مدرس: حضرت مولانا پیرزادہ محمد رضاثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
مرتب: وسیم احمد رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلوٰۃ و السلام علیٰ سید الانبیاء و المرسلین۔
قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن المجید و الفرقان الحمید
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا
کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ
البقرۃ ۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں
تمہیں پرہیز گاری ملے۔ (کنزالایمان)
صدق اللّٰہ مولانا العظیم و صدق رسولہٗ النبی الکریم الرؤف الرحیم
اللّٰہم نوِّر قلوبنا بالقرآن و زیِّن اخلاقنا بالقرآن واخدلناالجنۃ
بالقرآن و نجنا من النار بالقرآن
قال اللّٰہ تعالیٰ و تبارک فی شان حبیبہٖ
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْنَّبِیِّ یٰا
اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا محبوبَ ربِّ
العلمین
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا حبیبَ اللّٰہ
الصلٰوۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ و علٰی آلک و اصحابک یا نبیَ الرحمۃ
تمام حمد و ثناء، تعریف و توصیف اﷲ جل مجدہٗ الکریم کی ذات با برکات کے لیے؛
جو خالقِ کائنات بھی ہے اور مالک شش جہات بھی۔ اﷲ جل و اعلیٰ کی حمد و ثناء
کے بعد حضور نبی اکرم، شفیعِ اُمم، رسولِ محتشم، نبیِ مکرم، اﷲ کے پیارے،
امت کے سہارے، رب کے محبوب، دانائے غیوب، مالکِ رکابِ اُمم، فخرِ عرب و عجم،
والیِ کون و مکاں سیاحِ لامکاں، سیدِ اِنس و جاں، سرورِ لالہ رُخاں، نیّرِ
تاباں، سر نشینِ مہ وشاں، ماہِ خوباں، شہنشاہِ حسیناں، تتمۂ دوراں، سرخیلِ
زُہرہ جمالاں، جلوۂ صبح ازل، نورِ ذاتِ لم یزل، باعثِ تکوینِ عالم، فخرِ
آدم و بنی آدم، نیّرِ بطحا، راز دارِ ما اوحیٰ، شاہدِ ماطغیٰ، صاحبِ الم
نشرح، معصومِ آمنہ، احمدِ مجتبیٰ، حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
حضورِ ناز میں اپنی عقیدتوں، ارادتوں اور محبتوں کا خراج پیش کرنے کے بعد!
معزز، محترم،محتشم سامعین، عالی مرتبت علمائے کرام،خواتین و حضرات!
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہٗ!
آج کی اس نشست میں روزہ اور اس کے ثمرات کے حوالے سے کچھ گفتگو آپ کے گوش
گزار کروں گا۔ اﷲ تعالیٰ میری زبان پہ کلمۃ الحق جاری فرمائے۔(آمین)
قرآن مجید سے جو آیتِ نور مَیں نے آپ کے سامنے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا
اس میں اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا : ’’اے ایمان والو! تمہارے اوپر
روزے فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلوں پہ فرض کیے گئے تھے۔ تاکہ
تمہیں تقویٰ ملے۔‘‘ ألصوم فی اللغت ألامساک۔ روزہ لغت میں رک جانے کو کہتے
ہیں۔ جب ہوا کے تیز جھکڑ چلتے چلتے رک جاتے تو اہلِ عرب کہتے صامت الریح کہ
ہوا رک گئی۔ تیز دوڑتا ہوا گھوڑا جب اچانک ٹھہر جاتا تو کہتے صام الخیل منہ
زور گھوڑا رک گیا۔ روزے کو بھی روزہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نفس کا سر کش
اور منہ زور گھوڑا رمضان میں رک جاتا ہے۔ اور جو اﷲ کے حکموں کو ڈھٹائی سے
توڑتے ہیں؛ رمضان میں ان کے سر بھی سجدوں میں دیکھیں۔ اس لیے صوم کو ’صوم‘
کہا جاتا ہے کہ اس میں انسان گناہ سے رک جاتا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں طلوعِ فجرِ ثانی سے غروب آفتاب تک اَکل و شرب اور جماع
سے قصداً رُکے رہنے کو روزہ کہا جاتا ہے۔ روزے کی تاریخ کے حوالے سے علامہ
اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ ملکطمہورث ثالث
کے دور میں قحط پڑا یہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے تیسرا بادشاہ ہوا
ہے۔ تواس نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ ایک وقت کا کھانا کھائیں اور ایک
وقت کا کھانا بچا کر قحط زدہ علاقوں میں بھیجیں تاکہ دکھیوں اور مجبوروں کی
مدد ہوسکے۔ ملک طمہورث الثالث کے اس حکم کو قوم نے قبول کیا اور ایک وقت کا
کھانا بچا کرکے قحط زدہ علاقوں میں بھیجا۔ اس قوم کی یہ ادا اﷲ کو پسند
آگئی تو اﷲ نے اس کو عبادت قرار دے دیا۔ پھر اس کے بعد ہر نبی پر روزہ فرض
ہوا۔ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ اس پہ شاہدِ عادل ہے۔
حضور علیہ السلام فرضیت روزہ سے قبل ایام بیض کے روزے رکھا کرتے تھے۔ ہر
ماہ کی ۱۳؍، ۱۴؍ اور ۱۵؍ تاریخ کو قمری تقویم کے حساب سے جو روزے رکھے جاتے
ہیں؛ ان کو ایام بیض کے روزے کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر عاشورہ کا
روزہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے معمول بنایا اور اس کو کسی صورت بھی حضور
اور صحابہ ترک نہیں کرتے تھے۔ فصام رسول اللّٰہ و امر بصیامہ۔(صحیح مسلم،
باب صوم یوم عاشورہ) حضور نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا
کہ یہ روزہ رکھیں۔ لیکن جب سن ۲؍ ہجری کو واقعۂ بدر سے ایک مہینہ قبل ۱۷؍
شعبان المعظم کو روزہ فرض کیا گیا تو پھر حکم دے دیا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا اب جس کا جی چاہیے عاشورے کا
