غالب کی قمار بازی

غالب پر مقدمہ اور گرفتاری کی روداد

مرزا غالب کی قمار بازی اور سزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزا کے ناکام لوٹنے کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور سا ہو کار نالش کی کاروائیاں کر نے لگے جن کی پاداش میں میرزا کو گر فتار کر کے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا ۔ اس واقعے کا تفصیلا ذکر میرزا نے اپنے خطوط میں کیا ۔
مرزا لکھتے ہیں ۔ "

"یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں ، مخلوق کا کیا ذکر، کچھ بن نہیں پاتی ۔ آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں ۔ رنج و ذلت سے خوش ہو تا ہوں یعنی میں نے اپنے آپ کو غیر تصور کیا ہے ۔ جو دکھ مجھ کو پہنچتا ہے ، کہتا ہوں ،لو غالب کے ایک اور جوتی لگی ۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بہت بڑا شاعر ہوں ،فارسی دان ہوں ، آج دور دور تک میرا جواب نہیں ۔ لے اب تو قرض داروں کو جواب دے ۔سچ تو یہ ہے کہ غالب کیا مرا ، بڑا ملحد مرا ، بڑا کافر مرا ۔ ایک قرض دار کا گریباں میں ہاتھ ،ایک قرض دار بھوگ سنا رہا ہے ۔ کوٹھی سے شراب ، گند ھی سے گلاب ، ۔۔۔صراف سے دام لیا جاتا تھا، یہ بھی سوچا ہوتا کہاں سے دوں گا۔"

غالب کو مقدمہ کی کاروائی کا سا مناکرنا پڑا۔ نامساعد حالات سے فرار کے لئیے غالب نے جوۓ اور شراب میں پناہ تلاش کرنا چاہی ۔ ایک دن چھاپا پڑا اور دھر لئیے گئے ۔ غالب گر فتار ہو گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کو خبر ملی تو بہت رنجیدہ ہوۓ ۔انہوں نے "کنور علی خان "مجسٹریٹ کے نام رقعہ میں غالب کی قید سے آزادی کا مطالبہ کیا۔جو کہ منظور نہیں کیا گیا پھر فرنگی کو بھی خط لکھالیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔غالب کو سزا سنادی گئی اور جیل منتقل کر دیا گیا ۔ بہادر شاہ ظفر کے پیر"کالے میاں "نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ غالب جیسے بلند پایہ شاعر کو دربار میں کوئی مرتبہ دیا جاۓ ۔ سارا دلی عظیم شاعر کی ادنی جواری کی شہرت سی گونج رہا تھا ۔ مرزا کو چھ ماہ قید۔ با مشقت اور دوسو روپے جر مانے کی سزا سنادی گئی۔ بادشاہ کے مطالبے پہ قید با مشقت نظر بندی میں تبدیل کر دی گئی۔ غالب کی سزا کے دوران انکا مجموعہ کلام چھپا۔ رہائی کے بعد الطاف حسین حالی کو آپ کی شاگردی میں آنے کا شرف حاصل ہوا ۔ حالی پانی پت سے دلی حصول۔ علم کے لئیے تشریف لاۓ ۔ وہ غالب کے ممتاز شاگرد کہلاۓ ۔ مرزا کی سانح عمری یادگار ۔غالب لکھی ۔ ان کے نواسے "خواجہ احمد عباس"اس دور کے نامور ادیب ہیں ۔ غالب کو مغلیہ دربار میں تاریخ تموریہ لکھنے پہ مامور کیا گیا ۔آپ کو "نجم الدولہ دبیر الملک ، نظام ۔جنگ مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خطاب دیا گیا ۔ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا ۔اس دوران استاد ذوق انتقال کر گئے۔ ۔۔۔۔

لائی حیات آۓ ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آۓ نہ اپنی خوشی چلے (ذوق)


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے (ذوق)

اب دربار میں میرزا کا مقام سب شعراء میں بلند ترین تھا ۔ لیکن آسودگی کا یہ زمانہ بھی مختصر ثابت ہوا ۔

Nadia umber Lodhi
About the Author: Nadia umber Lodhi Read More Articles by Nadia umber Lodhi: 51 Articles with 80082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.