نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو اپنا
سفیر بنا کر مکہ معظمہ بھیجا کہ کفار و مشرکین سے مذاکرات کریں۔ کفار نے
پابندی لگا دی تھی کہ اس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام
رضی اللہ عنھم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ
عنہ سفیرِ رسول بن کر مذاکرات کے لئے حرمِ کعبہ پہنچے تو انہیں بتایا گیا
کہ اس سال آپ لوگ حج نہیں کر سکتے، تاہم کفارِ مکہ نے بزعم خویش رواداری
برتتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ چونکہ تم آگئے ہو، اس
لئے حاضری کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اگر چاہو تو ہم تمہیں طواف کی
اجازت دیتے ہیں لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کفار کی اس پیشکش کو
بڑی شان بے نیازی سے ٹھکرا دیا ۔ حضورنبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے بغیر طواف کرنا انہیں گوارا نہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بر
ملا کہہ دیا۔’’میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کروں گا جب تک حضورنبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔
:: بدايه والنهايه (السيرة)، 4 : 6167
تفسيرابن کثير، 4 : 187
سيرة الحلبيه، 2 : 7701
تفسيرطبری، 26 : 986
شفاء، 2 : 5594
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل سے رہتی دنیا تک دشمنانِ اسلام
کو جتلا دیا کہ ہم کعبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر کعبہ
مانتے ہیں اور اس کا طواف بھی اس لئے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اس کا طواف کرتے ہیں۔ |