روزہ رکھیں اور جس کا جی چاہے ترک کردے۔ لیکن اس سے قبل وہ روزہ رکھنا امت
پر ضروری تھا۔
اب ایامِ معدودۃ یعنی گنتی کے دن اور وہ ۲۹؍ یا ۳۰؍ دن ہیں؛ ان کے روزے امت
پر فرض کر دیے گئے ۔ سن ۲؍ ہجری میں روزہ فرض ہوا۔ حضور نے ۱۱؍ ہجری کو
رمضان سے قبل ہی ربیع الاول شریف کے مہینے میں انتقال فرمایا۔ اس طرح
حضورعلیہ السلام کی (ظاہری)زندگی میں کل ۹؍ رمضان آئے۔۲؍ ہجری کو شامل کرکے
۹؍ رمضان زندگی میں کل آئے۔ جس میں ۲؍ رمضان ۳۰؍ کے تھے اور باقی ۷؍ رمضان
۲۹؍ کے تھے۔ اور یہ بات ذہن میں رہے کہ کہ روزے ۲۹؍ ہوں یا ۳۰؍ ہوں؛ اﷲ
ثواب ۳۰؍ کا ہی عطا فرماتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص بھول کر کھالے ؛ حدیث میں
آتا ہے کہ اس کو اﷲ نے کھلایا اس کو اﷲ نے پلایا ۔ اس نے کھا بھی لیا اس نے
پی لیا لیکن اس کا روزہ بھی باقی رہا۔ اسی طرح اگر چاند ۲۹؍ کا نظر آجائے
تو ثواب اﷲ ۳۰؍ کا ہی عطا فرماتا ہے۔ یہ اس کی کرم نوازی ہے اپنے بندوں پہ۔
روزہ ڈھال ہے اور جہنم سے آزادی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ روزہ اﷲ اور بندے کے
مابین ایک راز ہے۔ روزہ نور ہے؛ ضیاء اور روشنی ہے۔ اور آقا کریم ﷺ نے روزے
کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر شئے کی کوئی زکوٰۃ ہوتی ہے
انسان کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ اگر روزہ رکھے گا تو جسم زکوٰۃ ادا کرے گا۔
جس طرح زکوٰۃ سے مال پاک ہوتا ہے؛ روزے سے جسم پاک ہوجاتا ہے اور روزہ ویسے
بھی انسان کے لیے شفا کا پیام ہے۔ فرمایا کہ سحری کھایا کرو! کیوں کے سحری
کے کھانے کے اندر بھی اﷲ نے برکت رکھی ہے۔
یہ ماہِ صیام اپنے دامن میں برکتیں لے کر رحمتیں لے کر نازل ہوتا ہے۔ اس کا
پہلا حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا مژدۂ جاں
فزاں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اﷲ نے میری امت کو رمضان المبارک کے روزے کے
حوالے سے پانچ چیزیں ایسی عطا کی ہیں؛ جو اس سے قبل کسی امت کو نصیب نہیں
ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ رمضان المبارک کے اندر روزہ رکھنے والے کے میدے سے جو
بو نکلتی ہے؛ اﷲ کو وہ مشک سے زیادہ محبوب ہے۔ دوسری بات کہ جب ماہ صیام
آتا ہے تو شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ تیسری بات کہ روزے دار جب تک روزے
میں رہتا ہے فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور چوتھی بات
جب ماہ صیام کی آخری کی رات آتی ہے تو اس کے سارے گناہوں کو بخش دیا جاتا
ہے اوراس کو جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے۔ بلکہ ایک صحابی نے حضور
سے عرض کی کہ آقا کریم! جو یہ جہنم سے آزادی کاپروانہ مومن کو ملتا ہے تو
کیا یہ لیلۃ القدر کی رات ہے؟ تو آقا کریم نے فرمایا نہیں؛ جب مزدور اپنی
مزدوری مکمل کرتا ہے، جب اس کی دہاڑی پوری ہوجاتی ہے جب پھر اس کو اس کا
مالک کچھ دیتا ہے۔ تو یہ جواس کو بخشش اور مغفرت کا مژدۂ جاں فزاں دیا جاتا
ہے یہ اس کی مزدوری ہے۔ اور فرمایا جو لیلۃ القدر کی برکتیں اسے حاصل ہوتی
ہے یہ اُس کے علاوہ ہے۔ اور یہ اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے خاص کرم نوازی فرمائی
بندۂ مومن پر کہ اس کو یہ بابرکت رات عطا فرمائی ۔ اور پانچویں فضیلت جو اس
روزہ دار کو دی گئی؛ اور حضور سے قبل جو لوگ روزہ رکھتے تھے یہ فضیلتیں ان
کو نہیں عطا کی گئیں ؛ جنت کو پورا ماہ مومن کے لیے آراستہ و پیراستہ کیا
جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جس کو امام بخاری و
امام مسلم نے روایت کیا کہ آقا کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قال
اللّٰہ عز و جل اﷲ جل شانہٗ ارشاد فرماتا ہے: کل عمل ابن آدم لہ ابن آدم کا
ہر عمل اسی کے لیے ہے ۔ الا الصوم، فانہ لی ہاں! روزہ ہے؛ جو وہ میرے لیے
رکھتا ہے۔ و انا اجزی بہٖ اور اس کی جزامَیں اسے انہیں دوں گا۔ والصیام جنۃ
اور روزہ ڈھال ہے، فاذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یفسق ولا یصخب۔ فان
سابہ احد او قاتلہ، فلیقل انی صائم۔ والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم
اطیب عنداللّٰہ من ریح المسک۔ للصائم فرحتان یفرحھما: اذاافطر فرح بصومہ، و
اذا لقی ربہ فرح بصومہ۔فرمایا جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے تو اس کا یہ عمل
اﷲ کے لیے ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ اس کی جزا دے گا۔ روزہ ڈھال ہے۔ جب کوئی شخص
روزہ رکھے؛ تو وہ اس کے اندر اﷲ کی کوئی نا فرمانی نہ کریں۔ یہاں تک کہ اگر
اس کو کوئی شخص گالی بھی دے تو وہ یہ کہے کہ میرا روزہ ہے۔ مَیں صائم ہوں۔
مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ کَہ کے لڑنے والے کو الجھنے والے کو ٹال دے۔
حضور نے ارشاد فرمایا مجھے قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے؛
کہ روزہ دار کے میدے سے جو بو نکلتی ہے اﷲ کو وہ مشک یعنی کستوری کی خوش بو
