28مئی یوم تکبیر ہی نہیں پاکستانیوں کے لئے یوم
تشکر اور یوم تفاخر بھی ہے۔ تاریخی پس منظر ذہن میں رکھنا چاہئے سنہ 1974
میں ہندوستان نے اندرا گاندھی کے زیرِ قیادت اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا۔
خطہ میں سٹریٹجک توازن بدل چکا تھا اور ہندوستان نہ صرف پاکستان جیسے ملک
بلکہ پورے خطہ کے لئے ایک طاقتور خطرہ کی شکل میں ابھر رہا تھا۔3 جون 1994ء
کو ہندوستان نے درمیانی رینج رکھنے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ یہ
پاکستانی شہروں کے اندر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے اوسط رینج کے
میزائلوں کے سلسلہ میں ہندوستان کی ترقی کا انتباہ تھا۔ 1997 ء تک ہندوستان
اگرچہ عملاً ہر ممکن محاذ پر پاکستان پر دبا ڈالتا رہا تھا پھر بھی اس نے
سفارتی سطح پر یہ کبھی نہیں کہا کہ اس کی میزائل ٹیکنالوجی پاکستان کے خلاف
استعمال ہو گی۔جون 1997ء میں ہندوستان نے اپنے میزائل پاکستانی سرحدوں کے
قریب منتقل کر دئے۔11 سے 13 مئی 1998ء تک راجستھان کے پوکھرن علاقہ میں
ہندوستان نے ہندو قوم پرست اکثریتی سیاسی جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے
والے وزیرِ اعظم اے بی واجپائی کی زیرِ قیادت زیرِ زمین جوہری تجربہ کیا۔اس
واقعہ نے 1971ء اور 1974ء کے واقعات کے باوجود پاکستان کی طرف سے کافی عرصہ
تک برقرار رکھے گئے توازن کو پھر سے ہندوستان کے حق میں کر دیا۔ دوسری طرف
ہندوستان نے تمام سفارتی معیاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو
دھمکیاں دینا شروع کر دیا۔15 مارچ کو بھارتی وزیرِ اعظم نے دھمکی دی کہ ان
کا ملک ایک بڑا بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ملک کے دفاع کے لئے استعمال
ہو گا، نیز آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔ان دھماکوں کے بعد
18 مارچ کو وزیرِ داخلہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کو خطہ کی سٹریٹجک صورتِ
حال میں آنے والی تبدیلی کو سمجھنے کی دعوت دی اور بھارت کے مقبوضہ کشمیر
میں کسی علیحدگی پسند مسلمان بغاوت کو ہوا دینے کی کوششوں سے پاکستانی
حکومت کو خبردار کیا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر حملہ اور اس کی
عام شہری آبادی پر جوہری بمباری کا خطرہ تھا بلکہ ایک نامعقول پڑوسی کے
مستقل قبضہ اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک غیر محفوظ مستقبل نیز پاکستان
کے لئے علاقائی معاملات میں ایک غیر فعال پوزیشن کا بھی خطرہ تھا۔ پاکستان
گھِر چکا تھا چنانچہ یہ ردِ عمل کے اظہار کا وقت تھا، دشمن پر جوابی حملہ
کر کے قوم کے مورال اور حوصلہ کو پھر سے جِلا دینے کا وقت تھا۔ یہ اپنی
واپسی درج کرنے کا مناسب موقع تھا، عالمی برادری نے نہ تو ہندوستان کی مذمت
کی تھی نہ ہی اس کو ان تجربوں سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے سامنے
یا تو اقوامِ متحدہ کی فیصلے کرنے کی قابلیت سے عاری عدالتوں میں درخواست
پیش کرنے کا راستہ تھا، یا پھر وہ خود ایسے تجربے کر کے عالمی برادری میں
سربلند ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے جوہری تجربے شاید کرہ ارض کے تمام کمزوروں
اور خاص طور پر مسلم دنیا کے لئے ایک علامت کی حیثیت رکھتے تھے، جو پاکستان
کے جوہری تجربوں پر عمل در آمد کرنے کے فیصلہ کے بے چینی سے منتظر اور اس
کے بہت خواہشمند تھے۔اس وقت پاکستان وزیرِ اعظم نواز شریف کے زیرِ قیادت
تھا۔ آپ کو سخت دبا اور دھمکیوں کے علاوہ مشرق سے مغرب تک چکاچوند کر دینے
