خاموشی کا استخارہ

کھڑکی کے اس پار اس کو سورج دوبتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے اور اس سورج کے بیچ میں ایک درخت حائل تھا۔ جیسے جیسے سورج کی روشنی مدہم ہوئی جا رہی تھی، اس کو لگ رہا تھا ڈوبتا سورج اس کی بینائی بھی ضبط کیے جا رہا تھا ۔ نہیں بلکہ اس وقت اس کی زندگی میں پھیلے قسمت کے اندھیرے کی طرح ہلکی سرمئی شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ تب ہی اس کو وہ ہرا بھرا درخت سیاہی مائل دکھائی دے رہا تھا۔ اور اس کی اوڑھ میں سورج بھی مایوسی سے شفق کی سرخی پھیلائے غروب ہو رہا تھا۔

سورج کو وہ دیکھ تو رہا تھا لیکن اس کا دماغ اپنے والد کی بیماری کے حل کو کھوج رہا تھا۔ ان کے دائیں گردے میں کینسر تھا اور ہر بڑے اور اچھے ہسپتال کے ڈاکٹرز کی متفقہ رائے تھی کہ گردہ نکالنا پڑے گا۔ تب ہی زندگی بچ سکتی ہے۔ گزشتہ چیک اپ میں ڈاکٹر نے تین ہفتوں کے اندر اندر آپریشن کا کہا تھا۔ آپریشن کے بعد کچھ سال وہ سکون سے زندگی گزار سکتے تھے لیکن آپریشن نہ کرنے کی صورت میں تین سے سے چار ماہ کی زندگی تھی۔ آج دو ہفتے گزر چکے تھے۔ جب سے انھوں نے اپنی بیماری کا سنا تھا انھوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا۔
 
وہ کھڑکی سے اٹھا اور والد کے کمرے کی طرف بڑھا کہ ان کا حوصلہ بڑھا کر ان کو آپریشن کے لیے تیار کرے۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ’’آجاؤ احمد‘‘ والد نے قدموں کی چاپ سے ہی پہچان لیا تھا۔

احمد نے دروازہ کھولا۔ دیکھا تو ہمیشہ کی طرح وضو کیے مسجد جانے کے لیے تیار کے تھے۔ جب سے احمد نے ہوش سنبھالا تھا، اپنے والد کے چہرے کو روشن ہی دیکھا تھا۔ پھر اس نے حدیث بھی پڑھی تھی کہ قیامت کے دن پانچ وقت نماز کے لیے وضو کرنے والے کے چہرے روشن ہوں گے۔ وہ دنیا میں ہی ان کے چہرے سے نور برستا دیکھ رہا تھا۔ ایسا نور جو آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا تھا۔ کمرے میں اگر اندھیرا بھی ہوتا تو بھی اتنی روشنی ہوتی تھی گویا آدھے چاند کی چاندنی ہو۔

صبح بات کریں گے۔ میرا کچھ کام ہے تو عشاء کی نماز بھی ان شاء اﷲ پڑھ کر آؤں گا۔ انھوں نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کمرے کی دہلیز پار کرتے ہوئے کہا۔

جی ابو جان۔ احمد نے سعادت۔ مندی سے سر ہلایا۔

وہ جانتے تھے کہ احمد کو صبح دفتر بھی جانا تھا اور احمد کو بھی معلوم تھا کہ وہ عشاء کے بعد ذکر اذکار میں مصروف ہو جاتے تھے۔

احمد نے اپنے عمومی کام سر انجام دیے۔ کروٹیں بدلتے رات گزاری۔ اس کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس کے والد اس کے دماغ کو پڑھ چکے ہیں کہ اس کے آنے کا مقصد کیا تھا۔ اس نے دل سے اﷲ سے دعا کی کہ سب خیر ہو۔

اس کے والد نے رات استخارہ کیا۔ استخارہ اﷲ سے مشورہ ہے۔ اﷲ نے ان کی رہنمائی کی اور کامیابی کا اشارہ ملا۔ انھوں نے فجر کے وقت اپنی بیگم سے احمد کو آپریشن کی تیاری کے لیے کہا۔

صبح احمد کے لیے خوشخبری لے کر آئی تھی۔ اس کی والدہ نے انتہائی خوشگوار لہجے میں، اپنی خوشی چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اوکے کا سگنل دیا تھا۔ اس کی نگاہ کھڑکی سے باہر اس درخت پر پڑی۔ صبح بہت روشن اور نور پھیلاتی لگ رہی تھی۔ وہی درخت تھا لیکن اب کی بار وہ سحری کے وقت کی برسی بارش کی وجہ سے بہت نکھرا سا بادِ نسیم سحری میں ہلکورے لے رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور خالق کا شکر ادا کیا کہ گھر میں چھائی بے سکونی کی، بے چینی کی، یاسیت کی خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔
 

Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71191 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More