سے زیادہ محبوب ہے۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں؛ ایک خوشی اس کو اُس
وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ اور دوسری خوشی اُس کو اُس وقت ملتی
ہے کہ جب اِس روزے کے صلے میں اسے اپنے رب کا دیدار نصیب ہوگا۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس دنیا پر سب سے بڑی دولت جو حضرت انسان کو دی
گئی ہے وہ دولت ایمان ہے۔ اور قیامت کے دن سب سے بڑی دولت جو اہلِ ایمان کو
دی جائے گی؛ وہ اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ جنت کے حور و قصور، جنت کے محلات؛
جنت کی عالی نسب نعمتیں، دنیا کی کوئی دولت اور دنیا کی کوئی نعمت ؛جنت کی
اس نعمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن جنت والے جنت میں جاکر جس نعمت کو سب
سے بڑا سمجھیں گے اور وہ ہوگی بھی حقیقت میں سب سے نعمت؛ ایسی نعمت کہ اس
نعمت کے ملنے پہ باقی ساری نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ وہ یہ ہے کہ رب اپنے
رُخِ کرم سے پردے ہٹا دے گا۔ اور ان کو اپنا دیدار عطا فرمادے گا۔ تو یہ سب
سے بڑی دولت جو مومن کو آخرت میں نصیب ہوگی یہ روزے کے صلے میں نصیب ہوگی۔
یہ روزے کا وہ ثمر ہے ، یہ روزے کا وہ پھل ہے جو اﷲ اہلِ ایمان کو قیامت کے
د ن عطا فرمائے گا۔ اجزی بہ اس کا معنی ہے کہ مَیں جزا دوں گا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جو اعمال ہیں وہ سات طرح کے ہیں۔ دو اعمال ایسے
ہیں کہ جو واجب کرتے ہیں۔ دو اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا ان کی مثل ہے۔اور
ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزا دس گنا ہے۔ اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزا
سات سو گنا ہے۔ اور ایک عمل ایسا ہے جس کی جزا بے حساب ہے۔ فرمایا وہ دو
عمل جو واجب کرتے ہیں؛وہ یہ ہیں کہ اگر کسی شخص نے اﷲ کی عبادت کی اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا تو جنت کو یہ اعمال واجب کردیتے ہیں۔کہ اس
کو جنت کا ملنا لازم ہے ضروری ہے واجب ہے اس کے لیے۔ اور دوسرا وہ شخص؛ جس
نے اپنے رب کے حقوق کو توڑا؛ یہاں تک کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا
؛اس کے اوپر جہنم واجب ہے۔ اور دو وہ عمل جن کی جزا ان کی مثل ملے گی۔ ایک
وہ گناہ جو اس نے کیا۔ تو اس کی سزا اس کے مثل دی جائے گی۔ اور دوسری وہ
نیکی جو اس نے کی نہیں ہے لیکن اس کا عزم کیا تھا تو اس کو بھی ایک نیکی کا
ثواب دے دیا جائے گا۔ایک عمل وہ ہے جس کے بدلے کے اندر دس گنا اس کو اجر
دیا جاتا ہے ۔ اور فرمایا اِس سے اُس کے نیک اعمال مراد ہیں۔ اور فرمایا کہ
جو اس کا چھٹا عمل ہے وہ ایسا ہے جس کے بدلے کے اندر اس کو سات سو گنا اجر
دیا جاتا ہے؛ اور وہ راہِ خدا میں اس کا صدقہ کرنا ہے۔ اور فرمایا ایک عمل
ایسا ہے جس کی جزا کا دنیا پر کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ اور وہ بندے کا اﷲ کے
حضور اپنے روزے کے ساتھ پیش ہونا ہے۔
تو روزہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی جزا کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ اﷲ کے
علم میں ہے کہ وہ اپنے بندے کو اُس کی کتنی جزا اور اُس کا کتنا صلا عطا
فرمادیتا ہے۔ تو یہ اجر ہے نیکی کا ۔ اور آقا کریم علیہ السلام نے ارشاد
فرمایا روزہ ڈھال ہے اور جہنم سے بچنے کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔
روزے کے منجملہ ثمرات میں سے ایک ثمرہ مرتبۂ احسان کا حاصل ہونا ہے۔ مرتبۂ
احسان کیا ہے؟ اس پر حدیثِ جبریل مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ جس کو
امام بخاری نے اور دیگر ائمۂ احادیث نے ذکر کیا ہے۔ مسجد نبوی کا ماحول تھا
۔ مدینہ شریف کی فضائیں تھیں۔ صحابہ حضور کی صحبت میں جلوہ فراز تھے ۔ نور
بٹ رہا تھا ۔ اجالے اُتر رہے تھے۔ صحابہ کے مَن روشنی سے مالامال تھے۔ حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آیا جس کی گھنی سیاہ
داڑھی تھی۔ اور اس کا سفید لباس تھا۔ ہم میں سے اسے کوئی جانتا بھی نہیں
تھا۔ لیکن اپنے وجود کی تروتازگی کی وجہ سے وہ مسافر بھی دکھائی نہیں دیتا
تھا۔ کیوں کہ مسافر ہوتا تو آثار سفر اس کے بدن سے ظاہر ہوتے ۔ لگتا تھا کہ
یہی کسی گلی سے نکل کے آیا ہے۔ لیکن چوں کہ وہ وہاں کا رہنا والا نہیں تھا
ہم میں سے اسے کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا۔ اب وہ حضور کی خدمت میں آیا
فاسند رکبتیہ الیٰ رکبتیہ اور اپنے گھٹنوں کو جوڑ کر حضور کے گھٹنوں کے
ساتھ ملا کر بیٹھ گیا۔ اور حضور علیہ السلام سے عرض کرتا ہے کہ حضور مجھے
خبر دیجیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضورنے ارشاد فرمایا ایمان یہ ہے کہ تُو اﷲ پر
ایمان لائے ، اس کے رسول پر ایمان لائے، پچھلی کتابوں پہ ایمان لائے ، اچھی
بری تقدیر پہ ایمان لائے، فرشتوں پہ ایمان لائے۔ بتایا حضور نے۔ تو اس نے
کہا صدقت آپ نے سچ کہا۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ خود ہی
سوال کرتا ہے اور خود ہی تائید کردیتا ہے۔ پھر کہنے لگا اسلام کیا ہے؟ حضور
علیہ السلام نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُو نماز پڑھے، روزہ رکھے، حج کرے
، زکوٰۃ ادا کرے؛ اراکین اسلام اُس کو بیان کیے۔ وہ کہنے لگا آپ نے سچ کہا
۔ کہتے ہیں ہمیں پھر تعجب ہوا کہ خود ہی بات کہتا ہے پھر خود ہی اس کی
تصدیق کر رہا ہے۔ کہتے ہیں پھر وہ پوچھتا ہے من احسان؟ حضور! احسان کیا ہے؟
تو حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ احسان یہ
ہے کہ تُو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ
کیفیت تجھے نصیب نہیں ہوتی تو کم از کم یہ کیفیت تجھے نصیب ہوجائے کہ وہ
تجھے دیکھ رہا ہے فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ تو وہ کہنے لگا ہاں! آپ نے سچ
کہا۔پھر اس کے بعد اس نے قیامت کی کچھ نشانیوں کے بارے میں سوالات کیے۔ تو
حضور علیہ السلام نے جواب مرحمت فرمائے۔ جب وہ شخص اٹھ کے چلا گیا تو حضور
نے فرمایا عمر !جانتے تھے کہ یہ شخص کون تھے؟کہا اللّٰہ و رسولہ اعلم اﷲ
اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔فرمایا ھٰذا جبریل یہ جبریل امین تھا اور
تمہیں تمہارا دین سِکھانے کے لیے آیا تھا۔ جبریل نے جب امت کو دین سکھایا
تو سب سے پہلے یہ بات سکھائی کہ حضور کی چوکھٹ پہ بیٹھنے کا ادب کیا ہے؟
دونوں گٹھنے بچھا کر وہ اس طرح حضور کی چوکھٹ پہ ادب کے ساتھ بیٹھا اور اس
کے بعد حضور سے اس نے سوالات کیے۔ تو حضور نے فرمایا کہ یہ جبریل امین تھے
جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ تو جبریل امین نے جو دین
سکھایا جو چیزیں پوچھیں وہ تین چیزیں تھیں؛ ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟
اور احسان کیا ہے؟تو احسان تیسری چیز ہے جس کو ہم اپنی زبان کے اندر’’
تصوف‘‘ کہتے ہیں۔ جس کو ہم ’’ طریقت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس کو درجۂ احسان
یا مرتبۂ احسان کہا جاتا ہے اور یہ دین کی روح ہے۔
جو لوگ طریقت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ دین کی روح کا انکار کرتے ہیں۔ تو حضور
علیہ السلام نے جو طریقت بیان فرمائی ؛وہ یہ تھی کہ اﷲ کی عبادت تو اس طرح
کرے کہ جس طرح تُو اسے دیکھتا ہے۔ اگر یہ کیفت مل جائے تو سبحان اﷲ ! لیکن
اگر یہ کیفیت نہیں ملی تو کم از کم یہ کیفیت تو ملے کہ وہ اﷲ مجھے دیکھ رہا
ہے۔ اور اگر یہ کیفیت بھی مل جائے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو بتائیے! کہ
پھر انسان کی زندگی میں کتنا سرور آجائے گا کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑا ہو
تو اس تصور میں ڈوب جائے کہ میرا مالک تو مجھے دیکھ رہا ہے۔تو پھر نماز کا
کتنا سُرور آجائے گا اس کو۔ اور جب کوئی اور نیک عمل کررہا ہو تواس تصور
میں ڈوب جائے کہ میرا مالک میرے اوپر نگاہِ لطف فرما رہا ہے؛ تو پھر اس کی
کیفیت کا عالم کیا ہوگا؟ تو پہلی کیفیت کہ تُو اسے دیکھ رہا ہے؛ حضرت علی
المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ جس رب کی عبادت کرتے ہو؛
کیا اُس کو کبھی دیکھا بھی ہے؟ تو حضرت علی المرتضیٰ نے جواباً کہا لم اعبد
رباً لم اراہٗ اے صاحب! کبھی کبھی کی بات کیا کرتا ہے علی اتنی دیر تک سجدے
سے سر ہی نہیں اُٹھاتا جب تک اس کے جمالِ جہاں آرا سے فیضیاب نہیں ہوجاتا۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ کشف المحجوب کے اندر ایک حدیث
نقل کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ فاقہ کشی اختیار کرو
اور بھوک اور پیاس برداشت کرو ممکن ہے کہ اس دنیا کے اندر تم اپنے دل کی
آنکھوں سے اپنے رب کا مشاہدہ کر لو۔
تو یہ جو مرتبۂ احسان ہے؛ جو مومن کا مقصود ہے، وہ اس کو حاصل ہوگا روزہ
رکھنے سے۔ اور اگر چلو! کسی روزہ دار کو یہ کیفیت نہ ملے کہ وہ اپنے رب کے
جمالِ جہاں آرا کو دیکھ لے، اس کے جلوؤں کو دیکھ لے، اس کے دیدار کی دولت
سے مالامال ہوجائے ، اس کا دل اس کی محبت میں ایسا ڈوبے کہ وہ جدھر دیکھے
اسی کے جلوؤں کو ہی دیکھتا چلا جائے؛ اگر روزہ دار کو ایسی دولت نہ بھی
نصیب ہو؛ کم از کم روزہ دار کو یہ دولت تو ضرور ملے گی کہ وہ اس احساس میں
ڈوب جائے گا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی
کڑکتی ہوئی دو پہر میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہونے کے باوجود ایک گھونٹ بھی حلق
سے نیچے نہیں اُتارتا؛ کیوں؟ اس لیے کہ میرا مالک تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ
احساس اُس کو آیا کہ نہ آیا؟ کاش! کہ رمضان میں جو یہ نور ہم کو نصیب ہوتا
ہے ؛ یہ رمضان کا خاص نور ہے؛ مرتبۂ احسان سے پھوٹتا ہوا یہ اجالا ؛ رمضان
میں ایک گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اس احساس میں
ڈوب جاتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ کاش! کہ وہ احساس کو اندر سمو
لے!! اور اس کو دل کی ایک ایک پرت پہ رکھ لے اور اس کو سجا لے اور اس دولت
کو پھر جانے نہ دے تو پھر اس کے لیے گناہ کرنا مشکل ہی نہیں محال ہوجائے
گا۔
اس احساس سے پانی نہیں پیتا کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے؛ تو مجھے یہ بتاؤ!
