ماں تجھ سا کوئی نہیں

رابرٹ ایک کامیاب بزنس مین اور شفیق انسان تھا وہ اپنی بیوی سوسن سے بے حد محبت کرتا تھادونوں میاں بیوی بہت خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے خداوند کریم نے اپنے کرم کی نظر رابرٹ اور اسکی بیوی پر فرمائی اور انکو ایک خوبصورت بیٹی کیتھرین سے نوازا۔ کیتھرین کو لے کر رابرٹ اور اسکی بیوی بہت خوش تھے مگر کچھ عرصے کے بعد ہی رابرٹ ایک کار حادثہ میں اس جہان فانی سے کو چ کر گیاسوسن پر قیامت ٹوٹ گئی اب سوسن اور اسکی بیٹی کیتھرین اکیلی رہ گئی تھی سوسن ایک بہادر اور سمجھدار خاتون تھی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسری شادی نہیں کرے گی اور اپنی بیٹی کیتھرین کی اچھے طریقے سے پرورش کرے گی اور اپنے خاوند کے بزنس کو سنبھالے گی تاکہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا سکے سوسن نے گھراورکاروبار کو بہت احسن طریقے سے سنبھال لیااور دوسری جانب ماں کے فرائص بھی پوری ذمہ داری سے نبھائے۔ایک رات جب سوسن اپنی بیٹی کے ساتھ کمرے میں سو رہی تھی کہ اچانک شارٹ سرکٹ کے باعث کمرے میں آگ لگ گئی سوسن نے اپنی بیٹی اور خود کو مشکل سے بچایا جسکی وجہ سے سوسن کا چہرہ اور ہاتھ برُی طرح جل گئے اور سوسن کی ساری خوبصورتی جاتی رہی مگر سوسن مطئمن تھی کہ اس نے اپنی بیٹی پر آنچ تک نہ آنے دی ۔لیکن دوسری جانب جیسے جیسے کیتھرین بڑی ہورہی تھی وہ اپنی ماں سے نفرت کرنے لگی اسکو اپنی ماں کے چہرے سے خوف آتا تھا اور وہ ایک لمحہ کیلے بھی اپنی ماں کے وجود کو اپنے پاس برداشت نہیں کرتی تھی۔سوسن چونکہ کیتھرین سے اپنی اولاد ہونے کی بناء پر محبت کرتی تھی اس لیے اس نے اپنے چہرے کو ڈھانپنا شروع کردیا اور ہاتھوں پر دستانے پہن لئے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے پاس جا سکے اسکو پیار کر سکے اُس کے ساتھ وقت گزار سکے مگر کیتھرین کے رویے میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکی وہ بتدریج اپنی ماں کے وجود سے نفرت کرتی رہی حتیٰ کہ اسکے دوست جب گھر میں آتے تو وہ اپنی ماں کا تعارف ایک نوکرانی کے طور پر کرواتی اور کہتی کہ میرے والد نے بزرگ ہونے کی وجہ سے اسکو یہاں ملازمت دی تھی تب سے یہاں ہی ہے اور مرنے تک یہاں ہی رہے گی۔ایسی سخت باتوں کو بھی سوسن درگزر کر دیتی کیونکہ آخر وہ ایک ماں تھی۔سوسن ہر روز رو رو کے فریاد کرتی اے میرے خدایا مجھے اس آزمائش سے باہر نکال دیجے ، اس دکھ کی وجہ سے سوسن بیمار رہنے لگی اور ایک دن ایسے ہوا کہ سوسن شدید بخار میں مبتلا ہو گئی اسکو ڈاکٹر اور ادویات کی سخت ضرورت تھی مگر شدید بخار کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھاخیر سوسن نے ہمت کرکے اپنے ہمسائے کو فون کال کی اور مدد کے لیے بلایا ہمسائے نے ڈاکٹر کو بلایا سوسن کو چیک کروایا ڈاکٹر نے کچھ ادویات لکھ کر دی ہمسائے نے سوسن کو میڈیسن دی اور کیتھرین کے کمرے کی طرف گیا اور جیسے ہی وہ اسکے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ کیتھرین اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی جس پر ہمسائے نے کیتھرین کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ وہاں تمھاری ماں شدید بخار سے مر رہی اور تم یہاں خوش گپیوں میں مصروف ہو۔