احتساب یا انتقام۔۔۔۔؟

نَیب کی جانب سے میاں نوازشریف کے خلاف ساڑھے پانچ سو ارب روپے مَنی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھجوائے جانے کے الزام کا سُن کر ’’موگیمبوخوش ہوا‘‘۔ مَنی لانڈرنگ کے اِس الزام کی بازگشت تو گزشتہ تین سالوں سے سنائی دے رہی تھی لیکن انکوائری کا غلغلہ عین اُس وقت اُٹھا جب ساری سیاسی جماعتیں 2018ء کے عام انتخابات میں اُترنے کے لیے سَردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ جوڑتوڑ کی سیاست عروج پر ہے اور پنچھی اِدھر اُدھر ’’اُڈاریاں‘‘ مار رہے ہیں۔کچھ ایسے ہی مناظر2013ء کے عام انتخابات سے پہلے بھی نظر آتے رہتے تھے جب ’’لوٹے‘‘ دَھڑادَھڑ تحریکِ انصاف میں شامل ہو رہے تھے اور کپتان خوش کہ دوتہائی اکثریت ’’آوے ای آوے‘‘۔ ایسا ہو بھی جاتا لیکن کپتان کے خلاف ایک ’’گھناؤنی‘‘ سازش ہوئی، ساری عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نوازلیگ کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور کپتان کے ’’پَلّے کَکھ‘‘ نہ پڑا۔ ہمیں تو اِس بات کا پتہ بھی نہ چلتا لیکن کپتان نے خود ہی ایک پریس کانفرنس میں سارے راز افشاء کر دیئے۔ پینتیس پَنکچروں اور آراوز کے الیکشن کا ذکر تو ہم نے کپتان کے مُنہ سے متعدد بار سُنا لیکن ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اِس میں ملوث ہوگی ۔ اب چونکہ کپتان نے خود کہا ہے اور اُن کا فرمایا ہوا ’’مستند‘‘ ہوتا ہے اِس لیے یقین کیے بِنا کوئی چارہ نہیں۔ البتہ کل کلاں کپتان یوٹَرن لیتے ہوئے کہہ دیں کہ اُنہوں نے تو اسٹیبلشمنٹ کا نام ہی نہیں لیا تو ہم ذمہ دار نہیں۔

جو الزام عمران خاں لگاتے رہے ہیں،اب وہی الزام پوری شَدومَد کے ساتھ میاں نوازشریف بھی لگا رہے ہیں۔ وہ عمران خاں کو کَٹھ پُتلی اور ’’لاڈلا‘‘ کہتے ہیں جس کی مدد کو ’’خلائی مخلوق‘‘ اُتر آئی ہے۔ میاں صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ عمران خاں کی جماعت میں جا نہیں رہے بلکہ بھیجے جا رہے ہیں لیکن ہمیں اِس سے اتفاق نہیں کیونکہ ’’لوٹوں‘‘ کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔ اُنہیں تو ہمیشہ اپنے ’’پاپی پیٹ‘‘ کی فکر ہوتی ہے۔ ہمیں لوٹوں کے لُڑھکنے میں خلائی مخلوق کا کوئی ہاتھ نظر نہیں آتا، ایسا تو ہر انتخاب سے پہلے ہوتا ہی رہتا ہے اور یہ ایسی رسمِ بَد ہے جس سے جان چھڑانا ناممکن۔

بات میاں نوازشریف پر نَیب کے الزام سے شروع ہوئی لیکن نکل کسی دوسری طرف گئی۔ آمدم بَر سَرِ مطلب، میاں نوازشریف پر مَنی لانڈرنگ کے الزام کی انکوائری کا حکم ایک اخباری کالم کے مَندرجات کو بنیاد بنا کر دیا گیا۔ اِس کالم میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ میاں صاحب نے 4.9 ارب ڈالر مَنی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھجوائے تھے۔یہ کالم اِس سال یکم فروری کو اسلام آباد کے ایک اخبار میں چھپاتھا لیکن چونکہ نیب نئے چیئر مین کے آنے کے بعد اتنی زیادہ مصروف ہو چکی ہے کہ اُسے سَر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ،اِس لیے ساڑھے تین ماہ بعد اِس ’’کالمی الزام‘‘ کی باری آئی۔ کچھ لیگئیے یہ الزام دھرتے ہیں کہ نَیب جانبدار ہو چکی اِسی لیے اُس نے نوازلیگ کو ’’ رَگڑا‘‘ دینے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب عام انتخابات سَر پر ہیں۔ سونامیے تو اِس الزام پر خوشی سے کلکاریاں مار رہے تھے لیکن جب میاں نوازشریف گرجے برسے اور بے اختیار ہونے کے باوجود چیئرمین نَیب سے جواب ہی طلب کر لیا توسونامیوں کی سونامی ’’ٹھنڈی ٹھار‘‘ ہو گئی اور ’’لو آپ اپنے دام میں صیادآگیا‘‘ کے مترادف چیئر مین نیب کو بھی لینے کے دینے پڑ گئے ۔ اب وہ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ نون کے قائد میاں نوازشریف نے جمعرات 11 مئی کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نَیب اُن پر لگائے گئے الزامات کا ثبوت دیں یا پھر کھُلے عام قوم سے معافی مانگ کر استعفےٰ دیں۔ چیئرمین بتائیں کہ اچانک رات کے وقت پریس ریلیز کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ اُنہوں نے فرمایا ’’آمر کا بنایا ہوا قانون ختم ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں کی جمہوری قانون چلے گا یا ڈِکٹیٹر کا؟۔ میں نَیب کی جانبداری ، اُس کے غیرمنصفانہ رویے، بڑی حد تک متعصب اور عناد پر مبنی رویے کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں۔ چیئرمین نَیب کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز نے میری باتوں کی توثیق کر دی‘‘۔ میاں صاحب نے سوال کیاکہ کیا نَیب کو نہیں معلوم کہ دو سال پہلے سٹیٹ بینک نے اِس کی تردید کر دی تھی اور ورلڈ بینک نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ مَنی لانڈرنگ ہوئی نہ اِس میں کسی شخص کا نام ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ موجودہ پریس ریلیز اِس بات کا کھُلا ثبوت ہے کہ نَیب اپنی ساکھ کھو چکی، اعتبار ختم ہوچکا اور اُس کا متعصب چہرہ بے نقاب ہو چکا۔ میاں صاحب نے کہا ’’یہ سب کچھ انتخابات سے پہلے شرمناک اور قبل اَز انتخاب دھاندلی ہے۔ ہم ساکھ سے محروم ہونے والے کسی ادارے کا لقمہ بننے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

میاں نوازشریف نے جو کچھ کہا ،وہ سب بجا اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج نَیب کا سب سے بڑا ٹارگٹ نوازلیگ ہی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب اُنہیں پتہ تھا کہ ایک آمر نے محض انتقامی کارروائیوں اور بلیک میلنگ کے لیے نَیب جیسا ادارہ تشکیل دیا تو اُنہوں نے اِس ادارے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟۔ پیپلزپارٹی تو اپنے دَورِحکومت میں اِس ادارے سے جان چھُڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن اُس کے پاس ارکانِ پارلیمنٹ کی مطلوبہ تعداد ہی نہیں تھی اور نوازلیگ اُس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھی کیونکہ اُس وقت پیپلزپارٹی کو ’’رَگڑا‘‘ لگ رہا تھا جس پر نوازلیگ خوش تھی۔ اب نوازلیگ کے گرد نَیب کا گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر پیپلزپارٹی خوش ہے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہیں گے۔

میاں صاحب کو یہ تو یاد ہی ہوگا کہ موجودہ چیئرمین نَیب پیپلزپارٹی اور نوازلیگ نے باہمی مشاورت سے لگایا ۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام دراصل پیپلزپارٹی نے پیش کیا،جسے نوازلیگ نے تسلیم کر لیا۔ اب وزیرِاعظم کا اِس پر پچھتاوے یا شرمندگی کا اظہار بے وقت کی راگنی ہے کیونکہ یہ تو طے کہ جب سانپ نکل جائے تو پھر لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی سیانے کہہ گئے ’’آپے پھاتھڑیئے تَینوں کون چھَڈاوے‘‘۔ اِس پنجابی محاورے کا فارسی میں مطلب ’’خود کردہ را علاجے نیست ‘‘ہے۔ (ہم اِس مطلب اُردو میں اِس لیے نہیں لِکھ رہے کہ کچھ ’’بڑوں‘‘ کو اُردو زبان سے چِڑ بلکہ نفرت ہے اور یہ زبان تو ہم جیسے ’’مِڈل اور لوئر مِڈل کلاسیوں‘‘ کے لیے ہے۔ اِسی لیے تو اِسے آج تک قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا)۔

حرفِ آخر یہ کہ ہمیں یقین، چیئرمین نیب استعفےٰ دیں گے نہ معافی مانگیں گے کیونکہ اُن کا ’’کِلّہ‘‘ مضبوط اور نوازلیگ کی حکومت کے ’’پَلّے کَکھ نئیں‘‘۔ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی چیئرمین نَیب کو پارلیمنٹ میں بلانے کی لاکھ بڑھکیں ماریں لیکن ہوگا کچھ بھی نہیں کیونکہ چیئرمین نَیب کو ہٹانے کے لیے کوئی آئینی و قانونی طریقہ ہے تو صرف یہ کہ اُن کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا جائے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو سینئرترین ججز اور ہائیکورٹس کے دو سینئرترین چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر یہ کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچ بھی جاتا ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا ؟۔۔۔۔۔ سبھی جانتے ہیں۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 645165 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More