*مہا کرپشن سے بھرپور اورینج لائن پراجیکٹ کی ابھی تک
فنشنگ شروع نہیں ھوسکی۔۔ مثال کے طور پر ایک مکان جب بنتاھے جب اسکا لینٹر
ڈال دیا جاتا ھے تو چار دن کےبعد اسکی دوسری منزل کی دیواریں تعمیر کرنا
شروع کردی جاتی ہیں اور دس دن بعد پہلی منزل کے لینٹر کی شٹرنگ اتار دی
جاتی ھےاور دوسری منزل پر لینٹر ڈال دیا جاتا ھے۔۔ یوں مکان کا ڈھانچہ مکمل
ھوجاتاھے اسے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مکان تیار ھوچکا جبکہ یہ ڈھانچہ ھوتاھے
اور ڈھانچے تک اخراجات اور وقت زیادہ نہیں لگتا۔۔ اصل اخراجات اسوقت شروع
ھوتے ہیں جب فنشنگ شروع ھوتی ھے جو نہایت سست ھوتی ھے اس سستی میں ہی
خوبصورتی پیداھوتی ھے۔۔ مکان کا پلستر، وائرنگ، کھڑکیاں دروازے، مین گیٹ،
انڈرگراؤنڈ صاف پانی کی ترسیل، ڈرین سسٹم، سوئی گیس، بجلی کنکشن و سارے گھر
میں ھرجگہ اسکی پہنچ کرانا، اٹیچ باتھ میں لگنے والے تمام ضروری لوازمات،
چھت پر پانی کی ٹنکی، فرنیچر، باورچی خانے کی تیاری، پنکھے، پینٹ کرانا حتی
کہ وائی فائی کنکشن و ٹی وی کیبل تک لگوانا یالینڈ لائن لگوانا اور جب مکان
اس حد تک مکمل ھوجائے تب کہہ سکتے ہیں کہ اب اس مکان میں رھائش اختیار کی
جاسکتی ھے۔۔ اسی طرح اورینج لائن پراجیکٹ کا تو ابھی تک صرف ڈھانچہ ہی تیار
ھوا ھے۔۔ اگر آپ 27 کلومیٹر طویل اس پراجیکٹ کے ھراسٹیشن کا دورہ کریں تب
آپ خود دیکھ لیں گے کہ منصوبہ ابھی 45 فیصد نامکمل ھے۔۔ کسی ایک جگہ 6
کلومیٹر کےٹکڑے کو مکمل کرکے چند ڈبے رکھ کر علاتی چلادینا عوام کو بیوقوف
بنانے کے مترادف ھے کیونکہ یہ ٹرین ابھی فنکشنل نہیں ھوئی بلکہ عوام کو
ورغلانے کیلئے تھوڑے فاصلےتک چلائی گئی اور اسکی مشہوری اسطرح سے کی کی گئی
جیسے یہ مکمل ھوگئی ھے۔۔ جبکہ ایسا نہیں ھے۔۔ ھر اسٹیشن کی 75 سیڑھیاں ہیں
جو کسی بھی نجی عمارت میں چوتھی منزل تک چلی جاتی ھیں ۔۔ اتنی سیڑھیاں پر
نہ کوئی عمررسیدہ فرد چڑھ سکتاھے نہ حاملہ عورت اور نہ بچے۔۔ یہ عجیب
پراجیکٹ ھے جو اتنا اونچا بنایاگیا کہ گنجان آبادیوں کے گھروں کی پرائیویسی
تک ختم کردی گئی۔۔ اس پر ابھی 27 کلومیٹر دو طرفہ لائن بچھےگی۔* *ھراسٹیشن
پر ٹکٹ سیکشن، مسافروں کیلئے انتظار گاہ اور اس اورینج ٹرین کا ھر اسٹیشن
پر سٹاف کا بھرتی کیاجانا ضرورت ھے جبکہ اسے لاھور کے جن جن گرڈ اسٹیشنوں
سے بجلی کی ترسیل برائے اورینج ترین اسٹیشنز کو دی جانی ھے وہ کام بھی
ادھورا ھے۔۔ سارے پراجیکٹ کے ھر اسٹیشن پر بھاری جنریٹرز کی بھی ضرورت ھے
علاوہ مکمل سٹاف، ڈرائیورز، ٹیکنیشنز سمیت ایک بڑے عملے کی ضرورت درکار
ھےاور اس پراجیکٹ کے ھر سیکشن کی گاھےبگاھے مینٹنس کیلئے بھی مین پاور کی
ضرورت ھے۔۔ صرف ستون دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ پراجیکٹ مکمل ھوگیا۔۔ سراسر
غلط ھے اور ایک اندازے کےمطابق یہ پراجیکٹ 2019ء کےآخر میں مکمل ھوگا اور
اسوقت ن لیگ کی حکومت نہیں ھوگی بلکہ ن لیگ کا صفایا ھوچکاھوگا۔ 31 مئی
کےبعد خوف کی فضا کےخاتمے کےبعد سب سے پہلے سارے پنجاب کے بلدیاتی منتخب