والی پیشکشوں کا سامنا تھا؛ پاکستان کا ساتھ دینے والے بس چند گنے چنے ہی
تھے، وزیرِ اعظم کو فیصلہ کرنا تھا، اور انہوں نے فیصلہ کر لیا۔
19 مارچ کو وزیرِ اعظم نواز شریف نے قومی سطح پر نشر کی جانے والی ایک
تقریر میں کہا: آج آپ نے سنا ہو گا کہ وہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے جارحانہ
عزائم پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اﷲ کے فضل وکرم سے ہم ہر قسم کی آزمائش کے لئے
تیار ہیں، اور تمام دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔ آخر کار وہ مقدس لمحہ آ ہی گیا جب پاکستان نے نئی بلندیوں کو
چھوا، ایک ایسی دنیا میں ظلم وجبر کے سامنے سرکشی کا اعلان کیا جہاں ظالموں
کا ہی راج اور ظلم کا ہی دور دورہ ہے! آخر کار پاکستان واپس آ گیا، اور بڑی
آن بان سے واپس آیا۔
28 مئی 1998ء کو پاکستان نے بلوچستان کے راسکوہ چاغی علاقہ میں پانچ کامیاب
جوہری تجربے کر دیئے۔ تاہم امریکہ بھارت ایٹمی معاہدے میں بھارت کے8
غیرمحفوظ ایٹمی ریکٹروں اور بھارت کے ایٹمی بریڈ ر یکٹر پروگرام کو مکمل
طور پر نظرانداز کیا گیاہے جس کی مدد سے بھارت سالانہ بنیادوں پر ایٹمی
ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ تیار کر سکتا ہے۔ بھارت کے حوالے سے این ایس جی
ممالک کا فیصلہ پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ پاکستان نے اپنے ایٹمی
اثاثہ جات کا انتظام اس طرح سے کر رکھا ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں
پاکستان میں ایٹمی دہشتگردی کا خطرہ کہیں کم ہے۔ پاکستان اپنے نیوکلیئر
پروگرام کو محفوظ بنانے کے بعد خاموش ہو کر نہیں بیٹھ گیا بلکہ اس حوالے سے
اپنی صلاحیتوں میں مزید اضافہ اور ان صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے میں
مصروف ہے۔ دنیا بھر میں ایٹمی دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے تاہم پاکستان نے
اپنے ایٹمی اثاثہ جات کا انتظام اس طرح سے کر رکھا ہے کہ باقی دنیا کے
مقابلے میں پاکستان میں ایٹمی دہشت گردی کا خطرہ کہیں کم ہے۔
بہرحال یوم تکبیر یعنی 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرانے والے ایٹمی
سائنسدانوں کو شاعرانہ خراج تحسین ان الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے۔
مرے وطن کے عظیم لوگو
مرے وطن کا وقار ہو تم
مرے چمن کی بہار ہو تم
تمہی نے بخشا غرور ہم کو
تمہی نے بخشا سرور ہم کو
جو تم نہ ہوتے تو دشمن دیں
کبھی کاہم کو مڑور دیتا
ہماری عظمت کو توڑ دیتا
سلام تم کو عظیم لوگو
بہرحال ایک بات زمینی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور پروگرام
انتہائی محفوظ جبکہ بھارت کا غیر محفوظ اور خطرات سے دوچار ہے۔ اس ضمن میں
امریکہ میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ
امریکہ کے بعد بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ری ایکٹر گریڈ پلوٹونیم سے
بنے جوہری ہتھیار کا تجربہ کیا ہے۔پیپر میں یہ بھی کہا گیا بھارت کی غیر
محفوظ سویلین جوہری تنصیبات دوسرے ممالک کے لیے تشویش کا باعث بن گئی
ہیں۔انڈیاز نیوکلیئر ایکسیپشنلزم کے نام سے شائع ہونے والے اس پیپر کو
ہارورڈ کینیڈی سکول کے بیلفر سینٹر برائے سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کی
جانب سے جاری کیا گیا۔اس پیپر میں نشاندہی کی گئی 2008 میں بھارت نے عالمی
جوہری توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے)کو جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں اپنے
جوہری پروگرام کے انوکھے ہونے کا اعتراف کیا تھا اور بتایا تھا بھارت میں
تین طرح کی جوہری تنصیبات ہیں، سویلین سیف گارڈ، سویلین ان سیف گارڈڈ اور
ملٹری۔بھارت کے جوہری ذخائر میں 5.1 ٹن علیحدہ سے رکھے ہوئے ری ایکٹر گریڈ
پلوٹونیم بھی شامل ہیں جنہیں بھارت سٹرٹیجک ریزرو قرار دیتا ہے۔اس کے علاوہ
8 مقامی پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹرر(پی ایچ ڈبلیو آرز)، انڈیاز فاسٹ
بریڈر ٹیسٹ ری ایکٹر(ایف ٹی بی آر) اور پروٹو ٹائپ فاسٹ بریڈر ری ایکٹرز (پی
ایف بی آر) شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھارت کی دیگر جوہری تنصیبات میں یورینیم
کو افزودہ کرنے والی تنصیبات، استعمال شدہ ایندھن کو ری سائیکل کرنے کے
پلانٹ، 100میگا واٹ کا دھروا ون پروڈکشن ری ایکٹر، ایڈوانسڈ ہیوی واٹر ری
ایکٹر، تین ہیوی واٹر پروڈکشن پلانٹس اور متعدد فوج سے وابستہ پلانٹس شامل
ہیں۔سٹڈی پیپر میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ 1962 میں امریکہ نے ایک
جوہری ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا تھا جس میں ویپن گریڈ پلوٹونیم کی جگہ
فیول گریڈ پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا اور اس سے 20 کلو ٹن سے کم توانائی
کا اخراج ہوا تھا۔امریکہ کے بعد ری ایکٹر گریڈ پلوٹونیم کو استعمال کرتے
ہوئے جوہری ہتھیار بنانے کا تجربہ دنیا میں صرف ایک ملک نے کیا ہے اور وہ
بھارت ہے۔پیپر کے مصنف منصور احمد کہتے ہیں کہ بھارت دو محاذوں پر پاکستان
اور چین سے جنگ کے تناظر میں اپنی روایتی اور سٹریٹجک جوہری قوت کو جدید
کرنے کے لیے مستقل طور پر کام کررہا ہے۔
بات روایتی اسلحہ کی ہو یا نیوکلیئر پروگرام جیسے غیر روایتی اسلحہ کی، اس
سمیت کسی بھی شعبے میں ارتقاکو روکنا ممکن نہیں، امریکہ نے دوسری جنگ عظیم
میں ایٹم بم بنایا اس کا تجربہ کیا اور اسے آزما بھی لیا۔ امریکہ نے اسی پر
بس نہیں کیا، اپنے ایٹمی پروگرام میں نئی سے نئی جدت لائی گئی اور 1962میں
ویپن گریڈ پلوٹونیم کی جگہ فیول گریڈ پلوٹونیم استعمال کیا گیا۔ امریکی
نیوکلیئر پروگرام میں مزید جدتیں بھی پیدا کی گئیں، اس نے اپنی ایٹمی
پروگرام کی استعداد اور ویپن کی مقدار اور تعداد میں بھی اضافہ کیا، ارتقا
اسی کا نام ہے۔
پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ اس کے کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں
ہیں مگر اس کا ایک عیار اور مکار دشمن سے پالا پڑا ہے۔ جس کے نزدیک پاکستان
کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ اسے جب بھی موقع ملا اس نے پاکستان کو نقصان
پہنچایا 71میں تو پاکستان ہی کو دولخت کردیا۔ اس نے یکطرفہ طور پر خطے میں
اسلحہ کی دوڑ شروع کر رکھی ہے۔ ستر کی دہائی میں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ
کر کے پاکستان کو ایٹمی توانائی کے حصول کی کوششوں پر مجبور کیا پاکستان
ایٹم بم بنانے میں کامیاب ٹھہرا بھارت کا ایٹمی پروگرام بھارتی جارحیت اور
پاکستان کا دفاع کیلئے ہے۔ بھارت پاکستان اور چین کے ساتھ ممکنہ جنگ کے
تناظر میں اپنی روایتی اور سٹریٹجک جوہری قوت کو جدید کرنے کیلئے مستقل طو
رپر کام کر رہا ہے۔ چین ایک بہت بڑی قوت ہے، بھارت اس کے مقابلے کی خواہش
کر سکتا ہے سٹریٹجک طور پر اس کے با المقابل نہیں آ سکتا، اس کا بڑا ٹارگٹ
پاکستان ہے۔ بھارت نے اپنے انوکھے تجربے سے آئی اے ای اے کو 2008میں جمع
کرائی گئی رپورٹ میں آگاہ کر دیا تھا جس پر اس بین الاقوامی ایجنسی نے چپ
سادھ لی جبکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اپ ڈیٹ کرنے پر بھی تنبیہ کی
جاتی رہی۔ امریکہ کی آنکھوں سے بھارتی انوکھے تجربات اوجھل نہیں ہو سکتے
مگر اس کی طرف سے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
بھارت نے اسی پر اکتفانہیں کیا حالیہ مہینوں پاکستان اور بھارت کے مابین
ایک دوسرے کے ملک کی نیوکلیئر انسٹالیشن اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے
کے حوالے سے 1998 میں طے پا جانے والے باہمی معاہدے کے تحت جب پاکستان اور
بھارت نے ایک دوسرے کی نیوکلیئر انسٹالیشن کی فہرستوں کا تبادلہ کیا تو
بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے علاقے چلاگیرے میں قائم خفیہ نیوکلیئر
انسٹالیشن بھارتی فہرست میں شامل نہیں کی گئی جس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے
بھارت میں خفیہ نیوکلیئر سٹی کی موجودگی اور وہاں ہائیڈروجن بم اور بین
البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تیاری کا انکشاف کرتے ہوئے بھارتی اقدام پر
تشویش کا اظہار کیا اور اسے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ قرار
دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب خفیہ بھارتی نیوکلیئر سٹی کی تعمیر کا
انکشاف کیا گیا ہو، اس سے قبل ایک امریکی جریدے فارن پالیسی نے خفیہ بھارتی
نیوکلیئر سٹی کی تعمیر اور وہاں ہائیڈروجن بم کی تیاری کا انکشاف کیا تھا۔
امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت کرناٹک کے علاقے
چلاگیرے میں ایک نیوکلیئر سٹی تعمیر کررہا ہے جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا
سب سے بڑا جوہری شہر ہوگا۔ یہ منصوبہ 2017کے اختتام تک پایہ تکمیل تک پہنچ
جائے گا جہاں قائم ایٹمی ریسرچ لیبارٹریوں میں یورینیم کی افزودگی کرکے
جوہری ہتھیاروں میں خاطر خواہ اضافہ اور ہائیڈروجن بم جیسے ایٹمی ہتھیار
بنائے جائیں گے۔اتنا اہم انکشاف منظر عام پر آنے کے باوجود اقوام متحدہ،
امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھارت کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ایران نے
جب اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں ایران کے
خلاف متحد ہوگئیں اور ایران پر پابندیاں عائد کردی گئیں، اسی طرح عراق پر
خطرناک ہتھیار بنانے کا الزام لگاکر تہس نہس کردیا گیا، لیبیا نے ایٹمی قوت
بننے کی کوشش کی تو اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا جبکہ امریکہ اور دیگر عالمی
طاقتیں ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے پاکستان پر دبا ڈالتی رہیں اور
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسلامی بم کا نام دے کر پوری دنیا میں منفی
پروپیگنڈہ کیا گیا مگر بھارت کے معاملے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں
کا دہرا رویہ معنی خیز ہے جس سے یہ تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ بھارت کو
امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو بھارت کو خفیہ طور پر
بڑی ایٹمی طاقت بنانے میں معاونت کرکے ایک بہت خوفناک کھیل، کھیل رہی ہیں
ادھر پاکستان کے حوالے سے کوئی معاملہ سامنے آئے تو اقوام متحدہ، آئی اے ای
اے اور امریکہ آگ بگولہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام
ایک سطح پر روک رکھا ہے مگر جو بھی ہے اسے جدید تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا
جاتا ہے۔ اس پر بے جا واویلا کیا جاتا ہے۔ |