چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرض معافی کیس کی سماعت کے
دوران ایک ہفتے میں قرض معافی کی سمری بناکر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا
ہے کہ سیاسی بنیادوں پر معاف کیے گئے قرضے واپس کروائیں گے۔ اگر قرضے واپس
نہیں کیے تو مقروضوں کے صنعتی یونٹس ضبط کرلیے جائیں گے، رقم نہیں تو اثاثہ
ریکور کرلیں گے۔ جمعرات کوسپریم کورٹ میں قرض معافی کیس کی سماعت ہوئی، جس
میں درخواست گزار نے کہا کہ نواز شریف، بے نظیر بھٹو، جونیجو، یوسف رضا
گیلانی، چوہدری برادران نے بھی قرضے معاف کروائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 54
ارب روپے کے قرضے معاف کروائے گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 223 قرضہ
معافی کے مقدمات مشکوک ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے گئے جسٹس ریٹائرڈ
جمشید علی کی سربراہی میں کمیشن نے ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کر دی۔
سٹیٹ بنک نے 1971ء سے 2009ء کے عرصہ میں 281 ارب روپے کا قرضہ معافی کا
سپریم کورٹ میں انکشاف کیا تھا، لیکن کمیشن نے صرف 740 مختلف کیسز کا جائزہ
لیا، لیکن کسی ایک کیس میں بھی سیاسی بنیادوں پر قرضہ معافی کا ثبوت حاصل
نہ کر سکا۔ رپورٹ کے مطابق بینکوں اور ادروں نے با اثر افراد اور
سیاستدانوں سے متعلق قرضہ معافی کی معلومات چھپا لیں۔ رپورٹ کے مطابق
بینکرز سیاستدانوں سے ڈرتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 1971 سے
1991 تک 2 ارب 16 کروڑ کے قرضے حاصل کیے گئے اور 2 ارب 38 کروڑ کے قرضے
معاف کرائے گئے، جبکہ 1992 سے 2009 کے دوران 84 ارب 62 کروڑ روپے سے زائد
رقم کے قرضے معاف کیے گئے۔ بنکوں اور مالیاتی اداروں نے قرضہ معافی کی صرف
کاروباری وجوہات بیان کیں۔ سیاسی اور دیگر بنیادوں پر کسی قرضہ معافی کا
ذکر نہیں کیا گیا۔ قرضے معاف کرانے والے ملزمان نے دستاویزات پر فنگر پرنٹ
بھی نہیں چھوڑے۔ کمیشن نے قرضہ معافی کے 222 کیسز پر مزید کارروائی کی
سفارش کی ہے۔ ان کیسز میں 35 ارب روپے کی رقم معاف کی گئی۔
پاکستان کے بڑے سیاسی گھرانوں اور کاروباری اداروں کے بینک قرضوں کی معافی
کی کہانی تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار سے
سیاسی مصلحتوں کے تحت مخصوص افراد، گھرانوں یا کاروباری اداروں کے قرضوں کی
معافی کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار
میں بھی سیاسی نوازشوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے تحت 1999ء سے لے کر
2008ء کے درمیانی عرصے میں 125 ارب روپے کے کمرشل قرضے معاف کیے گئے، جن
میں سیاستدان، جرنیل، صنعتکار ، صحافی اور میڈیا گروپ بھی شامل تھے۔ قرضوں
کی بڑی تعداد کا تعلق 1980ء اور 1990ء کی دہائی سے تھا اور ہزاروں کیس
عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کے باعث قرضوں کا سود اور اصل زر بڑھتا گیا، جس
کے باعث بینکوں کی نجکاری کے دوران بھی مسائل پیش آئے۔ کئی قرضے ناقابل
وصولی ہوئے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک خصوصی حکمنامے کے ذریعے قومی
بینکوں کو دس سال سے پرانے قرضے معاف کرنے یا ان کا تصفیہ جلد از جلد کرنے
کی ہدایت کی۔ پاکستان میں انتہائی غربت کی سطح کے نیچے رہنے والوں کی ایک
بڑی تعداد رہتی ہے جن کے لیے ایک وقت کی روٹی کا حصول کسی بڑے امتحان سے کم
نہیں۔ ایسے میں ایک مخصوص شرح تک قرضوں کی معافی معمول کی بات ہے ۔ بہت سے
قرضے سیاسی مصالحت کے باعث لیے جاتے ہیں اور بعد میں واپسی ممکن نہیں ہوتی
تو یہ عام ڈیفالٹ ہے۔ قرضوں اور جرائم کی معافی سے عام پاکستانیوں سے زیادہ
حکمران طبقہ مستفید ہوتا ہے اور یہ کہ اربوں روپے کے قرضے سیاسی مصلحت اور