جس پر کیتھرین کا ردعمل شدید تھاکہ وہ میری ماں نہیں اور مرنے دو بوڑھیاکو۔جیسے ہی اس نے کیتھرین کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو اسکو ماضی کا قصہ سنایا کہ سوسن بہت خوبصورت تھی اور کس طرح تم کو بچاتے ہوئے وہ جل گئی اور آج اسکی بدولت ہی وہ اس حالت میں ہے اگر وہ چاہتی تو دوسری شادی کر کے اپنا ایک اور جہاں بسا لیتی مگر کیتھرین صرف تمھاری خاطراُس نے سب کچھ قربان کر دیا۔کیتھرین نے جیسے ہی حقیقت کو جاناتو اسکی آنکھیں کھل گئیں اور فوراََاپنی ماں کے کمرے کی طرف دوڑی اور بستر پر لیٹی ماں کے گلے لگ کے رونے لگی اور ساتھ میں اپنی ماں کا چہرہ اور ہاتھ چومناشروع کر دیے اور بار بار ماں سے معافی مانگی سوسن سارے ماجرے سے حیران تھی مگر دلی طور پر خوش تھی کہ خداوندکریم نے اسکی فریاد کو قبول فرمایااور کیتھرین کے دل سے میرے لیے نفرت کو ختم کر دیاسوسن نے خداوند کریم کا تہہ دل سے شکر ادا کیا۔دنیا میں ہر سال عرب ممالک اور یو۔کے میں مارچ کے مہینے میں مدرڈے منایا جاتا ہے جبکہ ایشیاء ،امریکہ اور دیگر یورپین ممالک میں مئی میں مدرڈے منایا جاتا ہے اچھی بات ہے کہ ماں کے احترام میں یہ دن مخصوص کیا گیا ہے لیکن میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہو گا کہ ماں کی شان اکیلے ایک دن نہیں بلکہ ہر ایک دن مدر ڈے کے طور پر منایا جانا چاہیے کیونکہ جس طرح ما ں اپنی اولاد کے لیے بہت کچھ قربان کرتی ہے اولاد اس ایک لمحے کا بھی واپس نہیں لوٹا سکتی سوسن اور کیتھرین کی کہانی ہمارے سامنے ہے ۔ ویسے تو دنیا میں تما م مذاہب میں ماں کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور ماں کی شان بے مثال ہے اسکا اندازہ اس ایک جملے ہی سے لگایا جاسکتاہے"ماں کے قدموں تلے جنت ہے"اسی طرح یہ بھی قول مشہور ہے کہ ماں خداتعالیٰ کا دوسرا روپ ہوتا ہے،ماں کی دعا سے تمام بلائیں اومصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتاکہ ماں کی شان بیان کر سکوں کیونکہ جو خدا تعالیٰ کا دوسرا روپ ہے اور جنت جس کے قدموں کے نیچے ہے اسکی شان بے بیان ہے مگر آج کے اس جدید دور میں چند ایک افراد ایسے بھی ہیں جو کہ اپنی ماں اور باپ کا احترام نہیں کرتے اکثر ایسی خبریں سوشل میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے دیکھنے میں آئی ہیں ۔ایسے افراد کے ضمیر کو جگایا جائے ورنہ وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ خداوند کریم اپنی لاٹھی چلا دیتے ہیں اور پھر کہیں سکون میسر نہیں آتا ،پھر دنیا اور آخرت دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔سو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر روز اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔اور ماں کی عظمت کو سلام پیش کرتے رہنا چاہیے کیونکہ ماں کا نعم البدل کوئی نہیں اسکا اندازہ اسکو ہے جیسی کی ما ں نہیں۔میری دعا ہے خداوند کریم سے کہ سب کی ماں کو تا قیامت سلامت رکھے آمین۔

Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 23812 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.