شام کے احوال, شامی کی زبانی

Shaam kay Ahwal shaami ki zubani
ایک یادگار سفر کی یادگار ملاقات

جولائی 2017 کا مہینہ ہم نے ایران میں گزارا, سعدی فاونڈیشن تہران کی طرف سے دنیا بھر کے چوالیس ممالک سے طلبا کو منتخب کرکے اس پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا- ھندوستان سے بھی 9 طلبا منتخب ہوئے تھےجن میں راقم الحروف بھی شامل تھا_ میری اب تک کی زندگی میں یہ اس نوعیت کا پہلا پروگرام تھا جس میں مجھے مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ درس و تدریس اور ان کی طرز زندگی و طرز تفکر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا
چانچہ اس سفر کے بہت سارے اہم واقعات( جن کو یہاں پر بیان کرنے کا موقع نہیں ہے ) سے قطع نظر کرکے ایک ایسے واقعہ کو بیان کرنے پر اکتفا کروں گا جس کا اس موضوع سے براہ راست تعلق ہے. یہ دراصل ایک ملاقات ہے میری اور ایک شامی باشندہ کی_ یہ شخص بھی سوریہ سے اس کورس میں شرکت کےلئے ایران آیا تھا. جو وہاں پر ہمارے ہی ہوسٹل میں رہ رہے تھے
ہم کئی روز سے ایک دوسرے کو دیکھ کر علیک سلیک کرکے اپنی
منزل کی طرف روانہ ہو جاتے تھے. لیکن ایک دن کچھ فرصت پا کر گفتگو کا موقع ملا . شخصی تعارف کے بعد ان سے میرے چند سوالات کچھ یوں تھے :

آپ کا پیشہ کیا ہے؟
شامی: میں شام کی آرمی میں کام کر رہا ہوں.
جب مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ آرمی کارکن ہے تب میری خوشی مزید بڑھ گئی اور بہت دلچسپی کے ساتھ گفتگو آگے بڑھنے لگی.
سوال: اگر آپ آرمی میں کام کر رہے ہیں تو یہاں ایران آنے کے لئے کیا ضرورت پیش آئی ؟ فارسی زبان سے آپ کا کیا تعلق ہے؟
جواب: میں شام میں شامی فوج کو کبھی فارسی سکھاتا ہوں اور مجھے ترجمہ کا کام بھی کرنا پڑتا ہے . جب ایران سے یا کسی دوسرے فارسی زبان والے ملک سے حکومتی عہدےدار دورے پر آتے ہیں مجھے اس وقت بحثیت مترجم بلایا جاتا ہے. اسی لئے میں ایران آیا تاکہ فارسی زبان کو مزید بہتر طور سیکھ سکوں_
سوال: اچھا یہ بتائے آپ کا تعلق فوج سے ہے اور شام اس وقت داعش کے چنگل میں ہے ، کیا آپ کو داعشی گروہ سے لڑنے کا موقع ملا ؟
جواب : جی ہاں میں بہت سارے اوپریشنز میں خود لڑنے گیا، بہت سارے دشمنوں کو مار گرایا لیکن کچھ مہینے قبل داعشیوں کے ساتھ جنگ کے دوران ان کی ایک گولی میری ٹانگ میں لگی جو یہاں پر لگی اور اس طرف باہر نکلی ( اپنی ٹانگ سے کپڑا اوپر کرکے مجھے زخم کا نشان دکھایا) اس کے بعد مجھے ہسپتال لے جایا گیا ، اوپریشن کے بعد ڈاکڑوں نے مجھے چالیس روز تک ریسٹ کرنے کو کہا-
اس دوران ایک شخص دور سے آتا دکھائی دیا جو سفید کُرتا پاجامہ پہنئے ہوئے تھا جس کی داڑھی بھی تھوڑی لمبی تھی ، شامی نے مجھ سے دھیمی آواز میں کہا دیکھو "داعش" آرہا ہے
مجھے بہت ہنسی آئی لیکن وہ نہیں ہنسا، وہ ایک دم سیریس موڈ میں اس شخص کی طرف دیکھ رہا تھا. میں نے کہا یہ داعش کیسے ہوگیا ؟ .
شامی: شام میں ہماری جنگ انھیں سے ہوتی ہیں- داعش کی شکل بالکل ایسی ہی ہے.
ارے میرے دوست یہ ایک بنگلادیشی باشندہ ہے اور مسلمان ہے ہمارے ہندوستان میں تو یہ عام رواج ہے اکثر مسلمان ایسے ہی شکل و صورت کے ہوتے ہیں وہاں انھے کوئی داعش نہیں کہتا- آپ کے وہاں شام میں شاید ایسا رواج نہ ہو .
شامی: جی وہاں کے مسلمانوں کا حلیہ ایسا نہیں ہوتا-

اچھا یہ بتائے ، جس وقت آپ کو گولی لگی اس وقت کیا حال تھا آپ کا .. ؟
جواب: مجھےدرد ضرور تھا ، لیکن میں رویا نہیں، کیونکہ میں مرد ہوں اور مرد کو رونا نہیں چاہئے.

سوال: جزاک اللہ خیر، اچھا یہ جو آج کل میڈیا پہ دکھایا جا رہا ہے کہ بشر الاسد کے خلاف لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور بشر الاسد کو ظالم کہتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: میڈیا کو یا تو اصلی حالات نہیں معلوم یا وہ مجبور ہیں ایسی غیر حقیقی خبریں دکھانے کے لئے. بشر الاسد بہت اچھا انسان ہے لوگ انھیں بہت چاہتے ہیں_ اس کا پتہ آپ کو اس بات سے بھی لگ سکتا ہے کہ جب وہ کسی شہر میں دورے پر جاتے ہیں تو لوگ جوق در جوق ان سے ملنے آتے ہیں ..لوگوں کے دلوں میں ان کی بہت عزت ہے. . یہ زرخرید میڈیا اصلی بات چھپاتا ہے کیونکہ حق بات ظاہر کرنے میں ان کا نقصان ہے
سوال : اچھا آپ ایک سنی مسلمان ہیں کیا وہاں اہل سنت پہ ظلم کیا جا رہا ہے ؟
جواب : جی میں سنی مسلمان ہوں اور بشر الاسد کی حکومت سے میں متفق ہوں کیونکہ ان کی طرف سے عوام محفوظ ہیں. وہ اپنے عوام کے لئے کام کرتے ہیں. یہ قتل و خونریزی جو شام میں دکھائی جا رہی ہے اور اس کا پروپگنڈا کیا جاتا ہے یہ دراصل امریکہ و اسرائیل کی مخصوص پالیسی ہے جو شام کے حالات سے فائدہ اٹھا کر بشر کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں . بشر الاسد چونکہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اسی لئے ایران دشمنی میں بشر بھی امریکہ کے نشانہ پہ ہے. انشاء امریکہ ناکام رہے گا.
آپ کا بہت بہت شکریہ.
اس کے بعد ہماری گفتگو دیگر شخصی مسائل کی طرف بڑھی اور آخر پر ایک یاد گار تصویر لے کر رخصت ہوئے-

Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 17360 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More