انفارمیشن ٹیکنالوجی ہمارے وطن میں پوری طرح تشریف لا چکی
۔ مگر مغربی ممالک میں اس کے فوائد مختلف ہیں اور ہمارے دیس میں انتہائی
مختلف۔ اصل میں یہ ٹیکنالوجی یہاں پہنچ کر دیسی ہو جاتی ہے۔دیسی اور بدیسی
کا فرق بھی یہاں کھل کر نظر آنے لگتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ فرق کم ہوتا
جا رہا ہے۔ شروع شروع میں ہم نے جو اس کے ساتھ کیا ،وہ بھی کمال تھا۔میرا
ایک جاننے والا مغرب سے دیوالیہ ہونے والی فیکٹریوں کی مشینری خرید کر لاتا
ہے۔ دس پندرہ سال پہلے جب وہ وہاں سے کمپیوٹر سے لدی جدید کمپیوٹرائزڈ
مشینیں لاتا تو بہت پریشان ہوتا۔ مشینوں کے کمپیوٹر DOS پر چلتے تھے۔ ونڈو
ابھی اتنی فعال نہ تھی۔ ان مشینوں کے چلانے کے لئے ہمارے پاس کاریگر ہی
نہیں تھے۔ میرے ان جاننے والوں نے بڑی محنت سے ایک مستری ڈھونڈھا جو
کمپیوٹر اتار کر ایک طرف پھینک دیتا اور مشین کو مینوئل بنا دیتا ۔ کچھ
عرصے بعد انہیں خیال آیا کہ کمپیوٹر اتارنے کی بجائے اسے سسٹم سے الگ کرکے
صرف مشین پر سجا رہنے دیا جائے تو شاید مشین زیادہ رقم میں بک جائے۔ ان کا
یہ تجربہ کامیاب ٹھہرا۔ کمپیوٹر سجی مشینیں بڑی معقول قیمت پر بکنے لگیں۔
ان مشینوں پر مال تیار کرنے والے اپنی پراڈکٹس پر ’’کمپیوٹر ائیزڈمشینوں پر
تیار کردہ‘‘ لکھنے لگے۔ان کے مال کی قدروقیمت بڑھ گئی۔ ہول سیلرز جو مال
خریدنے آتے ،مشین پر سجے کمپیوٹر کو دیکھ کر خوش ہو جاتے اور انہیں منہ
مانگے دام مل جاتے۔اب وہ دور لد گیا۔ اب مشینیں واقعی کمپیوٹر کی مدد سے
چلنے لگی ہیں۔ لوگوں کو سجے کمپیوٹر اور کام کرتے کمپیوٹر کا فرق بھی پتہ
چل گیا ہے۔
میں یورپ گیا ہوا تھا۔واپسی پر میں اپنے ساتھ ایک کمپیوٹر لے آیا۔یہ
ابتدائی دور کا DOS کمپیوٹر تھا۔اسکے کی بورڈ پر کیسٹ لگتی تھی۔ میں صبح
اٹھ کر کیسٹ چلا دیتا۔ کیسٹ آدھ گھنٹہ چلتی رہتی اور ٹھیک کیسٹ کے اختتام
پر کمپیوٹر اپ لوڈ ہو جاتااور کام کرنے کے قابل ہو جاتا۔آج کی طرح لمحوں
میں اپ لوڈ ہونے والی بات نہیں تھی۔ DOS کی کمانڈز بھی زبانی یاد کرنا جا ن
جوکھوں کا کام تھا۔لیکن مجبوری تھی۔ نیا نیا کمپیوٹر اور ہمارا شوق۔کام اسی
طرح چلتا تھا۔ پھر 86 آیا۔ 186 آیا، 286 آیا۔ گو اس وقت کمپیوٹر بہت مہنگا
تھا مگرمیں بھی نیا ماڈل آتے ہی خریدتا رہا۔ وہ کیسٹ والا میرے پاس فالتو
پڑا تھا۔ ایک دوست نے سکول کھولا تو وہ کمپیوٹر مجھ سے مانگ کر لے گیا۔
سکول کھلتے ہی کمپیوٹر چلا دیا جاتا۔ اس سکول میں اس کے علاوہ کوئی کمپیوٹر
کے بارے کچھ نہیں جانتا تھا۔مگر سکول کے باہر موٹا موٹا لکھا ہوا
تھا’’کمپیوٹرائزڈ سکول‘‘۔ لوگ خوش خوش بچے داخل کرا رہے تھے کہ بڑا جدید
سکول ہے نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ۔
کمپیوٹر کے ابتدائی دور کی ہی بات ہے،مجھے ایک دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔
گاڑی پارک کرنا چاہتا تھا مگر آگے ایک رکشا تھا۔ میرا خیال تھا کہ رکشا چلا
جائے گا تو گاڑی آگے کرکے پارک کروں گا۔رکشے سے ایک صاحب اترے۔ دفتر کے
کوئی آفیسر تھے۔ ان کے اندر جاتے ہی رکشے والے نے وہیں رکشا پارک کیا اور
ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی دفتر کے اندر چلا گیا۔میں نے رکشے کے پیچھے ہی
گاڑی پارک کی اور دفتر کے سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملنے ان کے دفتر گیا تو دیکھا
