گروہ صوفیاء میں ایک عظیم نام’’ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ
اﷲ علیہ ‘‘کا ہے ۔ سید الاولیاء حضرت داتا گنج بخش سیدنا علی ہجویری رحمۃ
اﷲ علیہ نے اپنی کتاب مستطاب ’’کشف المحجوب ‘‘میں آپ کا تذکرہ خوبصورت
الفاظ میں فرمایا ۔ آپ فرماتے ہیں ’’انہیں میں سے سفینۃ التحقیق وکرامت ،شمشیر
شرف وولایت ابوالفیض حضرت ذوالنون بن ابراہیم مصری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں ۔ آپ
نہایت خوش خُلق تھے ۔آپ کو ’’ثوبان‘‘ کے نام سے پکارا جاتاتھا ۔خاندانی
حیثیت سے عالی اور اہل طریقت میں عارف اور صوفی کامل مانے گئے ہیں ۔آپ
طریقہ ٔ ملامتیہ پر تھے ۔اسی وجہ سے اہل مصر کی نظر وں سے آپ کے مناصب عالی
مخفی رہے ۔کوئی آپ کو بری نظر سے دیکھتا ،کوئی معمولی آدمی سمجھتا،غرضیکہ
جب تک آپ مصر میں رہے کسی نے آپ کے حال ِ باطن اور جمال ِایمانی کا نہ
پہنچانا ،جب آپ کی رحلت ہوئی اورجس رات دنیا سے کوچ فرمایاتو شہر کے ستر
آدمیوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور یہ فرماتے
سنا کہ : ’’اﷲ کا دوست ذوالنون مصری آرہاہے ،ہم اس کے استقبال کو آئے ہیں
۔‘‘جب وفات ہوگئی تو آپ کی پیشانی پر بخط جلی لکھا ہوا پایا :’’ھٰذَا
حَبِیْبُ اللّٰہِ مَاتَ فِیْ حُبِّ اللّٰہِ قَتِیْلُ اللّٰہِ ‘‘یہ خدا کا
محبوب ہے اﷲ کی محبت میں وفات پائی یہ قتیل اﷲ ہے ۔جب آپ کا جنازہ اٹھایا
گیا تو مرغان ِ ہوائی (پرندے )آپ کے جنازہ پر اس طرح چھا گئے کہ پر سے پر
ملاکر مثل ِ ابر ،(بادل کی طرح)سایہ کناں تھے ۔ اہالیان ِ مصر نے جب آپ کا
یہ درجہ ٔ رفیع دیکھا تو پچھتائے اور جو لوگ آپ کو بری نظر سے دیکھتے تھے
تائب ہوئے ۔ ‘‘﴿کشف المحجوب : ۲۲۶﴾ذیل کی سطور میں آپ کے قیمتی و انمول
ملفوظات نقل کئے جاتے ہیں جنہیں آپ نے تذکرہ نگاروں نے صحیح اسناد کے ساتھ
روایت کیا ہے ۔
(۱۔)یوسف بن حسین فرماتے ہیں میں نے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اﷲ علیہ سے سنا
’’اے مریدین تم میں سے اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ (کی معرفت )کے راستے کی طرف
جانے کا ارادہ کرتا ہے تو ( وہ کچھ آداب سیکھ لے )جب علماء سے ملے تو جاھل
بن کر ملے(یعنی جانتا بھی ہو تب بھی جاہل بن کرملاقات کرے تاکہ جتنا علم ان
سے مل سکتا ہے لے سکے )اور زاہدین ،عبادت گزاروں (یعنی صالحین امت) سے ملے
تو محبت اور رغبت سے ملے (تاکہ ان کی روحانیت سے کچھ حاصل کرسکے)اور عارفوں
(معرفت رکھنے والوں ) سے(جب) ملے تو گونگا بن کر ملے (یعنی ہمہ تن گوش ہوکر
ان کی گفتگو کو سنتا رہے کلام نہ کرے ۔) ﴿حلیۃ الاولیاء:۳ /۱۰﴾
(۲۔)یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا’’معرفت تین
طریقے سے حاصل ہوسکتی ہے (۱)معاملات میں غوروفکر کے ذریعے کہ اﷲ عزوجل نے
کس طرح ان کی تدبیر فرمائی ،(۲)تقدیر میں غور وفکر کے ذریعے کہ کس طرح اﷲ
نے لکھی ،(۳) مخلوقات میں غوروفکر کے ذریعہ کہ کس طرح اﷲ نے انہیں پیدا
فرمایا ۔﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۶۹﴾
(۳۔)یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ یوں دعافرمایا کرتے تھے
:’’اے پروردگار! شیطان تیرا اور ہمارا دشمن ہے ۔اور اس شیطان اس سے زیادہ
ناپسندیدہ اور ناگوار کوئی بات نہیں لگتی کہ تو ہمیں بخشش دے ۔تو اے اﷲ
ہماری بخشش فرمادے ۔﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۸۴﴾
(۴۔)محمد بن سعید الخوارزمی فرماتے ہیں میں حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ
کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے محبت کے متعلق سوال کیا :آپ نے فرمایا
جس سے اﷲ محبت فرمائے اس سے تم محبت کرو اور جسے اﷲ ناپسند فرمائے تم بھی
اسے ناپسند کرو۔ سراسر خیر انجام دو ،اﷲ سے غافل کرنے والی چیزوں کو رد
کردو ،اﷲ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کرو۔مؤمنین
پر شفقت ومہربانی سے کام لو اور کفار پر سختی کرو اور دین میں رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو۔ ﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۹۴﴾
۵۔عباس بن حمزہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ذوالنون مصری سے فرماتے ہوئے سنا
:کہ اﷲ کی معرفت رکھنے والا عارف ہمیشہ ایک حالت پر نہیں ہوتا۔وہ اپنے ہر
حال کے معاملات کو اپنے رب کے سپر د کرتا ہے ۔﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۹۵﴾
۶۔محمد بن میمون فرماتے ہیں کہ میں نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ سے سنا : فرمایا
ایسے شخص کی ہم نشینی اختیار کرجس کا اندرون( یعنی اُس کی خوبیاں) تجھ سے
ہم کلام ہوں ۔اور ایسے شخص کی ہم نشینی اختیار مت کر جس کی صرف زبان تم سے
گویا ہو ۔( یعنی اس کے قول وعمل میں تضاد ہو )﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۸۷﴾
۷۔علی بن عبد اﷲ کہتے ہیں میں نے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اﷲ علیہ سے فرماتے
ہوئے سنا :’’عبادت کی چابی تفکر ہے (اتنی فکر کا قائم ہونا کہ کس کی بارگاہ
میں حاضری ہونے والی ہے )ہوی کی علامت شہوات کی اتباع ہے اور توکل کی علامت
اپنی تمام خواہشات کو ختم کر دینا ہے ۔﴿حلیۃ الاولیاء:۹/۳۹۵﴾
۸۔یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اﷲ علیہ سے
فرماتے ہوئے سنا : آپ نے فرمایا کہ صالحین کی صحبت اختیار کرو ۔اس سے زندگی
خوشگوار ہوتی ہے کیونکہ نیک دوست میں ساری بھلائی جمع ہوتی اگر تم غافل
ہوجاؤ تو وہ نیک دوست غفلت سے ذکر کی جانب لاتا ہے اور اگر ذکر میں مشغول
ہو تو وہ نیک دوست تمہاری مدد کرتا ہے ۔﴿صفوۃ الصفوۃ :۳۱۵،۴/۳۱۶﴾
مشتے نمونہ از خروارے (تفصیل مطلوب ہو توابو نعیم اصفہانی حلیۃ الاولیاء
جلد نہم ،ابن الجوزی کی صفوۃ الصفوۃ جلد چہارم ،اور حافظ ابن عساکر کی
تاریخ دمشق کی جلد سترہ کا مطالعہ فرمائیں ) |