کہ جب وہ دوکان پہ بیٹھ کے ڈنڈی مارتا ہے تو کیا اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ جب
وہ کسی کی جیب کاٹتا ہے؛ اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ جب وہ رشوت لے رہا ہوتا
ہے؛ اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ کیا اﷲ تعالیٰ صرف رمضان میں دیکھتا ہے؟ غیرِ
رمضان میں نہیں دیکھتا اﷲ؟ …… تو یہ احساس کاش کہ اس کے ساتھ لگ جائے کہ
میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر گناہ کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجاتا
ہے۔ ……ساتویں کوٹھری میں جب سارے دروازے بند کرکے بُت کے اوپر موٹا کپڑا
ڈال کہ زلیخہ بولی ہَیْتَ لَک(سورۃ یوسف، آیت ۲۳) یوسف اب آجاؤ نا!اب تو
کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ تو یہی احساس تھا جس نے روشنی دی قال معاذ اللّٰہ
(سورۃ یوسف، آیت ۲۳)کہا اﷲ کی پناہ! تُو تو اپنے معبود سے موٹی چادر ڈال کر
چھپ گئی؛ لیکن میرا خدا تو ساتویں کوٹھری میں بھی دیکھ رہاہے۔ پھر اتنی
روشنی برسی ، اتنے اجالے اُترے کہ گناہ کیا گناہ کا تصور بھی محال ہوگیا۔
تو یہ یقین یہ اذعان کہ میرا مالک مجھ کو دیکھ رہا ہے انسان کے لیے گناہ کو
مشکل ہی نہیں نا ممکن بنا دیتا ہے۔ ……اور میرے اور آپ کے آقا و مولیٰ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: سبعۃ یظلھم اللّٰہ تعالیٰ فی ظلہ لا ظل الا ظلہ:
الامام العادل، و شاب نشأۃ فی عباداللّٰہ ، و رجل قلبہ معلق فی المساجد،
ورجلان تحابا فی اللّٰہ اجتمعا علیہ و تفرقا علیہ۔ و رجل دعتہ امرأۃ ذات
منصب و جمال، فقال انی اخاف اللّٰہ۔ و رجل تصدق بصدقۃ فأخفاھا حتیٰ لا تعلم
شمالہ ماتنفق یمینہ، و رجل ذکراللّٰہ خالیا ففاضت عیناہ۔او کما قال۔ حضور
علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: کل قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا ؛
سات اشخاص ایسے ہیں اﷲ تعالیٰ جنہیں اپنے عرش کا ٹھنڈا سایہ نصیب فرمائے
گا۔حدیث طویل ہے اور مجھے وقت کے گذرنے کا شدت سے احساس ہے۔ مَیں اپنا
مقصود آپ کے سامنے رکھوں گا۔ چوتھا شخص وہ ہوگا و رجل دعتہ امرأۃ ذات منصب
و جمال، فقال انی اخاف اللّٰہ۔ فرمایا چوتھا شخص وہ ہوگا جس کو کسی عورت نے
دعوتِ گناہ دی۔ اور وہ عورت کوئی معمولی عورت نہیں تھی؛ ذات منصب و جمال
اور ایک روایت میں ہے کہذات حسب و جمال؛ یعنی منصب و جمال کی مالکہ تھی یا
حسب و نصب اور جمال کی مالکہ تھی۔ اور اس نے نوجوان کو دعوتِ گناہ دی۔ اب
قدموں میں حُسن خود بخود بچھنے کے لیے بے تاب ہے؛ جب جذبات انگڑایاں لے رہے
ہوں ، جوانی جوبن پہ ہو ، اور آرزوئیں مچل رہی ہوں، اور حُسن خود قدموں میں
بچھنے کے لیے بے تاب ہو۔ تو پھر اپنی خواہشات کو لگام کون دے گا؟ لیکن اگر
کسی نے اس وقت یہ کَہ کے اس کی پیش کش کو ٹھکرا دیاانی اخاف اللّٰہ مَیں
تیری بات کیسے مان لوں؟ مجھے رب سے بڑا ڈر لگتا ہے۔
حضورصلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کسی عورت نے اسے دعوت گناہ دی ؛ یا
کوئی مردکسی عورت کو دعوتِ گناہ دینے لگا ہو تو اُس نے کہا انی اخاف اللّٰہ
مَیں تیری بات نہیں مان سکتا کیوں کہ مجھے اﷲ سے ڈر لگتا ہے۔ حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کل قیامت کے دن جب سورج سوا میل پہ ہوگا۔ اور زمین
