تحریر: دیا خان بلوچ،لاہور
ٹھنڈی ہواؤں نے جب سے اس شہر کا رخ کیا تھا۔ اسکول کے تپتے دنوں میں اب
راحت محسوس ہونے لگی تھی۔ ایک ماہ قبل میرا ٹرانسفر یہاں ہوا تھا۔ کچی بستی
تھی، سادہ سے لوگ تھے۔ یہاں رہنے میں دشورای تو تھی لیکن جو سکون یہاں ملتا
تھا وہ شہر ی زندگی میں ناپید تھا۔اس دن میں جماعت سے باہر نکلی تو دیکھا
مس فائزہ نے کچھ بچوں کواپنے پاس بلایا ہوا ہے۔یہ پنجم جماعت کے طلبہ تھے۔
میں بھی ان کے پاس جا کے بیٹھ گئی۔ معاملہ کھلا تو پتا چلا کہ اسکول سے
باہر نکل گئے تھے اور اب چوکیدار پکڑ کر لایا ہے۔ اس اسکول کی باہر کی
دیواریں چھوٹی سی تھیں، ساتھ میں کھیت تھے۔ اس لئے اکثر اساتذہ کو اس مسئلے
کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مس فائزہ بولیں:سچ سچ بتاؤ یہ کس کا منصوبہ تھا۔ان چاروں نے ایک دوسرے کو
دیکھا اور پھر نظریں جھکا گئے۔بولا کوئی بھی نہیں۔دیکھو اگر تم لوگ مجھے سچ
بتا دو تو میں تم سب کو معاف کر دوں گی۔مس فائزہ نے لالچ دی۔
لیکن وہ چاروں اب بھی خاموش تھے،ان کی خاموشی میری سمجھ میں نہیں آرہی
تھی۔انصر بولا: مس آپ نے پھر بھی مارنا ہے ،سچ بتایا یا نہ بتا یا ،مار تو
پڑنی ہے۔پھینٹی لگا لیں اور جانے دیں۔انصر خاصہ منہ پھٹ بچہ تھا۔
اب سارا معاملہ میری سمجھ میں آگیا تھا ،اس لئے میں بولی: اچھا بتاؤ،کس کے
کہنے پہ باہرگئے تھے؟میں وعدہ کرتی ہوں میں نہیں ماروں گی۔سچی مس جی؟ انہوں
نے تصدیق چاہی۔ جی ہاں۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ مس جی،ابو بکر نے کہا تھا
باہر جانے کو۔اکرم نے فوراً بتا دیا۔
اچھا۔ ابو بکر تم رکو اور تم سب جاؤ۔ابوبکر سر جھکائے کھڑا تھا۔اس نے اپنی
غلطی مان لی تھی۔اس نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسی کوئی حرکت
نہیں کرے گا۔اس کے جانے کے بعد مس فائزہ بولیں۔
مس عائشہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بچوں کو مار نہ پڑے تو وہ آپ کی
بات کو اہمیت نہیں دیتے۔آپ نے سب کو بھیج دیا۔کیوں کہ میں نے ان سے وعدہ
کیا تھا،اور اگر میں خود اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کروں گی تو انہیں وعدے
کی اہمیت کا اندازہ کیسے ہوگا؟پھر بھی مس۔۔۔مس فائزہ اپنے موقف سے ہٹنے کو
تیار نہ تھیں۔
مس آج بچوں نے اعتبار کیا ہے ہم پہ،اور اگر ہم یہ اعتبار توڑ دیں گے تو وہ
کبھی ہم سے کچھ نہیں کہیں گے۔سب کچھ چھپا کر کریں گے۔اس طرح تو ان کا بھی
نقصان اور ہمارا بھی۔ایک بار اعتبار کیا ہے اب وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں
گے۔مس عائشہ نے تفصیل سے جواب دیا۔اگلے چند دنوں میں پنجم جماعت کے بچوں
قابل ذکر تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔جو کلاس سب سے زیادہ بدتمیز مشہور
تھی اب ان کے سدھرنے پر سب اساتذہ کو حیرت ہو رہی تھی۔وہ شرارتی بچے ہر روز
مس عائشہ کو سلام کرتے اور ساتھ ہی اپنے چھوٹے چھوٹے سے مسئلے بھی بتاتے جن
کا وہ فوراً ہی کوئی آسان سا حل بتا دیتی تھیں۔ مس فائزہ بھی مان گئیں تھی
کہ وعدہ کرنا اور عمل کر کے دکھانے سے ہی ہم بچوں کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ |