۱۸۵۷کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی ادبی منظر نامہ

جنگ آزادی کے بعد کے حالات

ہندوستان کی سیاسی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی ۔ جس کا نتیجہ 1857کی جنگ آزادی کی صورت میں نکلا ۔ باغیانہ سوچ دلی پر حملہ آور ہوئی ۔ آزادی کا خواب چند دیوانی آنکھوں کو بہت مہنگا پڑا ۔11مئی 1857 کی جنگ آزادی پھوٹ پڑی ۔ سارا دن گھڑ سواروں ، پیادوں اور گولیوں کی آوازوں سے شہر گونجنے لگا۔ ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔ دلی شہر بلی ما روں کا محلہ چاندنی چوک سب لپیٹ میں آگئے ۔ چار ماہ چار دن بعد فرنگی دوبارہ دلی پہ قابض ہو گئے ۔ بہادر شاہ ظفر بے قصور ہو نے کے باوجود قید کر لئے گئے ۔ قلعہ میں فر نگینوں کا دفتر سج گیا ۔ سارا دن فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی۔ گرفتاریاں عمل میں آتیں اور صبح سویرے گیا گھونسلوں کی طرح مسلمانوں کی لاشیں درختوں سے لٹکتی دکھائ دیتی ۔ میر زا کے کئ دوست اور رشتہ دار نواب دھر لیے گئے ۔ نواب شمس الدین خاں (والد داغ دہلوی ) کو پہلے ہی "ولیم فریزز "کے قتل کے جرم میں کشمیری دروازے پہ پھانسی دی جا چکی تھی ۔ مرزا کے ذہنی معذور بھائی بھی "غدر "میں گولی کا نشانہ بن گئے ۔ اور دم توڑ گئے جیسے تیسے کر کے تدفین کی ۔ دلی کی رونقیں قصہ پارنیہ بن گئی ۔ ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی پڑ گئی ۔


نہ تھا کچھ تو خداتھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہو نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

بہت سے لوگ دلی سے ہجرت کر گئے جو بچ رہے دھر لیے گئے مرزا بھی ایک دن گرفتار کر کے قلعے میں پیش کردیے گئے ۔ درودیوار تو وہی تھے لیکن منظر بدل چکا تھا ۔ وہ قلعہ جہاں ابو ظفر کا دربار سجتا تھا ۔ خلعتیں عطا کی جاتی تھیں ۔ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ مرزا کو خطابات سے نوازا گیا تھا آج قطار میں لگے کھڑ ے تھے ۔

انگریز افسر نے مرزا سے پوچھا ! مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ مرزا بولے آدھا مسلمان آدھا غیر مسلم شراب پیتا ہوں سور نہیں کھاتا ۔ اس لطیفے پر مرزا کی جان بخشی ہو گئی ۔پھر میرزا کا زیادہ تر وقت خط و کتابت میں گزرنے لگا ۔ مرزا نے خطوط نگاری میں بھی جدت کو اپنایا ۔ اس وقت کے سیاسی حالات کا علم ان خطوط سے ہوتا ہے نیز جدید نثر کی بنیاد بھی یہ ہی خطوط بنے جن پر سر سید نے مضمون نگاری کی ابتدا کی ۔ مرزا کی حس مزاح کا بھی علم ہوتا ہے ۔ رنگون سے بہادر شاہ ظفر کی وفات کی خبر آگئی ۔ اجڑی ہوئی دلی مزید اجڑ گئی ۔

غدر کے بعد مرزا کا مغلیہ دربار سے جاری وظیفہ بند ہوگیا تو آپ نے والی رامپور نواب یوسف علی خان کو وظیفے کے لیے لکھا ۔سوروپے ماہوار وظیفہ وفات تک ملتا رہا ۔ بڑھاپے اور اکلاپے نے مرزا کو گھیر لیا ۔ 15فروری 1869کو ایک ہفتہ کومہ میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔ اردو ادب کا یہ باب بند ہونے کی بجاے نئ نئی جہتوں ، نئے نئے مفہوم کے ساتھ پرت در پرت زمانے کے روبرو آگیا ۔

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
۔۔


اس مضمون کے سلسل میں ان کتب سے مدد لی گئی ہے

یادگار غالب
مکاتیب غالب
کئ چاند تھے سر آسماں
احوال غالب
اردو کلیات غالب
۔۔۔۔۔
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
پاکستان
 

Nadia umber Lodhi
About the Author: Nadia umber Lodhi Read More Articles by Nadia umber Lodhi: 51 Articles with 89188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.