تانبے کی ہوگی، لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ، اﷲ پورے قہر و غضب اور جلال
میں ہوگا۔ لوگ برہنہ اُٹھائے جائیں گے ، ندامت ان کے چہرے پہ چڑھی ہوئی
ہوگی؛لیکن سات اشخاص میں سے ایک شخص یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ
ہوگا؛ اﷲ اسے اپنے عرش کا ٹھنڈا سایہ نصیب فرمادے گا۔ کہ جس نے برائی کو یہ
کَہ کر ٹھکرا دیا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور مَیں اس سے خوف کھاتا
ہوں۔ امام یافعی نے ’روض الریاحین‘ کے اندر یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک نوجوان
کپڑے کی دکان پہ کام کرتا تھا۔ ایک عورت آئی اُس کا اس جوان پہ دل آگیا۔ اس
نے کپڑا ضرورت سے زیادہ خرید لیا۔ اور مالک دکان سے کہنے لگی کہ اس نوجوان
کو میرے ساتھ بھیج دو؛میری گٹھری بھاری ہے؛ گھر چھوڑ آئے۔مالک دکان اُس کی
نیت سے آگاہ نہ ہوسکا؛ اس نے اس نوجوان کو ساتھ بھیج دیا۔ جب وہ اس کو گھر
لے گئی اندر داخل کرکے دروازہ بند کردیا اور دعوت گناہ دینے لگی۔ اس نوجوان
نے کہاانی اخاف اللّٰہ! مَیں اﷲ سے ڈرتا ہوں! …… لیکن نوجوان ڈرتا تھا وہ
عورت تو نہیں ڈرتی تھی۔ اس نے ہر قسم کا ڈورا پھینکا،ہر جتن کیا ،ہر حیلہ
آزمایا، لیکن وہ نوجوان قابو میں نہ ہوا۔ کیوں کہ وہ صرف حسین ہی نہیں؛ اﷲ
کا ولی بھی تھا۔ صرف اس کا چہرہ ہی روشن نہیں تھا ؛ اس کے من میں بھی اجالے
تھے۔ اس عورت نے بڑی کوششیں کیں؛ لیکن نور کو رسیوں میں جکڑا تو نہیں
جاسکتا۔ خیر! اس نوجوان کے دل میں آیا کہ یہ شیطان کا خطرناک روپ ہے۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ مَیں اس کے پنجے میں پھنس جاؤں۔ اس نے ایک بہانہ کیا اور
باتھ روم میں چلا گیا۔ جو پاخانہ کیا اس کو اپنے بدن پہ مَل لیا۔ اور اسی
حالت میں باہر آگیا۔ جب اس عورت نے دیکھا تو اس کا نشہ غارت ہوگیا۔ اس نے
دروازہ کھول دیا ۔ اس نے کہا یہ تو مجون ہے، یہ تو پاگل ہے۔ اس نوجوان نے
دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ میرا بدن گندہ ہوگیا لیکن میرا من تو
ستھرا رہا۔
کائنات کا سب سے حَسیں چہرہ وہ ہے جو جنسی کالک سے محفوظ ہو۔ وہ نوجوان
باہر گیا ۔ باہر ایک چشمہ اُبل رہا تھا؛ وہاں جاکے اس نے غسل کیا۔ امام
یافعی لکھتے ہیں: جب تک وہ زندہ رہا اس کے جسم سے مشک و عنبر کی خوش بو آیا
کرتی تھی۔ اور جب وہ مر گیا؛ لوگوں نے اس کو دفن کردیا؛ یہ خوش بو اس کی
قبر کی مٹی سے بھی آیا کرتی تھی۔
تو جو اﷲ سے ڈرا کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی کیسی
ناز برداریاں فرماتا ہے۔ اس کے اوپر کتنے کرم اس کے اترتے ہیں۔ تو کہا کہ
وہ شخص؛ جس نے اﷲ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑا ؛ کل قیامت کے دن جب کوئی سایہ
نہیں ہوگا اﷲ اسے اپنے عرش کاٹھنڈا سایہ نصیب فرمادے گا۔
یہ رمضان کا فیض ہے۔کہ انسان بے شمار گناہوں کے باوجود بھی تڑکتی کڑکتی
دوپہر کے اندر بھی ٹھنڈا پانی اپنے منہ کے قریب بھی نہیں لاتا۔ وضو کرتے
ہوئے بھی احتیاط کرتا ہے۔ غسل کرتے ہوئے بھی احتیاط کرتا ہے کہ کوئی قطرہ
حلق سے نیچے اتر نہ جائے؛ اس احساس میں کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ یار!
