تحریر: امبرین جاوید، کراچی
خوشبو کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ وہ بہت محنت کر کے اپنی پڑھائی کا خرچہ
اٹھاتی تھی اور اپنے تمام شوق پورے کرتی۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی کچھ
ذمے داریاں بھی خوشبو کے کندھے پر آگئیں، خوشبو یونیورسٹی کی طالبعلم تھی۔
کلاس میں اکثر طلبہ خوشبو سے پڑھائی میں مدد لیتے تھے۔ اس کے کلاس فیلوز
میں ایک لڑکا شایان بھی تھا۔ ان میں اچھی دوستی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان
کی دوستی پروان چڑھتی گئی اور ایک دن دوستی محبت کا رخ اختیار کر گئی۔ ایک
دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے، پڑھائی ساتھ ساتھ کرتے خوب باتیں
ہوتیں۔ شایان اپنے بارے میں بتاتا میری فیکٹری ہے، اپنا کاروبار بھی کرتا
ہوں۔ میری اپنی گاڑیاں ہیں۔ خوشبو اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوتی اور سوچتی
کاش میری شادی اس سے ہوجائے تو مجھے میری اس غربت والے گھر سے جان چھوٹ
جائے گی۔ خوشبو کے گھر والوں کو پتا چل گیا کہ خوشبو کسی مسلم لڑکے سے محبت
کرتی ہے اور شادی کرنا چاہتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بھائی نے غصے میں آکر
خوشبو پر ہاتھ اٹھا دیا۔ اپنی عزت اور غیرت کے لئے گھر سے نکال دیا اور
دوبارہ شکل نہ دکھانے کا کہا۔ ماں خاموش کھڑی دیکھتی رہی۔
کچھ کہنے کے لئے الفاظ نہیں تھے۔ شوہر کی موت کے غم سے باہر نہیں نکلی تھی
کہ اب بیٹی کا یہ غم ۔ وہ پریشانی کے عالم میں خوشبو کو گھر سے نکلتے
دیکھتی رہی۔ خوشبو گھر سے تو نکل گئی مگر کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے
ہاسٹل میں رہنے لگی۔ شایان کو فون کر کے بلایا اور ملنے پر شادی کا مطالبہ
کیا۔ دونوں نکاح کرنے پر راضی ہوگئے مگر شایان کچھ پریشاں تھا اور خوشبو کو
کچھ بتانا ممکن نہیں تھا۔ بہت سوچا کہ گھر میں بتادوں مگر کیسے؟ سب کا رد
عمل کیا ہوگا؟
بالآخر اس نے سوچا کہ فی الحال نکاح کرلیتا ہوں بعد میں گھر والوں کو بھی
بتا دوں گا۔ اگلے روز شایان خوشبو سے نکاح کر کے اسے گھر لے آیا۔ گھر والوں
کو نکاح کا بتایا تو سب حیران اور پریشان دیکھتے رہ گئے۔ حقیقت کا سامنا
کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا کسی کی موت کے بعد صبر کرنا۔ سب نے اس کے نکاح
کو قبول کرنے سے انکار کیا کیوں کہ خوشبو دوسرے مذہب منسلک تھی۔ شایان کو
بہت سمجھایا مگر نہ مانا پھر آخر کار گھر سے نکال دیا اور کہا اس کو چھوڑ
کر اگر آنا ہو تو آنا ورنہ گھر میں مت آنا ماں روتی رہی۔ شایان کی آنکھوں
پر محبت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس کی عقل میں کچھ آیا اورنہ ہی وہ اس وقت
کسی کی بات سمجھ سکتا تھا۔ بغیر کچھ بولے شایان گھر سے چلا گیا۔
ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان لے کر دونوں زندگی گزارنے لگے۔ کچھ ہی دن میں
شایان کی ہمت جواب دے گئی ۔ اس کے پاس سارے پیسے ختم ہوچکے تھے۔ جاب کے لیے
دن رات مارا مارا پھرتا رہا مگر سب کوشش ناکام ہوگئیں ۔ ایک دن دوست نے
اپنے ساتھ شاپ پر نوکری پر رکھ لیا اور روزانہ کے 100روپے دینے کا کہا