چیئرمین سےلیکر کونسلر تک نیوٹرل ھوکر ن لیگ سے علیحدہ ھوجائیں گے اور اگر
وقت پر الیکشن نہ ھوئے جسکے لیٹ ھونے کی کئی دلیلیں ہیں یہ تمام بلدیاتی
منتخب اراکین اپنی وفاداریاں ھوا کے رخ کیجانب کرلیں گے۔۔* *شہبازشریف نے
10 سال تک نہ پارٹی تنظیم کو دیکھا اور نہ صوبائی اجلاس بلایا نہ ضلعی
دفاتر گئے نہ میٹنگ کال کی نہ کسی منتخب وزیر سے تعلق میں رھے نہ کسی ایم
این اے نہ ایم پی اے کو کچھ سمجھا۔۔ سمجھا توصرف پولیس افسران و ڈی سی اوز
کو۔۔ سارے پنجاب کو ویڈیو لنک سے کنٹرول ویڈیو گیم کھیل سمجھ کر کیا اور 10
سال میں ایک بار بھی پنجاب سول سیکرٹریٹ کی شکل نہیں دیکھی نہ 8 کلب
روڈسرکاری وزیراعلیٰ ھاؤس گئے بلکہ اپنی نجی رھائش کو وزیراعلیٰ ھاؤس قرار
دیا جبکہ دوسری خاندانی عمارت 180 ایچ کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بناکر 10 سال
یہیں تک محدود رھے اور یہاں کسی کو نہیں ملے صرف من پسند بیوروکریسی، پولیس
افسران وڈی سی اوز تک کے اجلاس کرتے رھے جبکہ نوازشریف چونکہ اپنے آپ کو
سعودی کنگ سمجھ بیٹھے تھے لہٰذا انہوں نے نومبر 2007ء اپنی پاکستان آمد تا
نااھل ھونے تک کسی کو اپنے پاس نہیں آنے دیا۔۔ لاھور کو مکمل نظرانداز کیا۔۔
نوازشریف نے سارا وقت سیکیورٹی کے بہانے مکمل پروٹوکول کیساتھ گزارا تاکہ
کوئی پارٹی کے اھم فرد سے لیکر سینئر کارکن تک قریب نہ آسکے۔۔ نوازشریف 10
سال اسلام آباد اور وھاں سے مری کے ٹھنڈے علاقے کیساتھ ساتھ لندن برابر
جاتے رھے اور اقتدار کے سارے وقت بےمقصد انتہا غیرملکی دورے کئے اور ھر
دورے میں انکا جہاز لندن ضرور رکتاتھا۔۔ بالآخر جب آزاد عدلیہ نے الزامات
ثابت ھونے پر انہیں نااھل کیا تو پنجاب کی سرکاری مشینری کے بل بوتے جلسہ
جات کو عوامی عدالت قرار دیکر آزاد عدلیہ اور اسکے آئینی قانونی فیصلوں کی
توہین شروع کردی اور پاک مسلح افواج کو طرح طرح کے ناموں سے پکار کر اسے
تضحیک کانشانہ بنایاجانا معمول بنالیا۔ یہ سلسلہ ابھی تک مسلسل جاری ھے۔۔
31 مئی تک یہ ڈرامے بازی چلے گی۔۔ اپنی نااھلی کے بعد نوازشریف کو جمہوریت
کا دورہ پڑگیا جبکہ موصوف اپنے مکمل اقتدار میں صرف 6 بار اسمبلی میں تشریف
لائے جبکہ گنتی کے چند کیبنٹ اجلاس کئے۔۔ 2013ء کے انتخابات میں جانبدار
الیکشن کمیشن اور اس وقت کے جنرل کیانی، شہبازشریف اور کرپٹ بیوروکریسی نے
پری پلان ایسے انجینئرڈ انتخابات کرائے کہ زیڈاے بھٹو کے 1977ء کی انتخابی
دھاندلی بھی شرماگئی۔۔ نوازشریف اقتدار میں آنےکےبعد فرعون کےبھی باپ بن کر
قوم کےسامنے آگئے اور 40 سال میں جتنا قرض سابقہ حکومتوں نے لیا اس سے زائد
قرض نوازشریف حکومت نے اپنے دور حکومت میں لےلیا اور ورلڈ بنک و آئی ایم
ایف کی ھر شرط مان لی۔ کرنسی کی قدر اسقدر گرائی جسکے سابقہ تمام ملکی
ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔ مہنگائی اسقدر بڑھ گئی کہ غریبوں کا جینا محال کردیا
جبکہ خوشحالی کے دعوے صرف سرکاری اشتہارات اور بکاؤ پلانٹڈ صحافیوں کے
کالمز و نجی ٹی وی کے پروگرامز تک محدود ھوکر رہ گئے۔۔ پاکستان بالخصوص