روزے کا اور کیا ثمرہ چاہیے کہ وہ جس دولت کے لیے صوفیہ نے زندگیاں کھپا
دیں؛ اس دولت کو حاصل کرنے کے لیے، مرتبۂ احسان کو پانے کے لیے ؛ روزے دار
نے سحری کھائی، ابھی سحری کا وقت ختم ہوا تھا کہ یہ احساس اس کے ساتھ لگ
گیا اور اب تنہائی کے اندر بھی اﷲ سے ڈرتا ہے اور کھانے پینے سے باز رہتا
ہے۔ اس تصور کے ساتھ کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔
روزے کا ایک ثمر اور ایک پھل یہ ہے کہ بندے کو تقویٰ کا نور نصیب ہوتا
ہے۔اﷲ تعالیٰ نے کہا قرآن مجید میں جہاں روزے کی فرضیت کا حکم ارشاد فرمایا
وہاں ساتھ ہی یہ بات فرمائی کہ اس لیے تمہارے اوپر روزہ فرض کیا گیا ہے
تاکہ تم متقی بن جاؤ۔یہ مقصدِ روزہ ہے۔ اﷲ یہ چاہتا ہے ورنہ اس کو کیا
ضرورت ہے کہ بندے کو بھوکا اور پیاسا رکھے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ یہ بُرائیوں
سے باز آجائے۔ بلکہ بخاری شرف کی حدیث ہے؛ حضور علیہ السلام نے ارشاد
فرمایا من لم یدع قول الزور و العمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و
شرابہ۔ جو شخص جھوٹ اور جھوٹے کام نہیں چھوڑتا اﷲ کو اس کے بھوکا اور پیاسا
رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ بھوک اور پیاس کی مشقت
گوارا کرے۔ اس کا تو مقصود یہ ہے کہ اِس کے دل کے اندر اُس کی خشیت پیدا
ہوجائے۔ اسی لیے اُس نے روزہ ہمارے اوپر فرض کیا ہے۔ ورنہ وہ کیسے چاہتا ہے
کہ میرا بندہ بھوکا رہے۔ ایک ماں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا بھوکا رہے۔ اور
جو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتاہے؛ اس نے کیسے چاہ لیا کہ میرا بندہ بھوکا
رہے؟ ماں کے پیار کو دنیا کے کسی ترازو پہ نہیں تولہ جاسکتا۔ اور جو مالک
ہے! …… ماں کو اپنی اولاد سے اتنا پیار کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس نے اسے جنم
دیا۔ جس نے جنم دیا اس کو اتنا پیار ہے تو جس نے تخلیق کیا ہے اس کو کتنا
پیار ہوگا؟تو ماں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا بھوکا رہے تو مالک نے کیسے چاہ
لیا؟
چلو آؤ! پھرماں کی گود میں آجاؤ۔ ماں بیٹے کی آنکھ میں ایک آنسو بھی گوارا
نہیں کرتی۔ بیٹا ہوگیا بیمار؛ ماں لے گئی ڈاکٹر کے پاس۔ اس نے جو دوا تجویز
کی وہ کڑوی تھی۔ ماں نے زبردستی لِٹا لیا؛ بیٹا پیتا نہیں؛ ماں نے منہ
کھولا اور کڑوے سیرپ کے قطرے اس کی حلق میں ٹپکا رہی ہے۔ اور بچہ چیختا ہے
اور جوں جوں سیرپ کے قطرے اس کی حلق سے نیچے اترتے چلے جاتے ہیں؛ ماں کو
قرار آتا جاتا ہے۔ اس کو طمانیت ملتی جاتی ہے۔ ماں کیا سفاک ہوگئی ہے؟ نہیں
۔ اس کا پیار چھِن گیا ہے؟ نہیں۔ اس کی ممتا رُخصت ہوگئی ہے؟ نہیں۔ وہ تو
بیٹے کی آنکھ میں ایک آنسو بھی گوارا نہیں کرتی۔ اور اب تڑپتا ہوا بیٹا
لیکن ماں کے چہرے پہ طمانیت کا نورہے۔ اصل بات یہ کہ ماں جانتی ہے بیٹا
نہیں جانتا۔ ماں جانتی ہے چند لمحوں کی تکلیف ہے لیکن نتیجہ شفا کی صورت
میں برآمد ہوگا۔ اس لیے ماں کی نظر اس تڑپنے پہ نہیں ہے؛ ماں کی نظر اس
نتیجے پہ ہے۔ مالک جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ وہ بھی نہیں چاہتا
کہ میرا بندہ بھوکا اور پیاسا رہے لیکن مالک کہتا ہے اس کے باوجود تُو
بھوکا اور پیاسا رہے گا ۔ کیوں؟ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ میرے بندے تجھے
تقوے کی بہاریں نصیب ہوں گی۔ تیرے من کو روشنی اور تیرے من کو اجالا نصیب
ہوجائے گا۔
یہ تقویٰ نصیب ہوتا ہے روزے سے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہمارے دو دشمن
ہیں۔جو ہمیں نیکی کے راستے سے روک رہے ہیں۔ (بات لمبی ہو رہی ہے اختصار
کرہا ہوں۔) ہمارے دو دشمن ہیں؛ جو ہر وقت ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایک
شیطان اور دوسرا نفس ۔ جو شیطان ہے ؛ وہ بڑ دشمن ہے یا نفس بڑا دشمن ہے؟
اور اس بات پہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سب کَہ رہے ہیں کہ
’نفس‘۔اور سادی سی بات ہے کہ شیطان آدمی کو بہکاتا ہے۔لیکن شیطان جب خود
بہکا؛ اس نے انکارِ سجدہ کیا ۔ اس وقت کوئی دوسرا شیطان تو تھا نہیں۔ شیطان
کو شیطان بنانے والا نفس ہے۔ یہ نفس شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔ اکیلی جان؛
دو دشمنوں کے نرغے میں۔ لیکن جب ماہِ صیام آیا سُلسِلت الشیاطین۔ حدیث میں
آتا ہے شیاطین جکڑ دیے گئے۔ دو دشمنوں میں سے ایک دشمن ہمارا جکڑ دیا گیا۔
اب ایک دشمن ہمارا باقی ہے ’نفس‘۔ اب نفس کا مقابلہ کرلیں گے تو شیطان چُھٹ
کر ہمارا کچھ نہیں کر سکے گا۔ لیکن اگر ہم نے اس موسم میں اپنے نفس کا
مقابلہ نہ کیا تو پھر ہم اس نفس کی شہوت سے شیطان کے ہتھّے بھی چڑھ جائیں
گے۔
