پرانے زمانے میں ایک دوسرے تک پیغام رسانی کے لیے انسان
کو نہایت ہی مشقت کرنی پڑتی تھی اور یہ ایک مشکل ترین کام ہوتا تھا اور ایک
پیغام کو دوسری جگہ تک پہنچانے کے لیے مہینوں لگ جاتے تھے ، انسان نے سوچا
اس کام پر تو بہت وقت صرف ہوتا تو پھر انسانوں اس کام میں کبوتروں کی مدد
لینی شروع کردی اور پھر یوں کبوتر کا دور شروع ہوا اور جب وقت گزارنے کے
ساتھ کچھ جدت پیدا ہوئی تو کبوتر کا پیغام بھی رہے گیا ، مگر جب سائنس نے
ترقی کی اور فون ایجاد ہوا اس کے بعد پیغام رسانی آسان ہو گئی اس دنیا قریب
آنے لگی اور پھر وقت کے پہیہ چلتا گیا اور ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا ہوا
تو انٹرنیٹ کی دور سب کے سامنے آگیا ۔
انٹرنیٹ جو کہ اس دور میں سب سے اہم اور تیز ترین ابلاغ کا ذریعہ جو کہ اب
تقریباً پوری دنیا کے انسانوں کی ضرورت بن چکا ہے جس نے دنیا کو ایک گلوبل
ویلج بنا کر اکٹھا کر دیا ۔ آج ہر کوئی ،بچہ ہو یا بڑا اس کا دیوانا دکھائی
دیتا ہے انٹرنیٹ ہی کی بدولت ہم سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ایک کونے میں
بیٹھنے والے کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پاکستان میں کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور
اینڈرائیڈ موبائل کے آنے کے بعد تو ہر شخص انٹرنیٹ سے منسلک ہو گیا کچھ
سوشل میڈیا کی ویب سائٹس جس میں فیس بک ٹیوٹر کافی مقبول ہیں نے لوگ اس کے
بخار میں مبتلا ہوچکے ہیں، کہ ہر کوئی دیوانا دکھائی دیتا ہے ۔ہر شخص کی
خواہش ہوتی ہے کہ اس کی سوشل میڈیا پر پوسٹوں کو زیادہ سے زیادہ لائیکس اور
کمنٹس ملیں جبکہ سلفی کا جنون بھی اس سوشل میڈیا کی وجہ سے شروع ہوا جس کی
خاطر اکثر نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
آج کل ایک چیز بہت دیکھنے میں آ رہی ہے کہ کوئی سڑک پر حادثہ ہوگیا ہے کہیں
کوئی مر بھی رہا یے تو لوگ ایسے سوشل میڈیا کے جنونی لوگ اس بچارے کی مدد
کے بجائے سیلفی اور ویڈیوز بنانے میں لگ جاتے ہیں اور صرف اس لیے کہ ان کی
پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہو مگر وہ لوگ اتنا بھول جاتے ہیں کہ اس
طرح کی فوٹو سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا ، ان کو تو بس واہ واہ چاہیے ۔
کل ایک حادثہ ہوا جس میں ایک زخمی خاتون کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے مگر سوشل
میدیا کے جنونی لوگوں نے ان زخمیوں کی فوٹو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر
دی اور اتنا تک نہیں سوچا کہ وہ بھی کسی کی مائیں بہنیں ہیں وہ بھی کسی کی
عزت ہے اور ایسا کبھی ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہر روز کہیں نا کہیں حادثے یا قتل واردت کے بعد لاش
کی فوٹو اور ویڈیو لوگ بنا کر فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا سائٹس لگا دیتے
ہیں جو کہ ایک نامناسب انتہائی غیر مہذب اور غیر اخلاقی فعل ہے ۔اگر آپ سے
صبر نہیں بھی ہورہا اور پوسٹ لگانی اتنی ضروری ہے اس کو ایسے لگائیں کہ نا
کسی کی تذلیل ہو اور لوگوں تک خبر بھی پہنچ جائے۔
اگر بات کی جائے موجودہ ادوار کی تو حکومت کی جانب سے بھی اس کی روک تھام
کے لیے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں ، حکومت اس پر ضرور اقدامات
اٹھا تاکہ کسی لاش اور مریض کی بے حرمتی نہ ہو ، کسی پردہ دار خاتوں کا
چہرہ سوشل میڈیا پر پبلک نہ ہو اس کے ساتھ ہم سب کو چاہیے کہ اگر کوئی ایسی
ویڈیو یا فوٹو ہمارے پاس ہے جس سے کسی کی تذلیل نا ہوتی ہو اور وہ عوامی یا
اس متعلقہ شخص کے مفاد میں بہتر رہے گی تو مہذب انداز میں پوسٹ کر دینی
چاہیے ۔ سوشل میڈیا کو سچی معلومات ، آگاہی اور معاشرے میں شعور دینے کی
غرض سے استعمال کریں لیکن ایسا تب ہو گا جب ہم خود سے اپنی اصلاح کریں ہوئے
ایسے مثبت کام کریں گے- |