کوئی غلط عمل کریں گے تو اُس کی پہنچ سے
نہیں نکل سکتے۔ ہمارے ہر ہر عمل پر اﷲ کی گہری نظر ہے اور ان اعمال کا بدلہ
صرف اُسی نے دینا ہے۔
ہم گھر میں ہو ں یا کہیں باہر، یا پھراپنے دفاترمیں ہوں ہمیں روزہ دار وں
کا خیال رکھناچاہیے۔ جو لوگ بیمار ہوں یا روزہ نہ رکھ سکتے ہوں انھیں چاہیے
کہ ان کے سامنے کھانے پینے سے گریز کریں جو روزہ سے ہوں۔ عمومی طور پر اس
امر کا خیال نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے دفاتر کے ماحول میں اس بات کو مدنظر
رکھنا بہت ضروری ہے۔ جب ہمیں اپنی اخلاقی صفیں درست کرنے کا یہ با برکت
مہینہ میسر آتا ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اُٹھائیں؟ اس ایک ماہ کی تربیت
کو ہم پورے سال کے لیے کیوں نہ اپنائیں؟ ایک اور رویہ جو دیکھنے میں بہت
آیا ہے کہ غیر اسلامی تہواروں پر تو بہت سی ڈسکاؤنٹ آفرز اور لوٹ سیل لگا
دی جاتی ہے مگر رمضان المبارک میں اشیاء خریداری کی قیمتیں کم ہونے کے
بجائے بڑھا دی جاتی ہیں۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ جب غیر مسلم اپنے تہواروں
کی مناسبت سے خوشی کا اظہار کرتے اور ہر ایک کو خوش ہونے کا موقع فراہم
کرتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیسے اور کس نام کے مسلمان ہیں؟
ہمیں اپنی ہر عادت اور عمل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس ماہ مبارک کی
برکتوں سے حظ اُٹھایئے اور اپنی اخلاقیات کا از سر نو جائزہ لیں۔ ہمارے یہ
منافقانہ عمل اور اخلاقِ رذیلہ ہمیں پہلے ہی لے ڈوبے ہیں اور مزید ہمیں
خسارہ سے دو چار کر سکتے ہیں تو خدارا ، ان اقدامات سے باز آجائیں اور اپنی
زندگی کو اسوۂ رسول کی روشنی میں استوار کیجیے۔ قرآنی احکامات کی پیروی سے
دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اور ہم اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہو کر
سارے جہان کے لیے خضرِ طریقت اور پیرِ حقیقت بن سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے
دلوں کو منور کر دے اور اس ماہ ِ مبارک کی برکات سے ہم سب کو بہرہ ور کر دے۔
(آمین) |