اثر و نفوذ کے تحت جاری ہوتے ہیں اور اسی انداز میں معاف بھی ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں بااثر افراد حکومت کی ملی بھگت سے بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لیتے
ہیں اور پھر انہیں معاف کرا لیتے ہیں۔ غریب عوام کا پیسہ سیاست دانوں اور
رئیسوں کو منتقل کرنے کا یہ نہایت ہی بھونڈا طریقہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1971ء سے 1991ء تک2.3 ارب روپے معاف کروائے گئے۔ 1991ء سے
2009ء تک84.6 ارب روپے معاف کروائے گئے اور 2009ء سے 2015ء تک345.4 ارب
روپے معاف کروائے گے۔ جب وفاقی حکومت نے 1990ء سے 2015ء تک کے قرضے معاف
کروانے والوں کی فہرست ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کی تو معلوم ہوا کہ
پچھلے 25 سالوں میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4 کھرب، 30 ارب 6
کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں 19 کمپنیاں یا افراد ایسے ہیں جنہوں
نے ایک ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ معاف کروایا۔قرضے معاف کروانے والوں میں
سیاستدان، کاروباری افراد اور فوجی جنرل تک شامل ہیں۔ یہ شاید ہمارے مجموعی
قومی رجحان اورسوچ کی غمازی کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہماری اشرافیہ کے پیشِ
نظر صرف اور صرف اپنا مفاد ہی ہوتا ہے اور ان سب کا گٹھ جوڑ ہماری معشیت کی
جڑیں دیمک کی طرح کھوکھلی کرنے سے کبھی بھی نہیں چوکتا ہے۔ قرضے معاف
کروانے والوں اور کرنے والوں میں سب سے اہم کردار ہمارے سیاستدانوں کا ہے
جو کہ جمہوریت کے نام پر نہ صرف ہمارے اوپر خاندانی آمریت مسلط کیے ہوئے
ہیں، بلکہ بیوروکریسی اور کاروباری افراد کے کچھ لوگوں کے اکٹھ سے ہمارے
خون پسینے اور محنت کی کمائی پر آئے روز شب خون بھی مارتے رہتے ہیں اور اس
تمام تر استحصال کے باوجود ہر بار برسر اقتدار بھی آجاتے ہیں۔ قرضے معاف
کروانے والوں کی لسٹ دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک ایسا
ملک جو ہرسال اپنی ضرورت کے لیے عالمی اداروں کے سامنے دامن پھیلائے نظر
آتا ہے اور مہنگے ترین قرضے حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے، وہی ملک
اپنے ان امیروں کو کس قدر فیاضی سے اتنے بڑے حجم کے قرضے بیک جنبش قلم معاف
کرنے کے حکم صادر فرما دیتا ہے۔ عام طور پر بینک چند ہزارروپے کا قرض معاف
کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ جو لوگ قرض پر گاڑیاں لیتے ہیں، وہ
اگر ایک دو قسطیں ڈیفالٹ کر جائیں تو بینکوں سے وابستہ لوگ اِن کی گاڑیوں
پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ دریا دلی کہ کھربوں روپے کے قرض
ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود، ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ سب کے
لیے برابر نہیں۔ صد افسوس پاکستان میں بڑے مگرمچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ
نکلتے ہیں۔ بظاہر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، مگر عملاً ایسا نہیں۔ وطن
عزیز کے آئین کی شقN 63۔(1) کے مطابق 20 لاکھ روپے سے زائد کا قرضہ معاف
کروانے والا اور اس کے افراد خانہ رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوسکتے۔ اس واضح
پابندی کے باوجود نجانے ہمارے سیاست دانوں کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے
جس کی دلفریب مہک کا اثرنہ تو ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پرکھ کرنے والے
ریٹرنگ افسران پر ہوتا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی سکرونٹی انہیں قرضہ
معاف کروانے کی بنا پر نااہلی کا آئینہ دکھا پاتی ہے۔ شاید یہی وجہ سے کہ
ہمارے بہت سے سیاست دان 20 لاکھ سے زائد کا قرضہ معاف کروانے اور آئین کے
مطابق نااہلی کے حقدار ہونے کے باجود ہر بار اسمبلی ممبر منتخب ہو کر عوام
کی قسمت کے فیصلے اور نئے قوانین بنانے میں جت جاتے ہیں۔
|