وہ رکشے والا ایک کرسی پر بیٹھا اونگ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ کسی افسر کا
واقف کار رکشے والا ہے اس لئے دفتر والے عزت اور احترام سے پیش آتے اور اسے
بیٹھنے کے لئے جگہ بھی مہیا کرتے ہیں۔ چند دن بعد میں دوبارہ وہاں گیا تو
وہ رکشے والا ایک میز کے ساتھ آمنے سامنے دو کرسیاں رکھے مزے سے سو رہا تھا۔
اس طرح ایک رکشے والے کا دفتر میں سونا مجھے اچھا نہیں لگا۔
مجھے اس دفتر میں ایک ایسا کام تھا جس کے لئے مجھے وہاں گاہے بگاہے جانا
پڑتا تھا۔میں نے سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہا کہ آپ نے اس رکشے والے کو یہاں آرام
کی بھی اجازت دی ہوئی ہے۔پوچھنے لگے کون رکشے والا۔ میں نے کہا کہ جو یہاں
بیٹھا ہوتا ہے۔ ہنس کر بولے وہ رکشے والا نہیں وہ تو ہمارے ہیڈ کلرک صاحب
ہیں اور اسی میز پر بیٹھتے ہیں۔ چند دن بعد مجھے پھر جاناہوا تو اکیلے ہیڈ
کلرک صاحب دفتر میں موجود تھے۔ مجھے انہوں نے سپرنٹنڈنٹ صاحب کا انتظار
کرنے کا کہا۔ انتظار کے دوران میں نے پوچھ لیا کہ آپ اور رکشا ، کیا تعلق
ہے۔ کہنے لگے یہ کمبخت کمپیوٹر جب سے آیا ہے ۔ ہم فارغ ہو گئے ہیں ۔ ہم چھ
آدمی تھے جو ایک کمپیوٹر جاننے والے نئے آدمی کی بھرتی کے بعد فارغ تھے۔
سارا ریکارڈ کمپیوٹر میں ہے۔ فائلیں سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ہم
کیا کرتے۔ ہمارے کچھ افسران کو آنے جانے میں ٹرانسپورٹ کی مشکل تھی۔ میں نے
رکشا لے لیا ہے۔ کچھ آمدن بھی ہو جاتی ہے اور دل بھی لگا رہتا ہے۔باقی جوان
لوگ ہیں، حاضری لگا کر ادھر ادھر پھر تے رہتے ہیں۔آپ کمپیوٹر کیوں نہیں
سیکھتے۔ جواب ملا، کیا کروں گا۔ حکومت کو عقل ہی نہیں وہ ہمیں سکھانے کی
بجائے نئے لوگ بھرتی کر رہی ہے اور ہم مفت میں تنخواہ لے رہے ہیں۔ ارباب
اختیار کو احساس نہیں تو ہمیں کیا۔میں سمجھ گیا نئی ٹیکنالوجی دفتروں میں
بندوں کی تعداد کم کرنے کی بجائے فارغ لوگوں کے انبار لگا رہی ہے۔
پنجاب کی گڈ گورننس نے شہر بھر کو کیمروں سے بھر دیا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی
ہے مگر استعمال کرنے والے پرانے لوگ ہیں۔شہر میں روز ڈاکے پڑ رہے ہیں ۔ نہ
پولیس ایف آئی آر درج کرتی ہے اور نہ میڈیا والے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ایک ڈاکے
کے سلسلے میں میری ایک پولیس افسر سے ملا قات ا ور بات چیت ہوئی۔ میں نے
کہا بھائی ،مغربی ممالک میں کوئی مجرم کیمرے سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ وہ
تھوڑی دیر میں اس کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ تمھارے کیمروں کا کیا فائدہ۔ اس نے
سر جھٹکا۔ کہنے لگا،’’چھوڑیں جی کیمروں کی بات۔ پہلے حصہ وصول کرنے والے
کیا کم تھے حکومت نے کیمرے لگا کر ایک حصے دار کا مزید اضافہ کر دیا ہے ۔
کیمروں والے کسی کو معاف نہیں کرتے۔ٹریفک پولیس والوں کے سارے دن کے کمالات
کیمرے میں محفوظ ہوتے ہیں مگر سب گول کر دیا جاتا ہے ۔ یہ بھی حصے ہی کا
کمال ہے ورنہ وہ تو پوری طرح ننگے ہو جاتے۔ ہمارے افسر نہیں چاہتے کہ کیمرے
متحرک ہوں۔ ہمارے آلات تو جدید ہو رہے ہیں مگر ذہن نہیں اور جب تک ذہن نہیں
بدلے گا ۔ ہم پولیس والوں کے حالات نہیں بدل سکتے‘‘۔
تنویر صادق |