شایان نے سوچا نہ ہونے سے اچھا ہے کچھ پیسے آئیں گے۔ شاپ پر کام کرنے کے
باوجود مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا۔ ماں روز روتی انتظار کرتی شاید آج بیٹا
گھر آجائے ماں کی محبت یاد آجائے خیال یہ بھی آتا آج ہم نے کسی کی بیٹی کے
ساتھ یہ کیا آگے ہماری بیٹیاں ہیں ۔ اﷲ نہ کرے ان کے ساتھ ایسا کچھ نا ہو۔
اس نے ہماری محبت اور لاد پیار کا یہ صلہ دیا کہ گھر چھوڑ گیا ۔
ادھر خوشبو غربت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ وہ سوچتی ہے اس سے اچھی تو پہلے کی
لائف تھی جو چھوڑ کر آئی تھی۔ ایک دن اس نے شایان سے کہا کہ میں تمہارے
ساتھ اسے نہیں رہ سکتی ۔ مجھے ایسے ماحول کی عادت نہیں ہے۔ مگر شایان کسی
نہ کسی طرح سے تسلی دے کر اسے اچھے دنوں کے خواب دیکھا دیتا تو وہ خاموش
ہوجاتی۔ کئی روز سے مسلسل سبزی کھاتے کھاتے بالآخر ایک دن خوشبو نے تنگ آکر
شایان کو بول ہی دیا کہ اب اسے یہاں نہیں رہنا۔ شایان اس دن تھکا ہوا تھا۔
اسے خوشبو کی باتیں اچھی نہیں لگیں اور بات بڑھتی چلی گئی اور شایان نے
خوشبو کو طلاق دے دی۔ خوشبو کے لیے کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ اپنا سامان
لے کر والدین کے گھر آگئی۔ وہاں سب ناراض تھے۔ کچھ روز بعد اسے والدین نے
معاف کردیا اور اپنے ہی مذہب کے ایک لڑکے سے شادی کردی۔
شایان سارا دن اداس پریشان پھرتا رہتا۔ گھر والوں نے بھی اسے معاف نہیں کیا
تھا۔ اس کی زندگی برباد ہوچکی تھی۔ ایک دن اس کے ایک دوست نے اسے
سمجھایااور اسے ماں باپ کو منانے کا کہا۔ دوست کے کردار نے دونوں طرف کے
حالات نارمل کیے اور مگر شایان کو ہمت نہیں ہورہی تھی گھر جانے کی۔ والدین
کا سامنا کرنے کی۔ اسی طرح کچھ روز اور بیت گئے۔ ایک دن اس کے دوست نے اسے
گھر کے لیے راضی کر لیا اور لے کر گھر کی طرف چل دیا۔ شایان نے جیسے گلی
میں قدم رکھا اسے سامنے شامیانہ لگا ہوا ملا۔ وہاں رونے کی آوازیں آرہی
تھیں۔ وہ تیز قدموں کی طرف آگے بڑھا تو پتاچلا کہ اس کا باپ دنیا سے رخصت
ہوچکا تھا۔
شایان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہے
رہے تھے۔ اس کے رویے نے بوڑھے باپ کی جان لے لی تھی۔ وہ خود کو قاتل سمجھ
رہا تھا۔ وہ اپنے والد کا قاتل تھا، اپنی ماں کے ارمانوں کا قاتل تھا۔
آنکھوں میں آنسو اور دل میں پچھتاوا لے کر ماں کے پاس گیا۔ ماں نے طویل
عرصے بعد اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو گلے سے لگایا تھا۔ تیرا باپ انتظار کرتے
کرتے اس دنیا سے چلا گیا۔ماں کے الفاظ ٹوٹ رہے تھے۔
شایان کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں دفن ہوجائے۔ اس کا دل پھٹ رہا
تھا۔ آج وہ محبت جس کے لیے اس نے اپنے والدین، اپنا گھر بار، اپنوں کو
چھوڑا تھا وہ کسی اور کے ساتھ خوش تھی مگر شایان اپنا سب کچھ لٹا چکا تھا۔
وہ باپ بھی گنوا چکا تھا کہ جس نے اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا۔ اسے
دنیا میں سب کچھ دیا تھا۔ اچھی تعلیم، اچھا گھر بار، عزت، شہرت اور مقام
دیا تھا۔ آج اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ ایسے والدین کے لیے ایسی ہزاروں
محبتیں بھی قربان کرسکتا ہے مگر اب اس کے یہ الفاظ کسی کام کے نہیں تھے۔۔۔
|