اب نفس کی تربیت کیسے کریں؟ اس کی تربیت بھی روزے سے ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے
وہ کیسے؟ تو شیخ فرید الدین عطارؔ علیہ الرحمۃ کا قول سناتا ہوں۔ شیخ فرید
الدین عطارؔ کون شخص ہے؟ کسی معمولی شخص کا نام شیخ فرید الدین عطارؔ نہیں
ہے۔ ڈاکٹر اقبالؔ کے روحانی پیشوا؛ جن کو وہ مرشدِ رومیؔ کہتے ہیں اور اپنے
آپ کو مریدِ ہندی کہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اقبالؔ نے
رومیؔ کو ویسے ہی پیر نہیں مان لیا؛ بڑا چُن کے پیر تلاش کیا ہے اقبالؔ نے۔
بلکہ جب پیٖر دو ہوں اور دونوں ہی بڑے قابل ہوں اور مرید کے لیے مصیبت بن
جائے کہ اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں؛ کدھر جاؤں؟ امتحان تو اس وقت ہوتا ہے۔
اب اقبالؔ کے لیے دو چیزیں تھیں؛ ایک رازیؔ اور ایک رومیؔ۔اقبالؔ کہتا تھا
کہ مَیں رومیؔ کو پیر مانوں؟ یا رازیؔ کو پیر مانوں؟ چوں کہ رازیؔ استدلال
کا شہنشاہ ہے اور اقبالؔ فلسفے کا امام ہے۔ فلسفی کا مزاج یہی چاہتا ہے کہ
جو استدلال کا بادشاہ ہو اس کو اپنا شیخ مانا جائے۔ لیکن جو رومیؔ ہے وہ دل
کا شہنشاہ ہے۔ اقبالؔ شاعر ہے۔ اور اقبالؔ کا مزاج تھا کہ جو میرے دل کا
بھی امام ہو وہی میرا شیخ ہو اور وہ ہی میری رہبری کرے۔ اقبالؔ اس معاملے
میں الجھا رہا کہ کیا کروں۔ وہ خود کہتا ہے
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازیؔ
کبھی رومیؔ کا سوز و سازمجھے پسند آتا تھا، کبھی رازیؔ کا پیچ و تاب پسند
آتا تھا۔ پھر اقبالؔ نے زندگی کی کئی بہاریں مرشدکے انتخاب میں گزاردیں۔ کہ
مَیں رومیؔ کے ہاتھ پہ بیعت کروں کہ رازیؔ کے ہاتھ پہ بیعت کروں۔ پھر ایک
وقت آیا کہ اقبالؔ نے خود کہا
نَے مہرہ باقی نَے مہرہ بازی
جیتا ہے رومیؔ ہارا ہے رازیؔ
وہ کہتا ہے رومیؔ جیت گیا اور رازیؔ ہارگیا۔ پھر اس نے رومی ؔکو اپنا شیخ
اور مقتدا مانا۔ اقبالؔ جس کو اپنا مقتدا مانتا ہے ، جس کو اپنا امام مانتا
ہے؛ اب اُس رومیؔ کی سُنیے؛ وہ کہتے ہیں
ہفت شہرِ عشق را عطارؔ گشت
ما ہنوز اندر خم یک کوچہ ایم
عشق کے ساتوں شہر حضرت شیخ فرید الدین عطارؔ گھوم چکے ہیں۔ اور ہم پہلے شہر
کی پہلی گلی کے کونے پہ کھڑے ہیں۔ یہ رومیؔ کہہ رہے ہیں؛ جن کو اقبالؔ نے
بڑی چھان پھٹک کے بعد اپنا پیر مانا ہے۔ وہ فرید الدین عطارؔ جو معرفت کا
امام ہے اور اﷲ کے رازوں کا امین ہے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؔ فرماتے ہیں
کہ
نفس نتواں کش الا با سہ چیز
بات گویم یاد گیرش اے عزیز!
کہا کہ نفس نہیں مرتا اگر تین اسلحے اگر تیرے پاس ہوں توتُو نفس پر قابو
پالے گا۔ وہ تین اسلحے کون سے ہیں ؛ کہا
خنجرِ خاموشی و شمشیرِ جو
نیزۂ تنہائی و ترکِ ہجوم
ایک خاموشی کا خنجر ، ایک بھوک کی تلوار اور ایک تنہائی کا نیزہ؛ اگر یہ
تین اسلحے تیرے پاس ہیں ؛ تُو نفس پہ ٹوٹ پڑے ان اسلحوں کو لے کر تو تیرا
نفس تیرے قابو میں آئے گا۔ اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس نفس کو قابو
کرنے کا۔ حضرت سلطان باہوؔ جیسے بھی بول پڑے
باجھ فقیراں کِسے نئیں ماریاں
باہوؔ ظالم چور اندر دا ہُو
یہ جو اندر کا چور ہے اس کو پکڑ لینا اور اس کو قابو میں کرلینا اور اپنے
دل کی حفاظت کرلینا؛ یہ ہی بڑی دولت ہے۔ فرماتے ہیں کہ تین اسلحے ہیں؛ ایک
خاموشی کا خنجر، اور ایک بھوک کی تلوار، اور تیسرا تنہائی کا نیزہ۔ کہا ان
تین اسلحوں سے اگر تم قابو پانا چاہو تو پا سکتے ہو اس کے علاوہ کوئی اور
اسلحہ نہیں ہے کہ تمہارے نفس کو تمہارے قابو میں لے آئے۔
بھوک کی تلوار ایسا اسلحہ ہے؛ جو نفس کا سر کاٹ دیتی ہے۔ اور میرے اور آپ
کے آقا و مولا قلب و نگاہ کے مرشدِ اولین حضور نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا:یا معشرالشباب! من استطاع منکم الباء فلیتزوج فانہ اغض للبصر، و
احصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء۔ اے جوانوں کے گروہ!
تم میں سے اگر کوئی شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے تو وہ نکاح کرلے۔ یہ نظر اور
شرم گاہ کا محافظ ہے۔ اور اگر تم میں سے کوئی نکاح کرنے کی فی الحال طاقت
نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھیں روزے شہوات کو توڑتے ہیں۔ تو نفس کی تہذیب
بھوک سے ہوتی ہے اور بھوک ایک ایسا اسلحہ ہے کہ جس سے ہم اپنے نفس کو قابو
میں لا سکتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمۃ؛ جو تصوف کے سرخیل اور
امام ہیں ؛ آپ فرماتے ہیں کہ آدھی فقیری روزہ ہے اور آدھی فقیری باقی سب
کچھ ہے۔ تو روزہ اگر نصیب ہوگیا تو پھر مالک کا قرب مل گیا اور یہ تقوے کا
نور ہمیں روزے سے حاصل ہوگا۔ روزے کے ثمرات تو بہت سارے ہیں لیکن وقت کی
سمٹتی ہوئی اکائیاں مجھے ملحوظ۔ وما علینا الا البلاغ المبین
٭٭٭۴؍ مئی ۲۰۱۸ء |