پنجاب کے ھر شعبے کو پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکے پر اپنے فرنٹ مینوں کےحوالے
کرکے قومی خزانے پر ڈاکہ مارا۔ جناب چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس انکشاف نے
قوم کو حیرت میں مبتلا کردیاکہ انکی تنخواہ دو لاکھ روپے جبکہ کمپنی کے
فرنٹ ہیڈ کی تنخواہ ماھانہ 18 لاکھ روپے ماہانہ کی گئی جسکے پاس متعلقہ
شعبے کا تجربہ بھی نہیں تھا یوں پنجاب سمیت پاکستان کے ھر ادارے کو اتفاق
فونڈری کا شعبہ سمجھ کر اندھی لوٹ مار کی گئی اور آج انکے قائم کردہ ھر
شعبےکےمافیاز کی کارستانیاں قوم کے سامنے شواھد کیساتھ آرہی ہیں اور یہ
ڈھیٹ کسی بہت بڑی غلط فہمی میں ھیں کہ انہیں کچھ نہیں ھوگا جبکہ اب وہ سب
ھوگا جو قبل اسکے کبھی نہیں ھوا۔۔ لٹیرے انجام کو پہنچیں گے۔۔ پاک مسلح
افواج کی دھشتگردی کیخلاف ھزاروں قربانیاں رنگ لائیں اور پاکستان آج مکمل
محفوظ ھے جبکہ شریفس نے آئین پاکستان کو روندنے کی کوشش کی۔۔ ختم نبوت
ترمیم کے ذریعے خاتم النبین لفظ نکالنے کی کوشش کی اور ممتاز قادری کو
1929ء میں انگریز حکومت کے غازی علم دین کو ناموس رسالت پر سزائے موت دینے
سے بھی تیز تر برق رفتاری دکھاتے اسے پھانسی دیدی۔۔ ان واقعات کے بعد اللہ
کی پکڑ شروع ھوئی ماضی میں جب بھی شریفس اقتدار میں آئے ھر دفعہ انکو یہ
یقین رھا کہ انکی حکومت 20 سال چلےگی اور شہبازشریف اب بھی کئی بار کہہ چکے
کہ ھم 20 سال مسلسل حکومت کریں گے اور ملک کو نیویارک، پیرس، بیجنگ بنادیں
گے مگر انہوں نے ریکارڈ توڑ اور منہ زور کرپشن کے ذریعے اپنی املاک و دولت
و کاروبار کو اسقدر بڑھایا جو پانچ براعظموں تک جاپہنچا جس پر عالمی بنک
بھی حیران و پریشان ھوا۔۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سربراھان نوازشریف
کے مقابلے میں غریب نکلے جسکے بعد پانامہ لیکس اسکینڈل ساری دنیا کے سامنے
آگیا جس میں نوازشریف خاندان کی عشروں پر محیط مہا کرپشن کا بھانڈا پھوٹ
گیا۔۔ حکومت کی تکمیل کا آئینی وقت اب 31 مئی کو مکمل ھورھاھے جس میں صرف
دو ھفتے رہ گئے ہیں اسکےبعد پاکستان کامنظر تبدیل ھونا شروع ھوگا جب نگران
حکومت برسراقتدار آئیگی پھر ساری کرپشن سمیت کئی نازک قومی ایشوز بھی افشاء
ھونگے کہ شریفس کسطرح پاکستان دشمن طاقتوں کےایماء پر گریٹر پنجاب بنانا
چاھتے تھے جسمیں انکو مکمل ناکامی ھوئی۔۔ بھلا ھو پاک آرمی کا کہ جسکی وجہ
سے شریفس مکمل ناکام ھوئے ورنہ دھشت گردی کی آڑ میں یہ ملک توڑنےکیلئے
انجینئرڈ طریقہ استعمال کرکے اقتدار میں آئے تھے اور انہوں اقتدار میں آنے
کیلئے جنہیں مہرہ بنایا انکو بھی کانوں کان اس ناپاک منصوبے کی خبر نہ ھوئی
تھی کہ شریفس کا ایجنڈا ملک توڑنے کا ایجنڈا ھے گریٹر پنجاب بنانے کا ھے۔۔
آج ساری قوم کے سامنے شریفس کا بھارت کیساتھ خفیہ گٹھ جوڑ بےنقاب ھوچکا۔۔
اب انکے کڑے احتساب کا ھونا ساری قوم کی ڈیمانڈ ھے اور آنیوالا وقت فیصلہ
کریگا کہ نئی نسل کس جماعت کو ووٹ دیکر پاکستان اور اسکے اداروں کو مضبوط
کرناچاھتی ھے۔ |