ٹی ٹی پی کی تباہ کاریوں کا سلسلہ ابھی تک مکمل طور پر رک
نہیں سکا کہ وطن عزیز میں دین کے نام پر شدت پسندی کی ایک نئی لہر نے جنم
لیا ہے۔ بطور مسلمان ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اللہ کے
آخری نبی ص کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچے اسی لئے جب بھی بعض نا عاقبت
اندیشں لوگوں نے اللہ کے محبوب کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کی تو دنیا بھر میں
بسنے والے مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئَے۔
اسی طرح جب اسلام کی چھتری استعمال کرنے والے ایک گروپ نے اللہ کے آخری نبی
ص کی ختم نبوت کو ماننے سے انکار کیا تو پاکستان کے علمائے اسلام نے ان کو
غیر مسلم قرار دے دیا۔لیکن یہ لوگ اسلام کے خلاف صف آرا ہو گئے اور کوشش یں
کرنے لگے کہ پاکستان میں ایسا قانون بنایا جائے جس میں احمدیوں کو بھی
مسلمان تصور کیا جائے اسی سلسلے میں بعض عالمی طاقتوں کی ایما پر ایک
متنازعہ قانون پاس کروانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان بھر کے مسلمان اور
علما سراپا احتجاج نظر آئے جس کے بعد حکومت نے فوری طور پر قانون سازی کا
عمل روک دیا۔
لیکن بدقسمتی سے اس ماحول سے بعض موقع پرست لوگوں نے اپنے اہداف کے لئے
فائدہ اٹھایا اور مسئلہ ختم نبوت کی بنیاد پر مسلمانوں کے جذبات کو ابھارکر
اپنے سیاسی و مالی اہداف کے حصول کے لئے تگ و دو کرنے لگا۔ایسے لوگوں کی
فہرست بہت طویل ہے لیکن مسئلہ ختم نبوت کے حوالے سے بنی فضا سے سب سے زیادہ
فائدہ مولانا خادن حسین رضوی نے اٹھایا
مولانا خادم حسین رضوی کوئی مستند عالم دین نہیں ہیں لیکن مسئلہ ختم نبوت
کے حوالے سے لوگوں کے جذبات کو مشتعل کر کے سادہ لوح لوگوں میں کافی معروف
ہو گئے اس کے بعد اسلام آباد میں کامیاب دھرنے نے بھی مولانا خادم حسین
رضوی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضآفہ کیا۔۔۔
اس مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا موصوف نے ختم نبوت کے مسئلہ کی
بنیاد پر اہل سنت جوانوں کے ذہن میں ایسا زہر بھر دیا کہ جس کے نتائج آہستہ
آہستہ ظاہر ہو رہے ہیں خدا نخواستہ مولانا خادم رضوی کی اشتعال انگیزیوں کا
سللسہ یونہی جاری رہا تو نام نہاد عاشق رسول بے گناہ مسلمانوں کے خون سے
ہاتھ رنگتے نظر آئیں گے۔
مولانا خادم حسین رضوی کی اشتعال انگیز تقریروں نے پاکستان میں شدت پسندی
کی ایسی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے آنے والے وقت میں اس شدت پسندی کے اثرات سے
وطن عزیز کا محفوظ رہنا نا ممکن ہو گا۔
اس کی تازہ ترین مثال وفاقی وزیر داخلہ پر ایک نوجوان کا قاتلانہ حملہ
ہے۔اس نوجوان نے اقرار کیا ہے کہ اس کا تعلق مولانا خادم رضوی صاحب کی
جماعت سے ہے اور وہ احسن اقبال کو گستاخ سمجھتا ہے اس سے پہلے بھی سابق
وزیر اعظم نواز شریف اور خواجہ آصف نشانہ بن چکے ہیں۔
میرے خیال میں اس وقت مولانا خادم رضوی شدت پسندی کے جو بیج بو رہے ہیں یہ
وطن عزیز کے لئے انتہائی خطرناک ہوں گے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی بھی
شخص کسی پر گستاخ رسول کا الزام لگا کر اس کی جان لیتا پھرے گا۔
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے پاکستان کے مقتدر ادارے
مولانا خادم رضوی کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے گریزاں ہیں اس لئے میں یہ
کہنے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان میں شدت پسندی کی نئی لہر کا سبب جہاں
مولانا خادم حسین رضوی کی اشتعال انگیز تقریریں ہیں وہیں بعض خفیہ ادارے
بھی ہیں جو آج کل پاکستان میں ایم ایم اے کا راستہ روکنے کے لئے کوشاں ہیں۔
متقدر ادارے اور مولانا خادم حسین رضوی یاد رکھیں کہ شدت پسندی کی جس نئی
لہر کو یہ لوگ پروان چڑہا رہے ہیں یہ ناصرف اسلام ،مسلمانوں اور پاکستان کے
لئے نقصان دہ ہو گی بلکہ آپ بھی اس لہر میں بہہ جائیں گے۔
|